مقبوضہ کشمیرکی صورتحال نے فیصلہ سازوں کو اب ریڈیو کی اہمیت کا احساس دلایا ہے

مقبوضہ کشمیرکی صورتحال نے فیصلہ سازوں کو اب ریڈیو کی اہمیت کا احساس دلایا ہے

مقامی محکمہ تعلیم کے اہلکار رانا محمد وقاص نے بتایاکہ ملک بھر کے میڈیکل کالجز،انجینئرنگ یونیورسٹیوں اوردیگر تعلیمی اداروں میں گلگت بلتستان کے طلبہ وطالبات کے لئے نشستیں مختص ہونے کے باعث بہت سے غیر مقامی لوگ بھی یہاں کا ڈومیسائل بنوانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس لئے سرکاری طور پر اس امر کا اہتمام کیا گیا ہے کہ کوئی بھی غیر مقامی شخص اپنے بچوں کے لئے گلگت بلتستان کا ڈومیسائل نہ بنوا سکے۔ گلگت بلتستان کے بے شمار لوگ عرصہ دراز سے کراچی،راولپنڈی،لاہور اور ملک کے دیگر علاقوں میں آباد ہو چکے ہیں۔ان کے بچے زیادہ بہتر تعلیمی اداروں میں پڑھتے اور گلگت بلتستان کے لئے پیشہ ورانہ کالجز میں مختص نشستوں پر داخلہ لے لیتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں گلگت بلتستان کے دور افتادہ مقامات پر تعلیمی سہولیات اس قدر نہیں ہوتیں کہ وہ بچے راولپنڈی،لاہور یا کراچی میں پڑھنے والے بچوں سے مقابلہ کر سکیں۔ رانا محمد وقاص سے انٹرویو ریکارڈکرنے کے بعد ہم نے ریسٹ ہاؤس کا رخ کیا۔

شام گہری ہو چلی تھی اور گوپس میں اپریل میں بھی شدید سردی تھی۔ کھانا کھانے کے بعد میں ریڈیو پاکستان گلگت کی نشریات سننے کی کوشش کی تو دس کلو واٹ کے چالیس برس پرانے میڈیم ویو ٹرانسمیٹرکے سگنلز بہت کمزور تھے۔ اس جاپانی ٹرانسمیٹرکی اینا لاگ ٹیکنالوجی اب پوری دنیا میں متروک ہوچکی ہے۔ اب ڈیجیٹل ٹرانسمیٹر بنتے ہیں جو کم جگہ گھیرتے اور بہترین نتائج دیتے ہیں۔ میں نے اپنے ڈیجیٹل ٹرانسسٹر پردوسری فریکینسیز چیک کیں تو ریڈیو تہران،ریڈیو چائنا، ریڈیو کابل، آل انڈیا ریڈیو ، بی بی سی، وائس آف امریکہ، وائس آف جرمنی،اور دیگر کئی نامعلوم ریڈیو سٹیشنوں کی نشریات گوپس میں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ جبکہ ریڈیو پاکستان کا صرف ایک سٹیشن گلگت یہاں سنائی تو دے رہا تھا لیکن اس کے سگنل بھی کمزور تھے۔

ریڈیو نشریات صاف سنائی نہ دے رہی ہوں تو سامعین کو سٹیشن بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔یہ بات ہمارے پالیسی سازوں کو سمجھ نہیں آتی۔ شہروں میں رہنے والے بیوروکریٹس اور سلامتی سے متعلق ادارے یہ سمجھتے ہیں کہ ریڈیو پاکستان اب ایک بے کار ادارہ ہے اور اس پر خرچ ہونے والی رقم ضائع ہو رہی ہے۔دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت نے گذشتہ چار ماہ سے بلیک آؤٹ کرکے مظالم کا جو نیا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اس کے بارے میں خبریں اورتاز ہ ترین حالات کے بارے میں پروگرام صرف ریڈیوپاکستان سے نشر ہو رہے ہیں اور اس کی نشریات پورے مقبوضہ کشمیر میں سنی بھی جا رہی ہیں۔ حریت رہنما سید علی گیلانی کے اس بیان کے بعد کہ ’’ہمیں صرف ریڈیو پاکستان اسلام آباد سنائی دے رہا ہے اور اس کے پروگراموں کے ذریعے ہمارا رابطہ بیرونی دنیا سے قائم ہے‘‘۔ اس بیان کے بعد حکومت کے کار پردازان ریڈیو پاکستان پر چڑھ دوڑے کہ سکردو ،گلگت اور میر پور میں نئے ٹرانسمیٹر کتنے دنوں میں کام شروع کر سکتے ہیں۔

