”ڈٹے رہو عمران خان”

امریکہ کی ایک عادت ہے کہ وہ صرف اپنے مفادات کو دیکھتا ہے جہاں اس کے مفادات کو ٹھیس پہنچے وہاں وہ چڑھ دوڑتا ہے عراق,شام,ایران اور افغانستان کی جنگیں اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں یہ وہ دوست ہے جس کا شکار سب سے پہلے اس کے دوست ہی بنتے ہیں بہترین مثال پاکستان اور یوکرین ہی لے لیں پاکستان نے امریکی جنگوں میں 80 ہزار سے زائد جانیں گنوائی ہیں اور اربوں ڈالرز کا نقصان کیا ہے لیکن امریکہ نے ھمیشہ ڈومور کا راگ الاپا ہے اسی طرح یوکرین جو تقریباً نیٹو رکن بن چکا تھا اور امریکہ کی شہہ پر سینہ چوڑا کرکے اپنے سے کئی گنا بڑے اور دنیا کی دوسری بڑی سپر پاور روس کو للکارنے لگا جب جنگ کا محاذ بن گیا تو آج یوکرین کی حالت ساری دنیا کے سامنے ہے۔
عمران خان کے وزیراعظم بنتے ہی امریکہ نے حسب عادت حکم چلانا شروع کیا اور موجودہ قیادت کو دبانے کی کوشش کی لیکن یہ پرچی وزیراعظم نہیں تھا جو دب جائے اس نے امریکہ کو صاف بتادیا کہ ہم امن میں تو تمہارے ساتھ چل سکتے ہیں لیکن جنگ میں کسی صورت ساتھ نہیں دیں گے ڈونلڈ ٹرمپ کے بعد جوبائیڈن نے جیسے ہی حلف لیا اس نے پاکستان کیخلاف شکنجہ کسنا شروع کردیا فیٹف اور آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاسکیں لیکن عمران خان اور ان کی حکومت کی بہترین حکمت عملی کی وجہ امریکہ کو منہ کی کھانی پڑی ڈور مور کا مطالبہ کرنیوالے امریکہ کو عمران خان کھٹکنے لگا جس کی وجہ نے امریکی صدر نے عمران خان سے دوری اختیار کرلی یعنی بڑے میاں ناراض ھوگئے انہوں نے اندرونی طور پر اینٹی پاکستانی لابنگ کو ابھارنا شروع کردیا چونکہ متحدہ اپوزیشن جوکہ دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن,پیپلزپارٹی اور مولانا فضل الرحمن کی جے یوآئی ف متعدد سیاسی جماعتوں کے اکٹھ جوکہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے حکومت کیخلاف جدوجہد کررہا تھا اسکو متحرک کردیا۔
روس اور یوکرین کی جنگ شروع ھوئی تو امریکہ اور اسکے اتحادیوں یورپی یونین اور نیٹو نے تمام ممالک کو روس کے بائیکاٹ کا حکم دیا کہ تمام ممالک مل کر روس کے یوکرین پر حملے کی مذمت کریں وزیراعظم پاکستان عمران خان کا دورہ روس شیڈول تھا اس کو رکوانے کیلئے امریکہ اور یورپی یونین نے پاکستان پر دباؤ ڈالا کہ اسکو کینسل کردیا جائے لیکن عمران خان ڈٹ گئے اور شیڈول دورہ کینسل کرنے سے انکار کردیا۔
یہ وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جب ھماری آزاد خارجہ پالیسی کا آغاز ھوا جوکام ھمیں 1950 میں کرنا چاہیئے تھا وہ کام ہم نے اب شروع کیا۔
عمران خان کے دورہ روس کو بھرپور کوریج ملی اور عالمی سطح پر عمران خان ایک بااثر حکمران کے طور پر ابھرے۔ ظاہر ہے یہ بات امریکہ اور اسکے اتحادیوں کو کیسے ہضم ھوسکتی تھی لہذا انہوں نے اقتدار کے انتظار میں بیٹھے سیاسی مہروں کو متحرک کردیا کہ اس حکومت کو ہر صورت گرائیں چونکہ عالمی سطح پر کورونا اور پھر روس یوکرین جنگ کے پیش نظر مہنگائی بڑھ چکی تھی عالمی منڈیوں میں پٹرولیم مصنوعات 130 ڈالر فی بیرل سے تجاوز کرچکی تھی جس کی وجہ سے پاکستان سمیت پوری دنیا میں مہنگائی کا سونامی آیا ھوا تھا اس کو بنیاد بناکر پی ڈی ایم نے سڑکوں پر آنے کا فیصلہ کیا اور اسمبلی میں بھی وزیراعظم عمران خان کے کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا۔
عمران خان نے پچھلے دنوں دورہ میلسی میں امریکہ اور یورپی یونین کو للکارتے ھوئے کہا کہ ہم تمہارے غلام نہیں کہ جو تم کہو گے ھم مانیں گے انہوں نے یورپی یونین کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔
یہ ہیں و? وجوہات جو اپوزیشن کو چین سے بیٹھنے نہیں دیتی
عالمی میڈیا نے عمران خان کے میلسی والے خطاب کو شہ سرخیوں میں جگہ دی۔
