چیف الیکشن کمشنر سیاست کرنا چاہتے ہیں تو عہدہ چھوڑ کر الیکشن لڑیں، فواد چوہدری

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر اپوزیشن کے آلہ کار کے طور پر کام کرنا چاہتے ہیں لیکن اگر انہیں سیاست کرنی ہے تو الیکشن کمیشن کو چھوڑیں اور الیکشن لڑ کر خود پارلیمنٹ میں آ کر اپنا کردار ادا کریں۔

جمعہ کو وفاقی وزیر ریلویز اعظم سواتی اور وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے فواد حسین نے کہا کہ شاہد خاقان عباسی اینڈ کمپنی مل کر الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال سے متعلق قانونی ترمیم متنازع بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی تمام لیڈر شپ کو صرف ایک ہی ہنر آتا ہے کہ مقدموں میں تاریخ کیسے لینی ہے، وہ یہ سمجھنے سے عاری ہیں کہ پارلیمنٹ مضبوط ہوگی تو ملک کے عوام مضبوط ہوں گے اور ملکی سیاست بہتر ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ ووٹ کو عزت دو کی بات کرنے والوں کو جب ڈیل کا موقع ملتا ہے تو وہ فوراً ڈیل پر آ جاتے ہیں، کسی بھی جگہ پر اصلاحات کی بات ہو تو اپوزیشن اسے چھوڑ کر ڈیل کے پیچھے پڑ جاتی ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے مزید کہا کہ اپوزیشن والے ایک دوسرے کے کپڑے چوک میں اتار رہے ہیں، یہ ایک دوسرے کو خود ہی ننگا کر رہے ہیں، مولانا فضل الرحمٰن، بلاول کو اور بلاول مولانا کو اور پھر دونوں مل کر مسلم لیگ (ن) کو سنا رہے ہیں، یہ چھوٹے لوگ ہیں، ان کی سوچ چھوٹی ہے، ان سے بھلائی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔

انہوں نے کہا کہ 2013 کے انتخابات کے تحت وجود میں آنے والی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے نواز شریف کو وزیر اعظم بننے پر مبارکباد دی تھی اور کہا تھا کہ تمام جماعتیں کہہ رہی ہیں کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے اور مطالبہ کیا تھا کہ آپ سارا الیکشن نہیں کھولنا چاہتے تو چار حلقے کھول دیں تاکہ الیکشن میں دھاندلی کا سبب سامنے آ سکے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کی تقریر پر کسی نے توجہ نہ دی جس کے نتیجے میں پاکستان کی سیاسی تاریخ کی ایک بڑی تحریک کا آغاز ہوا، اس تحریک کا مقصد شفاف، منصفانہ اور آئین کے مطابق الیکشن کروانا تھا، یہ تحریک جوڈیشل کمیشن کے قیام پر منتج ہوئی جس کے سربراہ جسٹس ناصر الملک تھے۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ جسٹس ناصر الملک نے تمام جماعتوں کو سنا اور اس کے بعد انہوں نے اپنی سفارشات پیش کیں، ان کی سفارشات میں یہ بات بھی شامل تھی کہ ملک میں شفاف اور منصفانہ انتخابات کا طریقہ کار سو فیصد درست نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا ڈھانچہ سیاست پر مبنی تھا اور لوگوں کو اس پر اعتماد نہیں تھا، تحریک انصاف واحد جماعت ہے جس نے حکومت میں رہتے ہوئے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے لیے اپنی تجاویز پیش کیں اور ہم نے اپوزیشن کو دعوت دی کہ وہ ہمارے ساتھ بیٹھیں اور انتخابی اصلاحات پر بات کریں۔

انہوں نے کہا کہ کوئی بھی شخص پاکستان میں انتخابی نظام سے مطمئن نہیں ہے، سیالکوٹ، کشمیر انتخاب، گلگت بلتستان کے انتخابات اور ضمنی انتخابات سمیت جہاں جہاں اپوزیشن ہاری اس نے کہا کہ دھاندلی ہوئی ہے، اس صورتحال میں عمران خان وزیراعظم ہوتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اگر انہیں لگتا ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے اور پاکستان کے عوام انتخابی اصلاحات پر غیر مطمئن ہیں تو اس کا حل یہی ہے کہ سیاسی قیادت بیٹھ کر فیصلہ کرے کہ ملک میں کس نظام کے تحت الیکشن ہونے چاہئیں جو قابل قبول ہوں۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ہم انتخابی عمل میں ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا چاہتے ہیں، سپریم کورٹ میں سینیٹ کے انتخابات کا معاملہ گیا تو عدالت عظمیٰ نے انتخابات میں شفافیت کے لیے ٹیکنالوجی کے استعمال کی ہدایت کی۔

انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 218 میں یہ تحریر ہے کہ انتخابات قانون کے تحت ہوں گے، قانون بنانے کا اختیار پارلیمان کے پاس ہے، کوئی بھی ملک اپنی پارلیمان کے وقار کو مجروح نہیں ہونے دیتا کیونکہ عوام کی اصل آواز پارلیمنٹ سے آ رہی ہوتی ہے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ پارلیمان کو نظر انداز کرے، عوام کی آواز پارلیمنٹ سے آ رہی ہوتی ہے، یہ پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے لوگ فیصلہ کر رہے ہوتے ہیں کہ انہوں نے کس قسم کا نظام اپنانا ہے لہٰذا الیکشن کمیشن کی یہ منطق عجیب ہے کہ پارلیمنٹ ان کی رہنمائی نہیں کر سکتی ہے کہ انہوں نے الیکشن کیسے کرانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ سارا الیکشن کمیشن نہیں بلکہ صرف چیف الیکشن کمشنر اپوزیشن کے آلہ کار کے طور پر کام کرنا چاہتے ہیں، الیکشن کمیشن تو ایک ادارہ ہے اور اس کے مختلف حصے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر نواز شریف وغیرہ سے قریبی رابطے میں رہے ہیں اور ان کی ذاتی ہمدردی بھی ہو سکتی ہے لیکن اگر الیکشن کمیشن سمیت ہر ادارے کو پارلیمنٹ کو مان کر چلنا ہو گا، کسی بھی شخص کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ پارلیمان کو نیچا دکھائے اور کہے کہ ہم پارلیمنٹ کو نہیں مانتے بلکہ اپنا نظام بنائیں گے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ آج بھی سینیٹ کی کارروائی کے دوران الیکشن کمیشن کا رویہ پارلیمان کے استحقاق کو ٹھکرانے کے مترادف تھا اور بدقسمتی سے ذہنی بونوں پر مشتمل ہماری اپوزیشن کی صلاحیت اپنے کیسز سے آگے سوچنے کی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو اگر ٹیکنالوجی پر کوئی اعتراض ہے یا کسی چیز میں وہ بہتری لانا چاہتے ہیں تو وہ بتائے، اگر چیف الیکشن کمشنر نے سیاست کرنی ہے جس کا انہیں آئینی حق حاصل ہے، تو ان کو دعوت دوں گا کہ الیکشن کمیشن کو چھوڑیں اور خود الیکشن میں امیدوار آ جائیں، پارلیمنٹ میں آ کر اپنا کردار ادا کریں ۔

انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف سب سے بڑی پارٹی ہے، اگر ہم بھی الیکشن کمیشن سے مطمئن نہیں ہوں گے تو پھر وہ الیکشن کیسے کروائیں گے لہٰذا الیکشن کمشنر ایک ادارے کے سربراہ کے طور پر کام کریں۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے اصلاحات کے حوالے سے بتایا کہ قائمہ کمیٹی سے بل پر ایک تجویز بھی اپوزیشن کی جانب سے نہیں آئی، قومی اسمبلی سے بل منظور ہونے کے بعد 90 دن کے اندر سینیٹ سے منظور کرانا ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے نئی روایت قائم کی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں پیش ہوئے جہاں ہم الیکشن کمیشن کے سامنے ان کی جانب سے اٹھائے جانے والے اعتراضات پر سوال رکھنا چاہتے تھے تاہم ایسا پہلی بار ہوا کہ جس ادارے کے لیے ہم قانون سازی کرنا چاہتے ہیں، وہ اجلاس سے اٹھ کر چلا جائے۔

بابر اعوان نے بتایا کہ کمیٹی کے چیئرمین نے بلوچستان سے خاتون سینیٹر کو ویڈیو لنک کے ذریعے ووٹ کا حق دینے سے انکار کیا، آج سپریم کورٹ کی کارروائی ویڈیو لنک کے ذریعے ہوتی ہے، اپوزیشن نے پہلی بار حکومتی قانون سازی کو بلڈوز کیا اور اس عمل سے اپوزیشن بے نقاب ہوئی ہے، وہ اصلاحات اور تارکین وطن کے شراکت اقتدار کے دشمن ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دھاندلی سے اپوزیشن لیڈر بنانے کے الزامات لگانے والوں نے ایک دوسرے کو تسلیم کر لیا، انہیں خطرہ ہے کہ تارکین وطن کا ووٹ عمران خان کو ملے گا لیکن ہم تارکین وطن کو خوشخبری سناتے ہیں کہ ان کے بل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں لے کر جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ 13 ستمبر کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کر رہے ہیں جہاں صدر مملکت کے خطاب کے ساتھ چوتھے پارلیمانی سال کا آغاز کر رہے ہیں جس کے بعد بدھ کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلائیں گے، وہاں سے اس قانون کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کو بھجوائیں گے۔

وزیر اعظم کے مشیر نے سوال کیا کہ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ایک طرف اصلاحات کرنے والے ہیں اور دوسری طرف تمام سٹیٹس کو والے اس کے مخالف ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق جلد از جلد یہ قانون سازی کرے گی، حکومت نے نیب کی قانون سازی کا بیڑا اٹھایا تو اپوزیشن نے اس کی آڑ میں این آر او چاہا لیکن حکومت نے وہ بل بھی منظور کرایا۔

اس موقع پر وفاقی وزیر ریلوے اعظم سواتی نے کہا کہ پاکستان کی جمہوریت کی اساس اور شفاف انتخابات کرانے کے لیے حکومت اصلاحات لا رہی ہے، گزشتہ سال اکتوبر میں 49 ترامیم پارلیمان میں پیش کیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں الیکشن کمیشن کی ضروریات کے مطابق ہیں، سپریم کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں منصفانہ اور شفاف انتخابات کے لیے ٹیکنالوجی کی طرف جانا ضرورت ہے، الیکشن کمیشن کی یہ صوابدید ہے کہ وہ اپنے معیار کے مطابق الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا انتخاب کرے ۔

انہوں نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کے حکم پر من و عن عمل کرتے ہوئے ہم اپوزیشن کو شکست فاش دیں گے اور 2023 کے انتخابات صاف اور شفاف ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ بالادست ادارہ ہے، سندھ میں ناکام طرز جمہوریت کو حقیقی جمہوریت سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا لہٰذا شفاف انتخابات کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال ضروری ہے۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس سے الیکشن کمیشن کے واک آؤٹ کے حوالہ سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کوئی آئینی ادارہ اپنے آپ کو اگر ماورائے آئین سمجھتا ہے تو وہی ایسا کر سکتا ہے۔