اُنہیں بتا یا گیا کہ ریڈیو پاکستان گلگت اور سکردو کے ٹرانسمیٹر چالیس برس پرانے ہیں، انہیں تبدیل کرنے کے لئے وزارت اطلاعات و نشریات کو کئی بار لکھا جا چکا ہے لیکن مطلوبہ فنڈز مختص نہ ہونے کے باعث ان پرانے ٹرانسمیٹروں کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ وہ تو بھلا ہو جاپان کی بین الاقوامی امدادی ایجنسی جائیکا کا جس نے حال ہی میں ریڈیوپاکستان اسلام آباد کے لئے پانچ سو کلو واٹ کا ایک نیا ڈیجیٹل ٹرانسمیٹر مہیا کیا ہے اور جس کی نشریات مقبوضہ کشمیر میں سنائی دے رہی ہیں۔ یہاں ایک اور تلخ حقیقت سے قارئین کو آگاہ کرتا چلوں جس سے حکومت کی ریڈیو پاکستان کے حوالے سے ترجیحات کی زیادہ صحیح عکاسی ہو سکتی ہے۔ 8۔ اکتوبر2005؁ء کو آنے والے زلزلے میںریڈیو مظفرآباد کی عمارت اور ملحقہ کالونی مکمل طور پر منہدم ہو گئی تھی۔کالونی میں کئی افراد لقمہ اجل بنے۔

اس ریڈیو اسٹیشن اور کالونی کی تعمیربلا تاخیر کی جانی چاہیئے تھی لیکن منصوبہ بندی کی منظوری اور مطلوبہ رقم کی فراہمی کے ذمہ داراداروں کی غفلت اور چشم پوشی کے باعث ریڈیومظفرآباد کی عمارت کی تعمیر بارہ برس بعد شروع ہو پائی۔ اربوں ڈالر کی بیرونی امداد میں ریڈیو مظفر آباد کی عمارت،کالونی اور نئے ٹرانسمیٹر کے لئے چند لاکھ ڈالر نہیں تھے۔اس سارے عرصہ میں ریڈیو مظفر آباد کنٹینروں میں قائم سٹوڈیوز اور دفاتر میں کام کرتا رہا۔ اس وقت ریڈیو پاکستان کوئٹہ، لاہور، خیر پور، کراچی، چترال، سکردو، گلگت، ژوب، لورالائی،خضدار،تربت،حیدرآباد اور ایبٹ آباد کے ٹرانسمیٹر پرانے اور فرسودہ ہوجانے کی وجہ سے تبدیل ہونے کے منتظر ہیں۔یہ بات تو طے ہے کہ گوپس اور اسی طرح کے دورافتادہ مقامات پر ریڈیو پاکستان ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس کی بدولت وہاں کے لوگ خبروں،تفریح اور پروگراموں کے ذریعے حالات حاضرہ سے آگاہ رہ سکتے ہیں۔

ان علاقوں میں اخبارات کی رسائی ممکن نہیں۔ ٹی وی اور انٹرنیٹ کی دستیابی موجود نہیں۔کہیں بجلی دستیاب نہیں تو کہیں کیبل نہیں ہے۔ایسے حالات میں صرف ریڈیو پاکستان ہی رہ جاتا ہے۔ جس کے ذریعے کروڑوں لوگوں تک رسائی ہو سکتی ہے۔    دوسرے دن صبح کے معمولات سے فارغ ہو کر ہم نے وادی یاسین کی راہ لی لیکن اس سے پہلے ہم نے گوپس سے چند کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع خلتی جھیل کا نظارہ کیا۔جو 2010؁ء میں عطا آباد کے واقعہ ہی کی طرح کے پچاس برس پہلے رونما ہونے والے سانحہ کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی۔ خلتی جھیل سردیوں میں منجمد ہو جاتی ہے اور علاقہ کے نوجوان اس کی جمی ہوئی سطح پر کرکٹ اور فٹبال کھیلتے ہیں۔