روس کا خبر رساں ادارہ sputnik سرخی لگاتا ہے کہ عمران خان نے کہا "کیا ہم تمہارے غلام ہیں اور عمران خان مغرب کی اس بات پہ بھڑک اٹھے کہ پاکستان روس کی یوکرین کے معاملے پر مذمت کرے۔
عالمی خبر رساں ادارے The Reuters نے سرخی لگائی کہ مغربی سفارت کاروں نے روس و یوکرین کے معاملے پر جو پاکستان کو مشترکہ خط لکھا اس کا عمران خان نے بڑا سخت جواب دیا ہے۔
امریکن اخبار The Hill نے لکھا کہ روس کے معاملے پر جو دباؤ ڈالا جا رہا تھا عمران خان نے اس کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے کہا ہے کیا ہم تمہارے غلام ہیں۔
خبر رساں ادارے TRT Word نے رپورٹ کرتے ہوئے لکھا کہ عمران خان نے کہا مغربی ممالک ہمیں رشیا اور یوکرین کے معاملے پر لیکچر نہیں دے سکتے اس وقت جب وہ انڈیا کے کشمیر پر ہونے ہونے مظالم کو اگنور کررہے ہیں اور خاموش ہیں۔
باہر کا میڈیا تسلیم کررہا ہے کہ یہ شخص آزاد ہے اور اپنے ملک کی آزاد خارجہ پالیسی بنانا چاہتا ہے اور یورپی یونین نے بھی تسلیم کیا کہ ہم نے جو مراسلہ بھیجا تھا وہ عالمی و سفارتی آداب کے خلاف تھا۔
جبکہ ہمارے ہاں کیا صحافی کیا دانشور کیا سیاسی کرپٹ گلدستے رو رو کے کہہ رہے ہیں ہم نے غلامی سے باہر نہیں نکلنا وہ ہمارے مائی باپ ہیں ان کے بغیر ہم بھوکے مرجائیں گے وہ یہ کردیں گے وہ کردیں گے۔
اصل میں ہمارا سابقہ ٹریک غلاموں والا اور ہر بات پہ لیٹنے والا ہے اور انہیں بھی پتہ ہے کہ انہیں بیٹھنے کا کہا جائے تو یہ لیٹ جاتے ہیں۔جب غلامی مزاج میں رس بس جائے ،دولت لینے یا بچانے کا مرحلہ درپیش ہو تو ایسے ہی نعرے سننے کو ملتے ہیں۔
مگر اب ایک ایسے مرد مجاہد سے پالا پڑا ہے جو اپنے ملکی مفاد کو جان سے زیادہ عزیز رکھتا ہے اس کو اقتدار کی ہوس نہیں ہے وہ اپنی نسل کا نہیں بلکہ ہماری نسلوں کی فکر کررہا ہے اس کا کوئی کاروبار ہے نہ ہی کوئی مفاد اس نے جتنی عزت اور پیسہ کمانا تھا وہ کرکٹ میں ہی کمالیا یہ بات اس ملک کے بچے بچے کے ذہن میں ڈالنی ھوگی کہ اگر عمران خان ناکام ھوگیا تو شاید دوبارہ کوئی ایسا لیڈر آئے کیونکہ قائداعظم کے بعد ان ستر اکہتر سالوں میں دو ہی لیڈر ایسے آئے ہیں جنہوں نے پاکستان کو دنیا میں ممتاز بنادیا پہلے عظیم لیڈر جناب ذوالفقار علی بھٹو تھے جن کو ایٹمی پروگرام شروع کرنے کی پاداش میں سولی لٹکادیا گیا اور دوسرے لیڈر عمران خان ہیں جو اس ملک کی خارجہ پالیسی آزاد بنانا چاہتے ہیں جن کو ہٹانے کیلئے ملک میں ایک عجیب سا سماں پیدا کردیا گیا ہے جس طرح ترک صدر کو بچانے کیلئے عوام ٹینکوں کے نیچے لیٹ گئے تھے عمران خان کیلئے بھی عوام کو باہر نکلنا ھوگا کیونکہ یہ جنگ پاکستان کے بقائ کی جنگ ہے جو عمران خان لڑ رہا ہے اس جنگ کو جیتنے کیلئے قوم کو ان کے شانہ بشانہ آنا ھوگا۔
بلاول بھٹو کا عوامی مارچ اور تحریک عدم اعتماد عمران خان کو بہت مضبوط کردے گی بظاہر تحریک انصاف اور عمران خان کیلئے مشکلات ہیں لیکن وہ اس میں سرخرو ھوں گے اور امریکن و یورپئین لابی کو منہ کی کھانی پڑے گی۔
اس قوم کو عمران خان کے ساتھ عہد کرنا ھوگا کہ عمران خان آپ ڈٹے رہیں یہ قوم آپ کیساتھ ہے۔
یقیناً وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو مشکلات کا سامنا کرتے ھوئے مشکل ترین فیصلے لیتی ہیں اب فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے بطور قوم ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہمیں عمران خان کی صورت میں آزاد خارجہ پالیسی کو چننا ہے یا لیٹنے والوں کیساتھ کھڑے ھوکر غلامی کی زنجیریں پہننی ہیں۔
یہ فیصلہ اب قوم کو کرنا ہے۔
عمران خان کی جیت اس ملک کو ترقی کی بلندیوں پر پہنچا دے گی اور ملک میں ایک نئے نظام کی ابتدائ ھوگی انشائ ?..
خدا میرے ملک کو ھمیشہ قائم و دائم رکھے۔آمین