23مارچ تاریخی اہمیت ؛ تجدید عہدِ وفا کا دِن!

تحریر: محمد اختر اسلم

23 مارچ 1940 قیامِ پاکستان کی تاریخ میں نا قابلِ فراموش دن ہے ، اِس دِن نے برِ صغیر کے مسلمانوں کی تقدیر بدل دی ، اِس دِن کو یوم ِپاکستان کے نام سے بھی یاد کیا جاتاہے اور ہر سال محب وطن پاکستانی اِس دِن کو انتہائی جوش وجذبے سے مناتے ہیں۔ قیامِ پاکستان کی تاریخ میں 23 مارچ جیسا کوئی دِن نہیں ہے، اِس دِن برصغیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت مسلم لیگ نے قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں اپنے ستائیسویں سالانہ اجلاس (منعقدہ لاہور) میں ایک آزاد اور خودمختار مملکت کے قیام کا مطالبہ کیا تھا تاکہ مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ ہوسکے اور وہ اپنے دین کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔ اِس روزبرِ صغیر کے مسلمانوں کے لیے الگ ریاست کی قرارداد منظور کی گئی جسے قراردادِ لاہور بھی کہا جاتا ہے، جس کے چند سال بعد ہی آزادیِ جدوجہد سے برِصغیر کے مسلمانوں نے ہندوئوں اور انگریزوں کی ایزا رسائیوں سے نجات حاصل کرلی اور اپنی ایک الگ ریاست بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ 23 مارچ کو ہر سال یومِ پاکستان کی مناسبت سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں بسنے والے پاکستانی ایک الگ اور آزادِ وطن کے حصول کی بے مثال جدوجہد کرنے والے اور قربانیاں دینے والے قومی ہیروز کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے سرکاری ونجی سطح پر مختلف تقاریب کا انعقاد کرتے ہیں اور ایک بار پھر اِس دِن تجدید عہدِ وفا کا اعادہ بھی کیا جاتا ہے۔ قیام ِ پاکستان کی تاریخ میں 23 مارچ 1940 کا دِن نہایت اہمیت کا حامل ہے۔تاریخ اِس بات کی گواہ ہے کہ مسلمان برصغیر میں ایک فاتح کی حیثیت سے آئے تھے۔مسلمانوں نے فتوحات کے بعد اپنی سلطنتیں قائم کیں اور بڑی رواداری کا مظاہرہ کیا اور مقامی لوگوں کی نہ تذلیل کی اور نہ ہی ان سے اچھوتوں جیسا سلوک کیا۔دُنیا میں ہندوستان وہ واحد ملک ہے جہاں مسلمان حکمرانوں نے
آٹھ سو سال حکمرانی کی لیکن نہ تو انھوں نے غیر مذہب کو زبردستی مسلمان بنایا اور نہ ہی ان کے مذہبی معاملات میں مداخلت کی، یہی وجہ ہے کہ آٹھ سو سال حکومت کرنے کے باوجود وہ یہاں اقلیت میں رہے اور آج تک اقلیت میں ہیں کیونکہ دینِ اسلام انسانیت کا درس دیتا ہے ۔ برِ صغیر کے حالات کے متعلق البیرونی نے اپنی معرکة الآراء کتاب ”کتاب الہند” میں لکھا ہے کہ ”ہندو اور مسلمان ایک دوسرے سے قطعاً مختلف ہیں۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ وہ ہم سے ہر لحاظ سے مختلف ہیں اور جو قدریں اور قوموں میں مشترک ہیں وہ ان میںنہیں ہندووں کے بہت سے رسم و رواج آج بھی ہم سے مختلف ہیں اس کے علاوہ ان کا مذہب بھی ہم سے مختلف ہے اور جن چیزوں پر ہمیں اعتقاد ہے، ان کو وہ نہیں مانتے، وہ غیرملکیوں کو جن میں مسلمان بھی شامل ہیں، کو ملیچھ کے نام سے پکارتے ہیں اور ان سے تعلقات رکھنے کی سخت ممانعت کرتے ہیں، نہ ان سے شادی کرتے ہیں اور نہ ایک ساتھ بیٹھتے ہیں، نہ کھاتے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کا تعلق رکھتے ہیں”۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح دوردرس بصارت رکھنے والے ایک ذہین انسان تھے
