بھارت: مندر سے پانی پینے پر مسلمان لڑکے پر تشدد

بھارت کی ریاست اترپرادیش میں ہندووں کے ایک مندر میں پانی پینے پر مسلمان لڑکے کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق اترپرادیش کے ضلع غازی آباد کے شہر ڈاسنا میں یہ واقعہ پیش آیا۔

تشدد کا نشانہ بننے والے لڑکے کے اہل خانہ ہندوستان ٹائمز کو بتایا کہ 14 سالہ لڑکا پانی پینے کے لیے جب مندر میں داخل ہوا تو مندر کے نگران 23 سالہ شرنگی نندن یادیو نےدیکھ لیا اور تشدد شروع کردیا۔

لڑکے کے والد کا کہنا تھا کہ ‘میرا بیٹے کو پیاس لگی تھی اور مندر کے اندر نلکے سے پانی پینے سے روکا گیا، ان کو شناخت کے بعد مارا گیا اور ان کے سر پر چوٹیں آئیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ میرا بیٹا مندر میں عموماً نہیں جاتے تھے اور انہیں مستقبل میں اس حوالے سے واضح کیا گیا ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ ‘انہیں بری طرح تشدد اور تضحیک کا نشانہ بنایا گیا، کیا پانی کا بھی کوئی مذہب ہوتا ہے، میرا نہیں خیال کہ کوئی ایسا مذہب ہوگا جو پیاسے آدمی کو پانی پلانے سے انکار کرے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں مندر عوام کے لیے کھلا ہوتا تھا لیکن اب تبدیل ہوگیا ہے اور مجھے امید ہے کہ میرے بیٹے کو انصاف ملے گا۔

دوسری جانب غازی آباد پولیس نے واقعے کا نوٹس لیا اور ملزم یادیو کو دوسرے نگران شیوانند سراسواتی کو گرفتار کرلیا، جو واقعےمیں ملوث تھے۔

واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا میں آتے ہی وائرل ہوئی تھی۔

دونوں ملزمان کے خلاف انڈین پینل کوڈ کی سیکشن 323، 504، 352، 505 اور انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمہ کرلیا گیا ہے۔

غازی آباد پولیس کے سینئر سپرینٹنڈنٹ کلانیدھی نیتھانی کا کہنا تھا کہ مرکزی ملزم کو واقعے سامنے آنے کے بعد فوری طور پر گرفتار کرلیا گیا تھا۔

انڈین ایکسپریس کو انہوں نے بتایا کہ کوئی بھی شہری سماج مخالف سرگرمیوں میں ملوث پایا گیا تو پولیس ان کے خلاف سخت کارروائی کرے گی۔

ایک اورپولیس افسر کا کہنا تھا کہ ملزم یادیو گزشتہ تین ماہ سے مندر میں مقیم تھا اور زیرحراست دونوں ملزمان نے ویڈیو کو وائرل کرنے میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔

پولیس عہدیدار کا کہنا تھا کہ یادیو کا تعلق ریاست بہار سے ہے اور 6 ماہ قبل غازی آباد منتقل ہوگئے تھے اور ڈاسانا دیوی مندر میں رضاکارانہ خدمات انجام دے رہے تھے اور اس کے نگران کے شاگرد کے طور پر رکھا گیا۔

نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس (این سی پی سی آر) کے چیئرپرسن پریانک کانونگو نے ٹوئٹر پر ملزم یادیو کی تصویر جاری کی تھی اور کہا تھا کہ این سی پی سی آر بچے کو انصاف دلانے کے لیے پرعزم ہیں۔

‘اچھے آدمی ہیں’

دوسری جانب مندر کی انتظامی کمیٹی کا کہنا تھا کہ وہ یادیو کو قانونی معاونت فراہم کریں گے۔

کمیٹی کے ایک رکن انیل یادیو کا کہنا تھا کہ مندر انتظامیہ واقعے کی پوری ذمہ داری لیتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ سازش تھی کیونکہ لڑکا اکیلا نہیں تھا اور واقعہ ماحول کو کشیدہ کرنے کی کوشش تھی۔

ملزم یادیوکا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ ایک اچھا آدمی ہے اور کووڈ-19 کے دوران اپنی ملازمت سےمحروم ہوگیا تھا جہاں وہ بطور انجینئر کام کر رہے تھے تاہم انہوں نے مندر کے آئی ٹی سسٹم میں رضاکارانہ خدمات کا فیصلہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم ان کی رہائی کویقینی بنائیں گے۔

یاتی نارسنگھانند سراسواتی نے الزام عائد کیا کہ لڑکے کو مندر میں تھوکتے ہوئے پکڑا گیا تھا اور کہا کہ انتظامیہ دونوں گرفتار ملزمان کی ضمانت کے لیے درخواست دے گی۔

مندر کی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ وہاں غیر ہندووں کے داخلے پر پابندی ہے حالانکہ مندر کے باہر آویزاں کیے گئے بورڈ پر واضح طور پر لکھا ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ مندرہندووں کے لیے مقدس جگہ ہے اور نارسنگھانند سراسواتی کے حکم پر مسلمانوں کا داخلہ بند ہے’۔

نارسنگھانند سراسواتی دائیں بازو کے ایک مبلغ ہیں اور مرکزی ملزم سوشل میڈیا پران کی متنازع تقاریر تصاویر کے ساتھ شیئر کرتے تھے، جس میں وہ مختلف ہتھیار اٹھائے ہوئے نظر آتے ہیں۔