ہم نے دریائے غذر پار کیا اور وادی یاسین میں داخل ہوگئے۔راستے میں چھوٹے چھوٹے گاؤں آتے ہیں جن میں وسیع و عریض کھیت نظر آتے ہیں۔ یاد رہے کہ کسی دور میں غذر کی وادیاں اشکومن، یاسین اور پونیال پورے گلگت بلتستان بلکہ چترال کے لئے بھی غلہ فراہم کرتی تھیں۔ ہندور پہنچے تو گاؤں کی آبادی سے دو فرلانگ کے فاصلے پر حوالدار لالک جان شہید نشان حیدر کے مزار پر سب سے پہلے حاضری دی۔ وہاں لالک جان کے چچا سے ملاقات ہوئی، ان کا بھی ایک بیٹا لالک جان کے ساتھ کارگل جنگ میں شہید ہوا تھا۔لالک جان کے مزار کے اردگرد کارگل جنگ کے تقریباً دس شہدا کی قبریں موجود ہیں۔ ان سب کا تعلق ہندور گاؤں سے تھا۔ لینڈ سلائیڈنگ کے باعث انتہائی حسین وادی درکوت جانے کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔

گوپس سے واپس گلگت آتے ہوئے جب ہم گاہکوچ سے گیارہ کلومیٹر پہلے واقع ایک مقام ہوپر پہنچے تو واجد علی نے بتایا کہ یہاں ایک مقامی نوجوان نے اپنی آبائی زمین اور گھر کو سیر گاہ میں تبدیل کررکھا ہے۔اُس نے اپنی زمین میں لگے ہوئے اخروٹ کے درختوں کو ریسٹورنٹ کی نشست گاہوں کی شکل دے دی ہے۔ میں نے گاڑی کا رخ ہوپر کی اس سیر گاہ کی طرف موڑا جو سڑک سے قدرے اونچائی پر انگور ،سیب اور انار کے درختوںمیں گھرے ہوئے راستے پر واقع ہے۔اس اوپن ائر ریسٹورنٹ کی پارکنگ میں پہنچے تو یہ دیکھ کرطبیعت خوش ہوگئی کہ ایک سر سبز پہاڑی ڈھلان پر چشمے بہہ رہے ہیں۔ پانچ درختوں پر لکڑی کی سیڑھیاں ہیں اور درختوں پر زمین سے پندرہ اور بیس فٹ کی اونچائی پر ایسے چبوترے بنے ہوئے ہیں جن پر نہایت آرام و سکون سے بیٹھ کر اردگرد کے نظاروں اور کام ودہن کی تواضع سے لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔اخروٹ کے ایک بہت بڑے اور گھنے درخت کے نیچے بھی کرسیاں اور میز لگے ہوئے تھے اور مقامی سیاحوں کی اچھی خاصی تعداد وہاں موجود تھی۔

سڑک سے اس سیرگاہ کے سب سے اونچے مقام تک کم و بیش ڈیڑھ دو سو فٹ کی بلندی تھی۔ ہم نے دوپہر سے عصر تک کا وقت ہوپر کی اس منفرد سیر گاہ میں گذارا۔ کھانا کھایا، چائے پی، اور اُس باصلاحیت نوجوان کا انٹرویو بھی کیا جس نے اپنے اس ریسٹورنٹ کی نچلی منزل پر اپنے صدیوں پرانے قدیم گھر کو اُس کی اپنی حالت میں محفوظ رکھا ہوا ہے۔ تاکہ یہاں آنے والے سیاح یہاں کی پرانی بود وباش کے انداز سے بھی آگاہ ہو سکیں۔ اس پرانے گھر کی چھت کافی نیچی ہے اور ہمیں سر جھکا کر اس میں داخل ہونا پڑا۔ یہ گھر ایک بڑے ہال نما لاؤنج پر مشتمل ہے۔جس کے وسط میں انگیٹھی بنی ہوئی ہے جو بیک وقت کھانا پکانے اور گھر کو گرم رکھنے کے کام آتی ہے۔ اس نوجوان نے گریجویشن کررکھی ہے۔روزگار کے خاطر خواہ مواقع نہ ہونے کے باعث اُس نے اپنی زمین کواوپن ائر ریسٹورنٹ میں تبدیل کرنے کی ٹھانی۔

