صحافیوں سے کون خوش نہیں ؟

صرف صحافیوں کے لیے ہی نہیں بلکہ یہ معاشرے کی تمام تنقیدی آوازوں کے لیے ایک پیغام ہو سکتا ہے ۔طرز واردات وہ نہیں جس کے صحافی عادی نہ ہوں ۔مختلف حالات میں کئی ایک کے ساتھ نا روا سلوک کیا گیا۔

کچھ تو اپنے ساتھیوں کی طرح خوش نصیب نہیں رہے ،انہیں آزاد عدلیہ اور قانون کی حکمرانی سے استفادے کا موقع نہیں مل سکا، ان کے نظریات اور فکر سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن دیانت پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی اور یہ ہم سب جانتے ہیں ۔آزاد میڈیا اور اختلاف میں اٹھنے والی آوازیں کیوں زیر عتاب ہیں؟ کون ان سے خفا اور ایسی آوازاوں کو کچل دینا چاہتے ہیں۔

میڈیا ہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا میں بھی طاقت ور اوازوں کو تک برداشت نہیں کیا جا تا۔ان کے بازو مروڑے جا تے اور اکائونٹس بلاک کئے جا تے ہیں ۔یو ٹیوب چینلز نے بھی ان کا جینا حرام کر رکھا ہے ۔میڈیا وابستگان کے لئے یہ بڑا مشکل اور مختلف چیلنج ہے ۔

گزشتہ دو سال کے عرصے میں پی ای سی اے 2016 کے تحت سوشل میڈیا اور بلاگرز کے خلاف باقاعدہ کریک ڈائون کیا گیا ، ٹک ٹاک پر حالیہ پابندی کو بھی ماضی کے ایسے ہی اقدامات کے تناظر تناظر میں دیکھنا چاہئے۔پیغام بظاہر بڑا واضح ہے ۔

آزاد آوازوں پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے ۔ اور خود ان ہی لوگوں نے سرخ لکیر عبور کرلی ہے ۔مختلف سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا کارکنوں نے میڈیا کو ہدف تنقید بنا رکھا ہے ۔

تعمیری تنقید کا تو خیر مقدم کیا جاسکتا ہے لیکن دھمکی آمیز رویے ناقابل برداشت ہیں جیسا کہ گزشتہ سال ہی پاکستان میں سات صحافی قتل کر دیے گئے۔ صحافت کے حوالے سے پاکستان کا شمار دنیا کے پانچ خطرناک ممالک میں ہو تا ہے ۔مطیع اللہ کی فوری رہائی صحافی برادری کے بروقت آواز اٹھانے اور اجتماعی کوششوں کے نتیجے میں ممکن ہوئی۔ملکی اور غیر ملکی تنظیموں اور انسانی حقوق سے متعلق اداروں نے آوازیں اٹھائیں۔

سیاسی جماعتوں ، سول سوسائٹی اور وکلا تنظیموں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ۔چیف جسٹس آف پاکستان نے اس ھوالے سے دائر پٹیشن کا فوری نوٹس لیا۔ان تمام طبقات نے مل کر اغوا کاروں پر دبائو میں اضافہ کیا لیکن جو ذمہ داار ہیں انہیں گرفتار کیا جا نا چاہئے اور یہ سیف سٹی پروجیکٹ کے کروڑوں روپوں کے ذریعہ مشکل بھی نہیں ہے ۔

اس بارے میں وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کی جانب سے آنے والے ردعمل کا خیر مقدم کیا جا نا چاہئے ور پھر وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز کا حوصلہ افزا بیان بھی سامنے آیا اور انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ملنے والی ہدایات کا بھی ذکر کیا ۔پاکستان میں صحافت کرنا کبھی آسان نہیں رہا ،کئی صحافیوں کو اپنی جانوں کے نذرنے پیش کر نے پڑے ۔

120 صحافیوں کے مقدمات قتل میں سے صرف پانچ ہی عدالتوں تک پہنچ سکے ۔صرف دو مقدمات میں مجرموں کو سزا کا سامنا کر نا پڑا ۔لیکن ان کی اپیلیں ڈینئل پرل اور ولی خان بابر کیس کی طرح ہنوز زیر التوا ہیں ۔صرف وفاقی حکومت کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہ ہو گا ، حتیٰ کہ صوبائی حکومتوں نے بھی صحافیوں کو تحفظ فراہم کر نے کے لئے کچھ نہیں کیا ۔سندھ میں صحافی عزیزاللہ میمن کے قتل نے سنگین سوالات اٹھا دئے ہیں گو کہ ان کے مبینہ قاتل گرفتار ہو چکے ہیں لیکن متعلاقہ ایس پی نے مبینہ طورپر شہادتوں کو ضائع کیا اور ابتدا میں چند اہم ملزمان رہا کر دئے اور ایسے پولیس افسر کو معطل تک نہیں کیا گیا۔

دو سالقبل جب عمران خان نے اقتدار سنبھالا تو اپنے اولین خطاب میں انہوں نے نہ صرف میڈیا کا شکریہ ادا کیا بلکہ میڈیا آزادی کی یقین دہانی بھی کرائی ۔ان گزشتہ دو برسوں میں وہ تین وزرا اطلاعات فواد چوہدری، فردوس عاشق اعوان اوراب شبلی فراز اور معاون خصوصی لیفٹننت جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کا امتزاج لے کر سامنے آئے اس کے باوجود حالات بد سے بدتر ہو تے چلے جا رہے ہیں ۔ حالات بہتر کرنے کے بجائے میڈیا کو مختلف طریقوں سے دبائو میں لایا جا رہا ہے ۔پاکستان کے دو بڑے میڈیا ہائوسز جنگ اور ڈان عتاب کا نشانہ بنے ہو ئے ہیں ۔

جنگ اور جیو گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمان کی گرفتاری گروپ کی آزاد میڈیا پالیسی پر دبائو ڈالنے کی منفرد مثال ہے ۔وہ گزشتہ چار ماہ سے زائد عرصے سے نیب کے زیر حراست پابند سلاسل ہیں اور انصاف کے حصول کیلئے ان کے راستے میں کئی رکاوٹیں ڈال گئیں باوجود اس امر کہ یہ ایک 34سال پرانا پلاٹ کا سول معاملہ ہے جس کا نیب سے کچھ لینا دینا نہیں ہے ۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انتقامی کارروائی کی جارہی ہے جس کی وجہ سے میر شکیل الرحمٰن تقریباً 5ماہ سے زیر حراست ہیں ، اگرچہ ان کیخلاف ابھی تک کچھ ثابت نہیں ہوا ہے تاہم ابھی ٹرائل بھی شروع نہیں ہوسکا ہے ۔ جنگ جیو اور ڈان کے معامالات میں ان کے اشتہارات روک کر مشکلات میں اضافہ کیا گیا ، ان کے چینلز پچھلے نمبروں پر ڈال دئے گئے۔