اِ س کا عملی مظاہرہ بہت سے مواقع پر دیکھا گیا اِس میں سے ہی ایک مشہور انگریزی ہفت روزہ ٹائم اینڈ ٹائڈ میں واضح طور پر ہندوستان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں لکھی تحریر ہے جو قرارداد لاہور سے پہلے 9 مارچ کولکھی گئی ۔22 مارچ 1940 کو لاہور کے مشہور منٹو پارک (اقبال پارک )میں مسلم لیگ کا کُل ہند سالانہ اجلاس شروع ہوا۔ اِس اجلاس سے چار روز پہلے لاہور میں ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آیا تھا جس پر بعض لوگوں نے قائد اعظم کو جلسہ ملتوی کرنے کا مشورہ دیا، لیکن قائد اعظم نے ان کی رائے سے اتفاق نہیں کیا اور جلسہ مقررہ تاریخ پر منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔ مسلم لیگ کا یہ اجلاس تاریخی لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل تھا اور اس اجلاس میں ہندوستان کے کونے کونے سے پچاس ہزار سے بھی زائد مندوبین شریک تھے۔ قائد اعظم نے اِس اجلاس کی صدارت کی اور خطاب کیا جس میں ملک کے سیاسی حالات کا تفصیلی جائزہ لیا اور کانگریسی رہنماوں سے اپنی گفتگو اور مفاہمت کی کوششوں کی تفصیلات بتائیں۔ اس کے بعد مسلمانوں کی علیحدہ حیثیت کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ "ہندو اور مسلم فرقے نہیں بلکہ دو قومیں ہیں” اس لیے ہندوستان میں پیدا ہونے والے مسائل فرقہ وارانہ نہیں بلکہ بین الاقوامی نوعیت کے ہیں۔ ہندوستان کے مسلمان آزادی چاہتے ہیں، لیکن ایسی آزادی نہیں جس میں وہ ہندووں کے غلام بن کر رہ جائیں۔ یہاں مغربی جمہوریت کامیاب نہیں ہوسکتی کیونکہ ہندوستان میں صرف ایک قوم نہیں بستی۔ چونکہ یہاں ہندو اکثریت میں ہیں اس لیے کسی بھی نوعیت کے آئینی تحفظ سے مسلمانوں کے مفادات کی حفاظت نہیں ہوسکتی۔ ان مفادات کا تحفظ صرف اس طرح ہوسکتا ہے کہ ہندوستان کو ہندو اور مسلم انڈیا میں تقسیم کردیا جائے۔ ہندو مسلم مسئلے کا صرف یہی حل ہے اگر مسلمانوں پر کوئی اور جبری حل مسلط کیا گیا تو وہ اسے کسی صورت میں بھی قبول نہیں کریں گے”۔ یہ تھے وہ تاریخی الفاظ جنہوں نے مسلمانوں میں جوش و ولولہ برپا کیا اور قائد اعظم کی اس تاریخی تقریر سے اگلے روز یعنی 23 مارچ 1940 کو شیر بنگال مولوی فضل الحق نے وہ تاریخی قرارداد پیش کی جسے قرارداد لاہور کہا جاتا ہے جو آگے چل کر قیامِ پاکستان کی بنیاد قرار پائی۔ اِس قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ ”کوئی بھی دستوری خاکہ مسلمانوں کے لیے اس وقت تک قابل قبول نہیں ہوگا جب تک ہندوستان کے جغرافیائی اعتبار سے متصل وملحق یونٹوں پر مشتمل علاقوں کی حد بندی نہ کی جائے اور ضروری علاقائی ردوبدل نہ کیا جائے اور یہ کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے انھیں خودمختار ریاستیں قرار دیا جائے، جس میں ملحقہ یونٹ خودمختار اور مقتدر ہوں اور یہ کہ ان یونٹوں کی اقلیتوں کے مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق و مفادات کے تحفظ کے لیے ان کے صلاح و مشورے سے دستور میں مناسب و موثر اور واضح انتظامات رکھے جائیں اور ہندوستان کے جن علاقوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں ان کے اور دیگر اقلیتوں کے صلاح مشورے سے ان کے مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق و مفادات کے تحفظ کی ضمانت دی جائے”۔ قرارداد پاکستان کا اصل نام قرارداد لاہور تھا جسے ہندووں نے طنزیہ طور پر قرارداد پاکستان کا نام دے دیاتھا اور بے حد غم و غصے کا اظہار کیا، لیکن مسلمانوں نے ان کی کوئی پروا نہ کی اور قائداعظم کی قیادت میں رواں دواں منزل مقصود کی طرف بڑھتے رہے۔انھیں یقین تھا کہ منزل دور نہیں۔ بالآخر قائد اعظم محمد علی جناح کی کوششوں کے نتیجے میں 14 اگست 1947 کو دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت ”پاکستان” کا قیام عمل میں آیا۔ پاکستان کا قیام محض ایک تاریخی حادثہ نہ تھا اور نہ ہی سیاسی فتح بلکہ یہ ہندوستان کے مسلمانوں کی اپنے جداگانہ تشخص کو برقرار رکھنے کی خواہش کا ثمر تھا۔ درحقیقت قائد اعظم کی قیادت میں برِصغیر کے مسلمانوں نے پاکستان بناکر اپنی تہذیب، مذہبی اقدار اور ثقافت کو بچالیا ورنہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کا وہی حشر ہوتا جو آج کے بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ آج کا ہندوستان قائد اعظم کے دو قومی نظریہ کی اہمیت کو ثابت کرتا ہے جوکہ قائد اعظم کی دور درس نگاہ اور ذہانت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔23 مارچ محضتاریخی دِن نہیں بلکہ وہ دِن بھی ہے جب ہمارے بزرگوں نے ایک قوم اور ایک نظریہ کے تحت تجدید عہدِ وفاکیا تھا جسے آگے لے کر جانا ہر پاکستانی کا فرض ہے ۔پرنٹ، سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر خصوصی پروگرامز اور بااثر تحریروں کا انتخاب مختلف ہیش ٹیگ ٹرینڈکے ذریعے اپنی عقیدت کا اظہار اپنی جگہ لیکن یہ سب امور اس پاک سرزمین سے وفا نبھانے کے لئے کافی نہیں، ہمارا وطن ہم سے قربانی مانگتا ہے ، قربانی کیا ہے ؟ اپنی آنا ذاتی پسند نا پسند سب کچھ ایک طرف رکھ کر مادرِ وطن کی بقا کی خاطر یک زباں یک جاں ہو کر یکجہتی اور اتحاد کا عہد کرتے ہوئے ملک کو در پیش حالات سے باہر نکالنا ہے ۔ پاکستان ہم سب مسلمانوں کیلیئے ایک انمول تحفہ ہے ِاس تحفے کی حفاظت ہم سب پر فر ض ہے ہم سب پاکستانی عہد کرلیں تو دشمن ہماری پیاری سرزمین پر حملہ تو کیا اِس کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے سے پہلے بھی سو بار سوچے گا۔ ہم پر لازم ہے کہ آج کے دِن ہم ایک عہد کریںکہ ہم پاکستان کو ایمان، اتحاد اور تنظیم کے رہنما اصولوں کی روشنی میں چلائیں گے۔ ہم پاکستان کو عملی طور پر ایک فلاحی و اسلامی ریاست بنائیں گے۔یومِ پاکستان، تجدید عہد ِ وفا کا دن ہے۔ یہاں ہر پاکستانی کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اِس ملک کو سنوارنے کی ذمہ داری صرف حکومت ِ وقت اور ہماری بہادر افواج ِ پاکستان کی ہی نہیں ہے۔ یہ ہم سب کی مجموعی قومی ذمہ داری ہے کہ اِس ملک کی ترقی اور حفاظت کیلیے لایعنی قسم کے اختلافات بھلا کر اتحاد و یگانگت کی ایسی مثال قائم کریں کہ دشمنانِ پاکستان و اسلام ہمارے خلاف سازشوں کا سوچ بھی نہ سکیں۔ آیئے! یومِ پاکستان کے اِس موقع پر تجدید عہد ِ وفا کریں۔ سب سے پہلے پاکستان، پاکستان زندہ باد!
خدا کرے میری ارضِ پاک پہ اترے ، وہ فصلِ گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو (آمین)