اقتصادی بدحالی کے باعث جموں وکشمیر کے نوجوان خود کشی پر مجبور ہورہے ہیں، عمر عبداللہ بھارتی حکومت کشمیر کی زمینی صورتحال کا ادراک کرے ہٹ دھرمی کا راستہ ترک کیا جائے

سری نگر :  مقبوضہ کشمیر کے سابق  وزیر اعلی عمر عبداللہ نے بھارتی حکومت سے کہا ہے کہ جموں و کشمیر کی زمینی صورتحال کا ادراک کرکے ہٹ دھرمی کا راستہ ترک کیا جائے کشمیری عوام کے حقوق بحال کیے جائیں، اقتصادی بدحالی کے باعث جموں وکشمیر کے نوجوان خود کشی پر مجبور ہورہے ہیں ۔ ایک بیان میں عمر عبداللہ نے جنوبی ضلع کولگام میں نوجوان کی خودکشی کے دلخراش اور المناک واقعہ پر زبردست رنج و الم اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے واقعے کو بدقسمتی سے تعبیر کیاہے۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ مذکورہ نوجوان کے انتہائی اقدام نے بھارتی  حکومت کے ان گمراہ کن دعوئوں کی اصل حقیقت بیان کردی ہے جو 5اگست 2019کو جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن کے خاتمے کے وقت ملک کے عوام کے سامنے کئے گئے تھے۔ دفعہ35اے اور 370کے خاتمے کے وقت یہ کہا گیا تھا کہ جموں وکشمیر تعمیر و ترقی کی نئی بلندیوں کو چھو جائے گا، لوگوں کی زندگیاں انقلابی سطح پر بدل جائیں گی، پوری دنیا سے لوگ سرمایہ کاری کیلئے آئیں گے اور بے روزگاری کا خاتمہ ہو جائے گا لیکن آج جموں وکشمیر کے زمینی حالات بھارتی  حکومت کے دعوئوں کے عین برعکس ہے۔ انہوںنے کہا کہ5 اگست 2019 سے پہلے جموں وکشمیر ملک کے ترقی یافتہ ریاستوں کی صف میں کھڑی تھی کشمیری  عوام کا طرزِ زندگی بھی بھارت کی بیشتر ریاستوں کے لوگوں سے بہتر تھا لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ کشمیر میں تعمیر و ترقی کا نام و نشان نہیں، اقتصادی بدحالی عروج پر ہے، بے روزگاری نے تمام ریکارڈ مات کردیئے ہیں، غیر یقینیت نے عوام کو پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور لوگ ذہنی تنائو کے شکار ہونے کے علاوہ احساسِ محرومیت سے دوچار ہیں۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ کولگام کے 24سالہ نوجوان نے خودکشی سے قبل جس طرح سے اپنے اہل خانہ کی مشکلات بیان کئے ہیں ،وہ مرکزی حکومت کیلئے چشم کشا ہونے چاہئیں۔ انہوںنے کہاکہ ایک سرکاری ملازم کی تنخواہ بند رہنے سے اس کے اہل خانہ کی حالت اتنی انتہائی مشکل ہوسکتی ہے تو پھر اس بات کا اندازہ خود بخود لگایا جاسکتا ہے پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرنے والوں یا بے روزگار ہونے والوں کے گھروں کی حالت کیا ہوگی؟ عمر عبداللہ نے کہا کہ مذکورہ نوجوان کی خودکشی سے اس کے کنبے کی حالت زار عوام کے سامنے آگئی لیکن سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں کنبے ایسے ہیں جن کی حالت اس سے بھی بدتر ہے اور وہ منظر عام پر نہیں آتے۔ انہوں نے انتظامیہ پر زور دیا کہ ملازمین اور عارضی ملازمین کی تنخواہیں بلا تاخیر واگذار کریں اور مستقبل میں بھی وقت پر تنخواہوں اور اجرتوں کی فراہمی کو معمول بنائے۔