اپریل  2016؁ء میں یکم دو اور تین تاریخ کو گلگت  بلتستان کے طول وعرض میں بارشیں ہوئیں۔ اس بارش کے نتیجے میں بشام سے لے کر خنجراب تک شاہراہ قراقرم جگہ جگہ سے لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں آکر بند ہوگئی۔گلگت کا رابطہ پورے پاکستان سے کٹ گیا۔ استور، غذر، دیامر، ہنزہ اور نگر جانے والی سڑکیں بھی بند ہو گئیں۔کئی مقامات پر پہاڑی تودے گرنے سے کافی جانی و مالی نقصان ہوا۔تین اپریل کو اتوار کا دن تھا۔ نلتر کے اٹھارہ میگاواٹ کے پن بجلی گھر کو پانی مہیا کرنے والی نہر ناقص میٹریل استعمال کرنے کی وجہ سے ذرا بھر بارش یا برف باری کی صورت میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہے اور اب تو بارش تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ بجلی گھر بند اور گلگت اندھیروں میں ڈوب چکا تھا۔اس بجلی گھر کے لئے پانی مہیا کرنے والی نہر کی مرمت دوچار روز میں ممکن نہ تھی۔

اب مسئلہ یہ تھا کہ ریڈیوپاکستان گلگت کی نشریات کو جاری رکھنے کے لئے ہمیں اٹھاسی لیٹر ڈیزل روزانہ کی بنیاد پر درکار تھا۔ کیونکہ ریڈیو پاکستان گلگت کو اُس وقت تک بجلی کا دہرا کنکشن مہیا نہیں کیا گیا تھا اور صدر دفتر  نے اکتوبر2015؁ء سے ڈیزل کی مد میں رقم منظور کرنے اور بھیجنے کا سلسلہ ترک کر رکھا تھا۔اس پر مستزاد یہ کہ تما م قومی پروگرام بشمول قومی خبریں، صدر اور وزیراعظم کے قوم سے خطاب ہمیں ہر حال میں نشر کرنا ہوتے ہیں چاہے اس کے لئے ٹرانسمیشن کو اوقات مقررہ سے زیادہ چلانا پڑے۔ اب جبکہ گلگت میں ہمارے پاس سنگل کنکشن تھا جو کام نہیں کر رہاتھا۔ اب گلگت جیسے حساس علاقے میں ریڈیو پاکستان کا اسٹیشن کیسے بند رکھا جا سکتاہے؟ Standing Operational Procedureیعنی ایس او پی کا تقاضہ ہے کہ اگر کسی بھی وجہ سے ریڈیو اسٹیشن کی ٹرانسمیشن دس منٹ سے زائد وقت کے لئے بند رہے تو صدر دفتر کو فوری طور پر مطلع کرنا ضروری ہوتا ہے۔ جبکہ عملی طور پر یہ ہو رہا تھا کہ اسٹیشنوں اور ہائی پاور ٹرانسمیٹرز پر ڈیزل کی عدم دستیابی کی وجہ سے نشریات گھنٹوں بند رہتی ہیں اور صدر دفتر میں کسی کے کان پرجوں تک نہیں رینگتی۔

سکردو،گلگت،چترال،ژوب، لورالائی،خضدار،مٹھی،گوادر اور تربت جیسے شہروں میں ریڈیو کے علاوہ اطلاعات کا کوئی موثر ذریعہ موجود نہیں۔ اگر ان مقامات پر اسٹیشنوں کو چلانے کے لئے بجلی یا جنریٹر چلانے کے لئے ڈیزل موجود نہ ہو تولوگ آل انڈیا ریڈیو، بی بی سی،ریڈیوکابل، ریڈیوماسکو،اور چائنا ریڈیو انٹرنیشنل کی نشریات پر ہی تکیہ کرنے پر مجبور ہوں گے۔

