قومی سلامتی پالیسی اور خوش باش پاکستانی

وزیر اعظم عمران خان کی صدارت میں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ملک کی عسکری اور سیاسی قیادت نے پہلی قومی سلامتی پالیسی کی منظوری دی جس کے بعد وفاقی کابینہ نے بھی اس پالیسی کو منظور کر لیا۔ اس پالیسی میں کہا گیا ہے کہ ملک کے کمزور طبقات کا تحفظ اور وقار یقینی بنایا جائے گا۔ اس کا محور معاشی تحفظ ہوگا۔ یہی شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنائے گی۔ وزیر اعظم عمران خان نے اس موقع پر کہا کہ شہریوں کا تحفظ ہی ملک کا تحفظ ہے۔ پاکستان کسی بھی داخلی اور خارجی خطرے سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف نے کہا ہے کہ جلد ہی قومی سلامتی پالیسی کو عوام کے لیے مشتہر کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ معیشت مضبوط ہوگی تو ہم عوام پر خرچ کر سکیں گے۔ قومی سلامتی پالیسی کا سلسلہ 2014 سے شروع ہوا تھا۔ سول اور ملٹری لیڈر شپ نے مل کر کام کیا اور آج جو مسودہ منظور ہوا اس پر تمام اداروں کا اتفاق ہے۔ قومی سلامتی پالیسی کے خدوخال کیا ہیں اور اس میں کس سوچ کی عکاسی کی گئی ہے یہ تو مسودہ پبلک ہونے کے بعد ہی معلوم ہوگا مگر پچھتر سال بعد ہی سہی بالادست طبقات اور حکمران کلاس کو عوام کا خیال آ ہی گیا یہی خوشی کی بات ہے۔
بیتے ہوئے ماہ وسال میں ناقدین کا اصرار تھا کہ ملک سیکورٹی اسٹیٹ بن کر رہ گیا ہے۔ یہاں انسانوں کی زندگی کو بہتر بنانے کے بجائے جغرافیائی حدود کے دفاع پر زیادہ تر وسائل خرچ کیے جاتے ہیں۔ دفاعی اداروں کا اس پر اپنا موقف تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اول تو دفاع کے لیے کوئی غیر معمولی بجٹ نہیں رکھا جاتا جو مختص بھی ہوتا ہے وہ ملکی دفاع کے لیے ناگزیر ہے۔ بھارت جیسے ہمہ وقت آمادہ فساد اور توسیع پسند ہمسائے اور دشمن کی موجودگی میں دفاع کے کام سے غافل نہیں ہوا جا سکتا۔ اس دلیل میں بھی خاصا وزن تھا۔ اب جبکہ دفاع کے جدید طریقے سامنے آئے ہیں اور دشمنی کے انداز بھی یکسر بدل گئے ہیں تو اب روایتی دفاعی پالیسی میں بھی تبدیلی ناگزیر ہوتی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا کی آمد نے کسی بھی ملک ومعاشرے میں بے چینی پیدا کرنے اور نقب لگانے کو آسان بنادیا ہے۔ اسی لیے اب ملکی دفاع میں عوام کی شرکت کو یقینی بنانا بھی ضروری ہو گیا۔ معاشی اعتبار سے خوش حال اور خوش وخرم عوام ہی رضاکارانہ طور پر دفاعِ وطن کا فریضہ انجام دے سکتے ہیں۔ معاشی طور پر ناآسودہ، اداس، غیر مطمئن عوام کبھی سرفروشی کے کسی بڑے کام کے لیے گھروں سے باہر نہیں نکلتے۔ معاشی طور پر بدحال عوام اپنی ریاست سے لاتعلق ہوتے ہیں۔ ناراض اور نالاں ہونا بھی ایک تعلق کی علامت ہوتی ہے مگر لاتعلقی میں عجیب احساس بیگانگی پایا جاتا ہے۔ اکثر اوقات عوام کو لاتعلقی کی حدوں تک معاشی حالات لے جاتے ہیں۔
پاکستان کے عوام ہی کا حوصلہ ہے کہ معاشی حالات کی خرابی کے باوجود ان کا شمار خطے کے سب سے زیادہ خوش باش لوگوں میں ہوتا ہے۔ گیلپ پاکستان کے ایک سروے کے مطابق پینسٹھ فی صد پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ خوش ہیں جبکہ تیئس فی صد نے ناخوشی کا اظہار کیا ہے۔ گیلپ سروے کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ خوش افراد کی شرح خیبر پختون خوا کے عوام میں تھی۔ اس خوشی کا اظہار عوام نے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں بھی کیا ہے۔ تصور کریں اگر یہی عوام خدانخواستہ ناخوش ہوتے تو وہ اس کا اظہار کس طرح کرتے؟۔ بھارت میں اکسٹھ فی صد اور افغانستان میں پینتالیس فی صد افراد نے خوش ہونے کا اعتراف کیا۔ اس سروے کے نتائج پر پاکستانی عوام کے عزم وہمت کو داد دینا پڑتی ہے کہ ہر سطح پر کرپشن، بیوروکریسی کے سرخ فیتوں، میرٹ کی عدم موجودگی، ہوائوں میں اڑتی مہنگائی کے باوجود پاکستانی عوام خوش ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ صبر وشکر کا یہ اعلی میعار اور مقام پاکستانی عوام ہی کے حصے میں آیا ہے۔ تیونس میں تو ایک ریڑھی الٹنے پر حکومت ہی الٹ گئی تھی اور یہی واقعہ عرب بہار کی بنیاد بن کر حکمرانوں کے تخت وتاج بہا ڈالنے کا باعث بنا تھا۔ اب قومی سلامتی پالیسی میں پہلے سے خوش باش پاکستانی عوام کو مزید خوش کرنے کا سامان کیا گیا ہے تو اسے سونے پر سہاگہ ہی کہا جا سکتا ہے۔
پچھتر برس کا عرصہ عوام بے چارے رلتے ہی رہے۔ عوام ان برسوں کا حساب کس سے لیں۔ اب بھی جو پالیسی سامنے آئی ہے اس کا نفاذ اور عوام تک اس کے ثمرات پہنچنا ایک سوالیہ نشان ہے۔ پاکستان کا سسٹم بری طرح کرپٹ اور کام چور ہے۔ جن لوگوں کو یہ پالیسی زمین پر عملا نافذ کرنی ہے انہیں اپنی ذات سے آگے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ اسی لیے یہاں اچھی سے اچھی پالیسی بھی چند ماہ بعد ناکام ہو جاتی ہے۔ ملک کی ہر پالیسی بہت سوچ وبچار کے بعد تیار ہوتی ہے مگر اس کا نفاذ کرنے میں نیم دلی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ پالیسی تشکیل دیتے ہوئے جو جوش وجذبہ ہوتا ہے وہ نفاذ کا مرحلہ آتے آتے ماند پڑ جاتا ہے۔ اس قومی رویے اور تجربے کو دیکھتے ہوئے قومی سلامتی پالیسی کی کامیابی کے لیے دعا ہی کی جا سکتی ہے۔ یہ بات تو کسی حد واضح ہوچکی ہے کہ یہ معاشی اور دفاعی پالیسی کا امتزاج ہوگی اور اس میں عوام کو خوش حال اور آسودہ کرکے ریاست کے دفاع میں شراکت دار بنانے کا تصور غالب ہوگا۔ جس پالیسی میں عوام کو مرکزیت اور اہمیت دی گئی ہو خواص کو ایک آنکھ نہیں بھاتی اور یہی پالیسی کی ناکامی کی بنیادی وجہ ہوتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