پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کے غیر مسلم شہریوں کو بھارتی شہریت دینے کا عمل شروع گجرات، چھتیس گڑھ، راجستھان، ہریانہ اور پنجاب کے تیرہ اضلاع میں درخواستوں کی وصولی

نئی دہلی : بھارت کی انتہا پسند مودی حکومت نے متنازعہ شہریت ترمیمی قانون 2019  کے تحت گجرات، چھتیس گڑھ، راجستھان، ہریانہ اور پنجاب میں  پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کے غیر مسلم شہریوں ( ہندوں، سکھوں، بدھ مت کے پیروکاروں، جینیوں اور مسیحیوں) کو بھارتی شہریت دینے کا  عمل شروع کر دیا ہے ۔ مودی حکومت نے ایک  نوٹیفکیشن جاری کرکے پانچ ریاستوں گجرات، چھتیس گڑھ، راجستھان، ہریانہ اور پنجاب کے مجموعی طور پر تیرہ اضلاع کے حکام کو یہ اختیار دے دیا ہے کہ وہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے غیر مسلموں کی جانب سے شہریت کی درخواستوں کو موجودہ ضابطوں کے تحت ہی موصول، تصدیق اور منظور کریں۔ غیر ملکی نشریاتی ادارے کے مطابق  بھارت میں تاحال شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) 2019 کے ضابطے ابھی وضع نہیں ہو سکے ہیں اس لیے اس نوٹیفیکیشن کو سی اے اے 2019 کے بجائے شہریت قانون 1955 اور شہریت ضابطے 2009  کے تحت جاری کیا گیا ہے۔اس نوٹیفیکیشن کے تحت پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کے ہندوں، سکھوں، بدھ مت کے پیروکاروں، جینیوں اور مسیحیوں کو شہریت دینے کا حکم دیا گیا ہے ،ان میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ درخواستیں آن لائن طلب کی گئی ہیں۔اپوزیشن کا الزام اپوزیشن جماعتوں کا الزام ہے کہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں رہنے والی اقلیتی برادری کے لوگوں کو شہریت دینے کا یہ معاملہ مودی حکومت کے فسطائی کردار” کو اجاگر کرتا ہے۔ انہوں نے مودی حکومت پر ‘چور دروازے سے سی اے اے 2019 نافذ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔مارکسی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سکریٹری سیتا رام یچوری کا اس حوالے سے کہنا تھا، یہ شہریت ترمیمی قانون کو چور دروازے سے نافذ کرنے کی کوشش ہے۔ حالانکہ ابھی تک تو سی اے اے کے آئینی جواز کے حوالے سے عدالت میں دائر عرضیوں پر سماعت ہی شروع نہیں ہوئی ہے اور  بھارتی  حکومت نے سی اے اے 2019کے ضابطے بھی وضع نہیں کیے ہیں۔”سیتا رام یچوری کا مزید کہنا تھا کہ مودی حکومت نے جس طرح نوٹیفکیشن جاری کیا ہے اس پر سپریم کورٹ کو فورا  کارروائی کرنی چاہیے اور متنازعہ قانون کو چور دروازے سے نافذ کرنے کی کوشش کو روک دینا چاہیے۔غیر ملکی نشریاتی ادارے کے مطابقبھارتی پارلیمان نے دسمبر 2019 میں شہریت ترمیمی قانون کو منظوری دی تھی، جس کے تحت یکم جنوری 2015 سے قبل بھارت میں موجود پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے ہندو، جین، سکھ، پارسی، مسیحی اور بودھوں کو شہریت دینے کی بات کہی گئی ہے لیکن اس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔اس قانون کی سخت نکتہ چینی ہوئی تھی اور اسے جانبدارانہ قرار دیا گیا تھا۔ اس قانون کے خلاف پورے ملک میں زبردست مظاہرے ہوئے تھے۔