اس وقت جبکہ میں یہ سطور قلم بند کر رہا ہوں تو مقبوضہ کشمیرمیں جاری کرفیو کو پانچ ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ٹی وی،کیبل، انٹرنیٹ اور موبائل جیسی جدید سہولیات بند ہیں۔ وادی کے لوگوں کا بیرونی دنیا کے ساتھ رابطہ صرف ریڈیو پاکستان کی نشریات کی وساطت سے قائم ہے۔ اس بات کا برملا اظہار حریت راہنماء سید علی گیلانی کئی بار کر چکے ہیں۔ سکردو اور گلگت کے سٹیشنوں کی حالت زار ایسی ہے کہ اُن سے نشر ہونے والے پروگرام اُ ن کے اپنے دائرہ سماعت کے علاقوں تک نہیں پہنچ پاتے۔ حکومت ریڈیوپاکستان کو مالی وسائل فراہم کرنے میں ہمیشہ سے لیت و لعل سے کام لیتی رہی ہے۔ میرپور او ر مظفر آباد کے اسٹیشن بالترتیب 2005؁ء اور 2019؁ء کے زلزلوں کی زد میں آکر تباہ ہو چکے ہیں۔ مظفرآباد اسٹیشن کی زمین قبضہ گروپوں کی زد میں ہے۔ ٹرانسمیٹروں کی حالت زار بھی پتلی ہے اب ان حالات میں ریڈیو پاکستان کیونکر آل انڈیا ریڈیو کے پنجاب،راجستھان،گجرات اور مقبوضہ کشمیر میں نصب 83 سٹیشنوں اور 105 ٹرانسمیٹروں کا مقابلہ کرسکتا ہے۔؟ یہ سوال میں وزارت اطلاعات ونشریات، وزارت خزانہ اور وزارت دفاع کے ذمہ داروں پر چھوڑتا ہوں۔ جن کی ساری توجہ ریڈیوپاکستان کو کسی نہ کسی طریقے سے بند کرانے اور اس پرہونے والے خرچ سے جان چھڑانے پر مرکوز ہے۔

جن ممالک کے ریڈیوسٹیشنز گلگت  بلتستان میں سنائی دیتے ہیں وہ اپنے مخصوص مقاصد کے لئے پشتو،اُردو،بلوچی،فارسی، دری،سندھی اور پنجابی زبانوں میں اپنے پروگرام نشر کرتے ہیں۔یہ تمام ممالک اپنے مفادات کو پیش نظر رکھ کر یہ پروگرام ترتیب دیتے ہیں۔ پاکستان کو جغرافیائی اعتبار سے دنیا کے دشوار ترین ہمسایہ ممالک کا سامنا ہے۔ بھارت کھلا دشمن ہے۔افغانستان کو دوسرے ممالک کا آلہ کار بننے میں کوئی دشواری نظر نہیں آتی،ایران1979؁ء کے بعد سے کھلم کھلا پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش میں مصروف ہے اس سے پہلے یہ کام ڈھکے چھپے انداز میں کیا جاتا رہا تھا۔ایسا کیوں ہے ؟ یہ اس تحریر کا موضوع نہیں ہے لیکن بہرحال ریڈیو پاکستان میں عمر عزیز کے تینتیس برس گذارنے کے بعد میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ تین کھلے اور پوشیدہ دشمن ممالک کی ہمسائیگی رکھنے والے ملک کا دفاع صرف باوردی فوج ہی نہیں بلکہ اس کے ذرائع ابلاغ بھی کرتے ہیں۔اس کے ریڈیو اسٹیشن ہر وقت آن ائر رہنے چاہیں۔اور اس کی نشریات اس قدر طاقتور ہوں کہ وہ ہر طرف سرحدوں سے اُس پار پاکستان کا موقف پہنچا سکیں۔ لیکن

’ اے بسا آرزو کہ خاک شد‘

اپنی ناک سے آگے نہ دیکھ سکنے والے سول اور دوسرے حکام کو کون سمجھائے کہ اپنی ملازمت کے دن پورے کرتے رہنا ہی زندگی نہیں۔اس ملک کا باشندہ ہونے اور سرکاری ملازمت کرتے ہوئے اس ملک کے غریب عوام کی محرومیوں کی قیمت پر ہر طرح کی جائز ناجائز مراعات سے لطف اندوز ہونے کے تقاضے کچھ اور بھی ہیں۔

