6نومبر 1947 : جموںوکشمیر کے مسلمانوں کا قتل عام!

قارئینِ کرام!6 نومبر 1947 مقبوضہ جموں و کشمیرکی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ یوں کہا جائے کہ یہ دن دورِ جدید کی تاریخ میں مسلم نسل کشی کا بھی ایک سیاہ باب ہے تو قطعَ غلط نا ہوگا ، اِس دن دو لاکھ سے زائد مسلمانوں کو اُس وقت شہید کیا گیا جب وہ پاکستان کی طرف ہجرت کر رہے تھے۔اس کے علاوہ ریاست جموں کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے حوالے سے 6 نومبر 1947 کا دن ایک علامتی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ دن ان شہداء کی یاد میں آزاد جموں و کشمیر، پاکستان اور پوری دنیا میں منایا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ ان قربانیوں نے پوری دنیا کو بتایا کہ بھارت کے غیر قانونی قبضے اور مقبوضہ جموں و کشمیرکے لوگوں پر ظلم و جبر کے باوجودکشمیر کے عوام پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور یہ قربانیاں اس امر کو بھی اجاگر کرتی ہیںکہ کشمیریوں کا دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتا ہے ۔قارئین ، اگر تاریخ کے سیاہ اوراق کو پرکھا اور سمجھا جائے تو یہ بات باآسانی آیاں ہوتی ہے کہ مسلم نسل کشی کی منصوبہ بندیقیامِ پاکستان کے اعلان کے ساتھ پہلے ہی دن شروع کر دی گئی تھی ۔ چونکہ، 19 جولائی کو مسلم کانفرنس نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرارداد منظور کی تھی۔ جس کے دردِ عمل میں مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں نے جشن منایااور بے حد خوشی کا اظہار کیا تھا ۔ بعد ازاں، کشمیریوں کا پاکستان کے ساتھ اس ہی جذبہ اور محبت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہندو اور ڈوگرہ حکومت ہل گئی اور انہوں نے مسلمانوں کو ختم کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد شروع کر دیا۔ اس ضمن میں ادھم پور، ریاسی، کھٹیا، رامسو، رام نگر، یانی ہور کوٹلی، قصبوں میں مسلمانوں کا خون بہایا ۔ انتہا پسند ہندوؤں اور سکھوں نے ہزاروں دیہاتیوں کو دھوکے سے گھروں سے باہر نکال کر گولیاں برسانا شروع کر دی۔قارئین کرام! یہاں یہ بات واضح رہے کہ راشٹریہ سویم سیاک سنگھ (آر ایس ایس) کے کارکنوں نے مقبوضہ جموں و کشمیرمیں مسلمانوں کی نسل کشی کی منصوبہ بندی اور اس کو انجام دینے میں اہم کردار ادا کیا جو سلسہ تاحال ایک منظم سازش کے تحت جاری ہے ۔اس کے علاوہ اسی دوران ہزاروں معصوم بچیوں اور خواتین کو اغوا کیا گیا۔ حیران کن پہلو یہ ہے کہ قتل عام اتنا منظم تھا کہ جب نومبر کے ابتدائی دنوں میں جموں میں یہ قتل عام ہوا تو سری نگر میں کسی کو اس کا علم نہیں تھا۔ دراصل یہ سب کانگریس حکومت کے کہنے پر ہوا۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ گزشتہ 74 سالوں سے ہندوتوا نظریے کے تحت کشمیریوں کو ایک جامع حکمت عملی کے ذریعے نسل کشی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ واضح رہے، آج بھی بھارتی قابض افواج نت نئے طریقہ کاراپنائے ہوے ، آبادیاتی تبدیلی، جبری گمشدگیاں، حراستی قتل و دیگر حربوں کے ذریعے کشمیریوں کی تحریک ِ آزادی کو کچلنے کی کوشش پر عمل پیرا ہے ۔ قارئین کرام، یاد رکھیں ! مسئلہ کشمیر کا حل اسی وقت ممکن ہے جب مسئلہ کے دو اہم فریق پاکستان، بھارت مل کر باوقار حل تلاش کریں۔ اس ضمن میں ریاستِ پاکستان بارہا اقوامِ عالم کو واضح کر چُکا ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کا حل کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق حل طلب چاہتا ہے جبکہ اس کے بر عکس بھارت مسئلہ کشمیر کو دبانے کی پالیسی پر گامزن ہے۔خیال رہے ،بھارت کے پہلے وزیراعظم نے عالمی برادری اور خود کشمیریوں سے وعدہ کیا تھا کہ کشمیریوں کو حق خودارادیت دیا جائے گا۔ لیکن، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندوستان کا موقف بدلتا گیا اور وعدہ اب تک پورا نہہو سکا۔ اقوامِ عالم کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن اسی صورت میں ممکن ہے جب دو جوہری مسلح ممالک کے درمیان یہ دیرینہ تنازعہ حل ہو جائے، اگر ایسا نہ کیا گیا تو خطے میں امن، سلامتی اور استحکام ممکن نہیں۔ مزید یہ کہ خطے میں کسی بھی ممکنہ جنگ کی صورت میں عالمی برادری کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اس کا ذمہ دار صرف اور صرف بھارت ہے، جوغیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر پر قابض ہے اور رائے شماری کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں سے بھاگ رہا ہے۔ اس کے علاوہ مقبوضہ وادی پر بھارت کے جارحانہ قبضے اور اس کے جارحانہ رویے کے باعث پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں اضافے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت کی ہندوتوا فاشست سرکا ر نے بھی معاملات کو اس سمت میں لے جانے کے انتظامات کر لیے ہیں اور آئے روز بھارتی افواج کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ کیا جا رہا ہے جیسا کہ گزشتہ کل مزید پانچ ہزار فوجیوں کو تعینات کرنے کے احکامات جاری کئے گئے ہیں ۔ اگرچہ، مسئلہ کشمیر حل نہ ہوا تو دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی کا خاتمہ ممکن نہیں۔ اگر یہ مسئلہ جوہری طاقت کے استعمال کی طرف جاتا ہے تو اِس کے عالمی امن پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ عالمی برادری مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرے اور ممکنہ تباہ کن صورتحال سے بچنے کی کوشش کرے۔