پارلیمنٹ کے اجلاس میں حکومتی کامیابی

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود پی ٹی آئی کی حکومت 33 بل منظور کرانے میں کامیاب ہو گئی۔ انتخابی اصلاحات کے حوالے سے بل پر متحدہ اپوزیشن کو اعتراضات تھے اور اس حوالے سے 11 نومبر کے اجلاس سے قبل ہی متحدہ اپوزیشن کی جانب سے حکومتی اقدامات پر تنقید کا عمل جاری تھا لیکن اب حکومت واضح طور پر کامیاب ہوچکی ہے تاہم اپوزیشن کے اعتراضات بھی موجود ہیں لیکن اس قانون سازی سے افواہوں کا بازار بھی ٹھنڈا ہوگیا ہے جو ایک پیج کے بارے میں قیاس کیا جارہا تھا وہ بھی اب اپنی موت آپ مرچکا ہے۔ کیونکہ اپوزیشن کا خیال تھا کہ حکومت اور مقتدر حلقوں میں ادارہ جاتی ٹرانسفرز اور پوسٹنگ کے حوالے سے اختلافات بڑھ چکے ہیں اس لئے اب حکومت کا اقتدار ڈول رہا ہے اور اب قانون سازی کا عمل بھی ممکن نہیں ہے۔ لیکن وزیر اعظم عمران خان کا اعتماد اپنی جگہ پر قائم دائم تھا اور بالآخر حکومت نے ہدف حاصل کر لیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا واقعی اپوزیشن اب اس قانون سازی کو اعلی عدالتوں میں چیلنج کریگی یا پھر پرانی تنخواہ پر ہی کام کرتی رہے گی۔ اس عمل سے اب اپوزیشن کو بھی آگے بڑھتے وقت سوچنا چاہیے کہ وہ آئندہ بھی اسی طرح کے سہاروں پر عوام کے حقوق کی جنگ لڑیں گے یا پھر کو ئی پائیدار راستہ اختیار کریں گے؟اب تک تو اپوزیشن کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے اور حکومت کے اتحادی جن کے متعلق تحفظات تھے کہ وہ اب حکومت کا ساتھ چھوڑ دیں گے ایسا بھی نہیں ہوسکا جبکہ حکومت اب مزید مضبوط ہوکر یہ دعوی کررہی ہے کہ وہ اب عوام کے مسائل حل کریگی۔ دیکھنا ہوگا کہ حکومت کو ملنے والا ریلیف کیا عوام کی تکالیف کو بھی کم کریگا یا عوام ایسے ہی مہنگا ئی کی چکی میں پستے رہیں گے۔دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو مسلم لیگ نون کے قائد میاں نواز شریف کے حوالے سے پھیلائی جانے والی خبریں کہ پنڈی کی اہم شخصیات کی لندن میں ان سے ملاقات ہوئی ہے اور معاملات طے پا چکے ہیں، جیسی خبریں بھی دم توڑ رہی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اور ان کی کور ٹیم وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری، وفاقی وزیر مملکت فرخ حبیب، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، بابر اعوان، پرویز خٹک، شہریار آفریدی، ڈاکٹر شہباز گل اور شیخ رشید نے مل جل کر کپتان کی سربراہی میں ٹونٹی 20 ورلڈ کپ ایک مرتبہ جیت لیا ہے۔ وزیراعظم نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومتی بلوں کی منظوری کروا کر اتحادی جماعتوں کی ناراضی اور اسٹیبلشمنٹ کا ایک پیج پر نہ ہونے کی خبروں کو بھی زائل کر دیا ہے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کو کامیاب بنانے کے حوالے سے اگر وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کا ذکر نہ کیا جائے تو ناانصافی ہوگی۔ سردار عثمان بزدار جنہوں نے دبئی ایکسپو2020 میں شرکت کرنی تھی، وہ پروگرام بھی منسوخ کر دیا اور پنجاب اور خاص طور پر جنوبی پنجاب کے وہ اراکین قومی اسمبلی جو پی ٹی آئی کی حکومت سے ناراض تھے ان کے گھروں میں جاکر ان کو ناصرف منایا بلکہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کر کے بلوں کی منظوری بارے بھی یقینی وعدے وعید لئے۔ وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار مشترکہ پارلیمنٹ کے اجلاس سے ایک روز قبل اسلام آباد چلے گئے تھے جو رات گئے تک وہیں قیام پذیر رہے۔ اپنے پچھلے کالم میں تحریر کیا تھا کہ پی پی ٹی آئی سے مذاکرات کے لیے عثمان بزدار کو ٹاسک سونپنا چاہیے جو نہ صرف اپنے قبیلے کا سردار ہے بلکہ ایک دیہاتی کلچر پنچایت کی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص ہے۔ لگ یہ رہا ہے کہ اپوزیشن کے ساتھ ایک مرتبہ پھر ہاتھ ہو گیا ہے کیونکہ مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن کے رہنماوں کی باڈی لینگویج اس قدر ڈسٹرب نظر آئی جس سے ان کے اندرونی حالات سمجھنے میں بہت آسانی ہو رہی تھی۔ سپیکر سے دھینگا مشتی جھگڑا اس بات کی نشاندہی تھی کہ ان سے کسی نے کچھ اور بات کی ہے اور گراونڈ ریئلٹی پہ کچھ اور نظر آ رہا ہے ۔چند روز پہلے محسوس ہو رہا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت چند روز کی مہمان ہے بلکہ نگران وزرا اعظم یا ان ہاوس تبدیلی کی صورت میں دو نام بھی لکھے اور پکارے جا رہے تھے ۔جب بات یہاں تک پہنچ جائے تو اجلاس میں حکومتی قوانین کی منظوری اپوزیشن رہنماوں کے لیے ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت میں اپنے قوانین کی منظوری کامیابی سے کروا لی ہے۔ اب پی ٹی آئی کی حکومت وزیراعظم وزرا اعلی اور وفاقی و صوبائی وزرا کو ایک کام پر ہماتن گوش ہو جانا چاہیے کہ مہنگائی کو ہرصورت کنٹرول کرکے اسکے جن کو بوتل میں بند کرنا ہے۔ اگر ایسا کرنے میں پی ٹی آئی کامیاب ہو جاتی ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے 80 فیصد فائدہ پی ٹی آئی کو ہی پہنچے گا اس طرح آئندہ حکومت بنانے میں بھی پی ٹی آئی کو مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