ویسے تو گلگت  بلتستان میں تمام سرکاری ملازمین کو بشمول ریڈیو پاکستان، اپنی تنخواہوں کا پچیس اور پچاس فیصد بطور ہارڈ ایریا الاؤنس مل رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ الاؤنسز جون2011؁ء کی ابتدائی بنیادی تنخواہ پر منجمد ہیں۔اس انجماد کی وجہ سے یہ دونوں الاؤنسز ملا کر بھی بقدر اشک بلبل ہی بنتے ہیں۔اس لئے وفاقی بیوروکریسی کے افسر گلگت  بلتستان آنے سے کتراتے تھے۔ کیونکہ گلگت  بلتستان میں ایک تو مہنگائی بہت زیادہ ہے دوسرے یہاں کا موسم شدید سرد ہوتا ہے۔ میری طرح کے سر پھرے بہت کم ہوتے ہیں جو اپنے ہاتھوں اپنا تبادلہ یہاں کرا کے آتے ہیں۔

اس پر 2009؁ء میں اُس وقت کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے گلگت میں ایک جلسہ عام میں اعلان کیا کہ وفاق کے غیرمقامی افسران کوگلگت  بلتستان تعیناتی پرتنخواہ کاایک سو فیصد بطورالاؤنس دیا جا ئے گا۔ یہ الاؤنس جاری بنیادی تنخواہ کے برابرملتا ہے یوں یہ رقم کافی بن جاتی ہے اور اب وفاق سے آنے والے افسران یعنی ضلعی اور صوبائی انتظامیہ، پولیس، کسٹمز،انکم ٹیکس اورپوسٹ آفس کے شعبوں سے منسلک افسران ہنسی خوشی گلگت  بلتستان کی پوسٹنگ پر آجاتے ہیں۔

یہ الاؤنس ریڈیو پاکستان کے غیرمقامی ملازمین کو نہیں ملتا۔ میں نے اس حوالے سے پہلے اپنے صدر دفتر اور وہاں سے نفی میں جواب آنے پر وفاقی محتسب کو درخواست دی۔جس پر غیر مقامی ملازمین کے حق میں فیصلہ آیا۔ جس میں لکھا گیا تھا کہ ریڈیوپاکستان کی انتظامیہ اپنے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے آئندہ اجلاس میں اس امر کی منظوری لے کر وزارت خزانہ کو درکار فنڈز کے لئے لکھے۔اس فیصلہ کو پانچ برس ہونے کو آئے۔میں گلگت میں دو بار تعینات رہنے اور تین برس گذارنے کے بعد واپس اسلام آباد آگیا لیکن آج تک ریڈیو انتظامیہ نے وفاقی محتسب کے اس فیصلہ پر عمل درآمدکے لئے کوئی قدم نہیں اُٹھایا۔

بہرحال ذکر تھا گلگت میں بجلی کی عدم دستیابی کا جس کی بحالی کے امکانات اگلے دو تین ہفتوں تک تو نہیں تھے۔میں نے صدر دفتر میں تعینات کنٹرولر مینٹیننس اینڈ آپریشنز اشفاق گل کو ٹیلیفون پر ساری صورت حال بتائی تو انہوں نے بے بسی ظاہر کی کہ ڈائریکٹر فنانس مہر ممتاز حسین ڈیزل کے لئے کوئی بھی کیس منظور نہیں کر رہے۔آپ اُن سے براہ راست بات کرلیں۔مہر ممتاز حسین مجھ سے بات کرنے سے گریزاں تھے۔شاید انہیں کسی طرح سے بھنک پڑ گئی تھی کہ گلگت کا اسٹیشن ڈائریکٹر کیا کہنا چاہ رہا ہے۔

بہرحال میں نے کوشش کرکے انہیں گلگت کی ساری صورت حال باالواسطہ طور پر بتا دی اور 1500لیٹر ڈیزل کی منظوری کے لئے ای میل بھی کر دی۔کنٹرولر ایم اینڈ اوکو دوبارہ فون کرکے بتایا کہ بجلی نہ ہونے کے باعث ٹیلی ویژن کیبل انٹرنیٹ کچھ بھی کام نہیں کر رہا ایسے حالات میں ریڈیو پاکستان کا سٹیشن بند نہیں رکھا جا سکتا۔ پورے علاقہ میں ایمرجنسی جیسی صورتحال ہے۔اس پر انہوں نے کہا کہ آپ اپنی ٹرانسمشن کا دورانیہ کم کرکے ڈیزل جنریٹر چلائیں۔ تاکہ مکمل بندش سے بچا جا سکے۔میں نے روزانہ نشریات کا دورانیہ ساڑھے تین گھنٹے کم کرکے نئی کیو شیٹ تیار کرائی اور نشریات جاری رکھیں تاکہ اٹھاسی لیٹر کے بجائے چوالیس لیٹر ڈیزل سے کام چلایا جا سکے۔بجلی کی یہ بندش ایک مہینہ جاری رہی جس کے بعد ہم اپنی نشریات کا دورانیہ بحال کرنے کے قابل ہوسکے۔

