بھارتی حکومت یاسین ملک سے محمد افضل گرو جیسا سلوک کر سکتی ہے مقبوضہ کشمیر کے لوگ اس خوف کو محسوس کر رہے ہیں بھارتی جریدے دی ویک

نئی دہلی جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے تہاڑ جیل میں قید چیرمین محمد یاسین ملک کی سلامتی کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ بھارتی جریدے دی ویک نے خبردار کیا ہے کہ بھارتی حکومت محمد یاسین ملک کے ساتھ کشمیری نوجوان محمد افضل گرو جیسا سلوک کر سکتی ہے ۔ مقبوضہ کشمیر کے  لوگ اس خوف کو محسوس کر رہے ہیں کہ بی جے پی حکومت کانگریس کی طرح  ڈاکٹر روبیہ سعید اغوا کیس اور بھارتی ائر فورس افسران قتل کیس میں محمد یاسین ملک کے ساتھ  محمد افضل گرو  والا سلوک کر سکتی ہے ۔ یاد رہے کانگریس حکومت  نے کشمیری نوجوان محمد افضل گرو  کو پارلیمنٹ حملہ کیس میں9فروری 2013 کو تہاڑ جیل میں پھانسی دے دی تھی ان کی لاش لواحقین کو نہیں دی گئی بلکہ تہاڑ جیل کے احاطے میں ہی دفن تھی ۔ کے پی آئی کے مطابق یاسین ملک کے خلاف  ڈاکٹر روبیہ سعید اغوا کیس اور بھارتی ائر فورس افسران قتل کیس میں فرد جرم عائد ہو چکی ہے ۔دی ویک  کے مطابق یاسین ملک ،  سید علی شاہ گیلانی ، میرواعظ کے ساتھ کشمیریوں کی مشترکہ مزاحمتی قیادت میں شامل ہیں۔ پاکستان میں ان کی اہلیہ  مشال ملک ، پاکستان اور بین الاقوامی سطح پر بھارت کی بڑی نقاد ہیں۔1992 میں گرفتار ہونے والے  یاسین ملک کو 1995 میں رہا کیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی رہائی میں سابق بیوروکریٹ وجاہت حبیب اللہ اور مشہور صحافی کلدیپ نیئر کا بھی ہاتھ تھا۔ جیل سے رہائی  کے بعد   یاسین ملک نے  کشمیر میں جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔۔بھارتی ٹی وی کے مطابق جموں میں بھارت کی خصوصی عدالت ٹاڈا کے جج نے 1989 میں اس وقت کے بھارتی وزیر داخلہ مفتی سعید کی صاحبزادی ربیعہ سعید کی اغوا کے الزام میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ یاسین ملک سمیت 10 ملزمان پر فرد جرم عائد کردی۔31سال پرانے اغوا کے مقدمے میںیاسین ملک کے ساتھ ساتھ علی محمد میر، محمد زمان میر، اقبال احمد گندرو، جاوید احمد میر، محمد رفیق پھلو، منظور احمد صوفی، وجاہت بشیر، معراج الدین شیخ اور شوک احمد بخشی پر بھی فرد جرم عائد کی گئی۔ مجسٹریٹ کے سامنے اعترافی بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے جج نے کہا ہے کہ ان کا خیال ہے کہ بادی النظر میں اس بات کے کافی شواہد موجود ہیں کہ یاسین ملک، علی محمد میر، اقبال احمد گندرو، منظور احمد صوفی، مہراج الدین شیخ اور رفیق احمد پھلو نے ربیعہ کو قتل کے مقصد سے اغوا کرنے اور کے جرم کا ارتکاب کیا اور انہیں حبس بے جا میں رکھا۔دوسرے  افراد میں محمد زمان میر، جاوید احمد میر، وجاہت بشیر اور شوکت احمد بخشی پر مجرمانہ سازش کا الزام عائد کیا گیا جہاں انہوں نے ربیعہ کو غلط انداز میں قید میں رکھا۔ٹاڈا عدالت کے روبرو دائر چارج شیٹ میں سی بی آئی کے ذریعہ نامزد دو درجن ملزمان میں سے 10 ملزمان شامل ہیں۔سی بی آئی کی چارج شیٹ کے مطابقدسمبر 1989 کے پہلے ہفتے میں سری نگر کے لال داد ہسپتال میں تریت پر مامور  ربیعہ کے اغوا کی مجرمانہ سازش کا منصوبہ بنایا تھا تاکہ مختلف جیلوں میں قید اپنے پانچ ساتھیوں کی رہائی کو یقینی بنایا جاسکے۔سی بی آئی کی چارج شیٹ میں کہا گیا کہ انہوں نے  ایک غلام محمد اور ان میں سے کچھ افراد سے ایک نیلی کار لی اور 8دسمبر 1989 کو ملزم مشتاق احمد لون کے گھر جمع ہوئے اور ربیعہ کو اس وقت اغوا کرنے کا منصوبہ بنایا۔ یہ افراد ہسپتال کے گیٹ پر پہنچے اور چھوٹے گروپوں میں تقسیم ہو گئے، ربیعہ کی شناخت کرنے کے لیے یاسین ملک نے اس کی طرف اشارہ کیا۔ بندوق کی نوک پر وہ منی بس روک کرربیعہ کو اغوا کر لیا گیا