تقسیم سے قبل ڈوگرہ راج میںگلگت سے پچاس کلومیٹر دور جگلوٹ کے مقام پرایک سرکاری زرعی فارم قائم کیا گیا تھا جو 1500کنال رقبہ پر محیط تھا۔1948؁ء میں اس علاقہ کے عوام نے جنگ کرکے ڈوگرہ راج سے آزادی حاصل کی اور گلگت  بلتستان پاکستان میں شامل ہوا۔تو یہ زرعی فارم وفاقی حکومت کی نگرانی میں آگیا ،حکومتیں بدلتی گئیں اور یہ زرعی فارم الاٹمنٹس اور ناجائز قابضین کی چیرہ دستیوں اور مقامی عملہ کی ملی بھگت سے سکڑتا گیا۔یہاں تک کہ1970؁ء میں 1500کنال کم ہوکر 183کنال رہ گئے۔اس دوران پاکستان زرعی ترقیاتی کونسل بنی تو یہ زرعی فارم اس کی تحویل میں چلا گیا۔بعد میں اسے ماؤنٹین ایگریکلچرل ریسرچ سنٹر میں تبدیل کردیا گیا۔

پہاڑی علاقوں میں کاشتکاری اور باغبانی کی نوعیت میدانی علاقوں سے بہت مختلف ہوتی ہے۔زمین کی ساخت،پانی کی فراوانی اور موسموں کی شدت اور تغیرکی وجہ سے ان علاقوں میں فصلوں کی نوعیت،پیداوار اور کاشت کے طور طریقے بھی مختلف ہوتے ہیں۔ جگلوٹ کے تحقیقاتی مرکزپر دستاویزی پروگرام کی تیاری کے لئے میں یہاں پہنچا تو سربفلک برفپوش پہاڑوں کے درمیان میں وسیع قطعہ اراضی پر لہلاتے کھیت باغات اور چراگاہیں دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ یہاں اس وقت انگور، سیب، ناشپاتی، خوبانی، اسٹرابیری، چیری،بلیک بیری اور انارکی درجنوں اقسام کے درخت تجرباتی طور پر لگائے گئے ہیں۔ یہاں گندم، مکئی، پیاز وغیرہ کے آزمائشی کھیت بھی ہیں۔

مال مویشیوں میں دنبے، بکرے اور گائیں پالی جا رہی ہیں۔ گائیں سولہ سے اٹھارہ کلو دودھ دیتی ہیں۔ شاہراہ قراقرم کی ابتدائی تعمیر کے وقت یہ سڑک جگلوٹ کی آبادی سے گذاری گئی تھی۔اس لئے شمالی علاقہ جات کے لئے پاکستان سٹیٹ آئیل کا ڈپو جگلوٹ میں بیس کنال رقبہ پر تعمیر کیا گیا تھا۔2010؁ء میں جب شاہراہ قراقرم کی تعمیر نو کی گئی تو سڑک کو ہموار اور گنجان آبادی سے قدرے دور رکھنے کی حکمت عملی کے طور پرجگلوٹ کے علاقہ میں اسے پرانی سڑک سے کہیں نیچے دریائے سندھ کے کنارے کے قریب سے گذارا گیا۔ یوں جگلوٹ کی آبادی سڑک سے اور قدرے اونچائی پر رہ گئی۔اب آبادی کے عین درمیان میں لاکھوں لیٹرپٹرول اور ڈیزل کا ذخیرہ انسانی جانوں اور املاک کے لئے ایک بہت بڑے خطرے کی صورت میں بدستور موجود ہے۔لطیفہ یہ ہے کہ یہ ذخیرہ گلگت  بلتستان میں کسی بھی ہنگامی صورت حال کی صورت میں تیل کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے تعمیر کیا گیا تھا۔

اپریل 2016؁ء میں ہونے والی بارشوں کی وجہ سے شاہراہ قراقرم  لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے کئی جگہوں پر بند ہوئی۔گلگت اور جگلوٹ کے درمیان پچاس کلو میٹر کا حصہ چھ جگہوں پربھاری پتھر اور تودے گرنے سے بند ہوا۔تودے ہٹانے اور سڑک کو کھولنے کاکام دس روز میں مکمل ہو سکا۔اس دوران میں گلگت اور اس سے اوپر والے تمام علاقوں یعنی غذر، ہنزہ، نگر، گوجال، سکردو، گانچھے، خپلو، شگر میں پٹرول اور ڈیزل کی شدید قلت پید اہوگئی تھی۔ یہ بحران اس قدر شدید تھا کہ چیف اپیلیٹ کورٹ گلگت  بلتستان نے اس کا ازخود نوٹس لے لیا۔ عدالت میں پی ایس او جگلوٹ کے منیجر نے بیان دیا کہ چونکہ ماؤنٹین ایگریکلچرل ریسرچ سنٹر والے ہمیں بیس کنال جگہ فراہم کرنے سے گریزاں ہیںاس لئے بالائی علاقوں میں ایندھن کی قلت پیدا ہوئی۔ ہم اپنے ذخیرے کی گنجائش بڑھانا چاہتے ہیں جبکہ ایم اے آر سی میں کوئی کام نہیں ہو رہا۔ زمین بے کار پڑی ہے اور اس سنٹر کا عملہ ہماری الاٹمنٹ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔میں نے عدالت میں دیئے جانے والے اسی بیان کے پیش نظر جگلوٹ زرعی فارم کا دورہ کیا تھا کہ آیا وہاں واقعی زمین بے کار پڑی ہے یاکوئی مفید کام ہو رہا ہے۔اس دستاویزی پروگرام کو سامعین نے بہت پسند کیا جنہیں اسی پروگرام کی وساطت سے معلوم ہو سکا کہ اُن کے اپنے علاقے میں باغبانی، کاشتکاری اور مال مویشی پالنے میں کس قدر مفید کام کیا جا رہا ہے۔

جگلوٹ ایک بڑی چھاؤنی بھی ہے۔ جہاں آرمی پبلک سکول تعمیر کیا گیا ہے جس کے افتتاح کے لئے دسویں کور کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ظفر اقبال جگلوٹ آئے جبکہ اسی علاقہ سے تعلق رکھنے والے کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل ہدایت الرحمان کو بھی خصوصی دعوت دے کر بلایا گیا تھا۔یہ سکول پانچ ماہ کی مدت میں مکمل کیا گیا فروری 2016؁ء میں اس کی تعمیرکا آغاز ہوا تھا اور جولائی میں یہ سکول تیار ہوکر بچوں کے داخلے کر رہا تھا۔سکول کے چھ بلاکس کو اس علاقہ سے تعلق رکھنے والے پانچ شہداء اور لیفٹیننٹ جنرل ہدایت الرحمان کے ناموں سے منسوب کیا گیا ہے۔

پانچ کروڑ روپے کی لاگت سے پانچ ماہ میں مکمل ہونے والا یہ منصوبہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے لئے ایک مثال ہے جن کے منصوبوں کی منظوری، فنڈز مختص کرنے، ٹینڈر کال اور منظور کرنے میں سال نکل جاتا ہے۔کام شروع ہونے کا وقت آتا ہے تو برفباری شروع ہوچکی ہوتی ہے اورجب موسم کُھلتا ہے اور کام کرنے کے حالات بنتے ہیں تو مالی سال ختم ہونے کو ہوتا ہے۔ پھر متعلقہ افسروں اور ٹھیکیداروں کی بن آتی ہے۔دونوں کے گھرحرام کی دولت سے ،قبریں آگ سے بھر جاتی ہیں اور عوام محروم کے محروم رہ جاتے ہیں۔ وزیر اعلی حافظ حفیظ الرحمان نے آرمی پبلک سکول جگلوٹ کے افتتاح کے موقعہ پر اپنی تقریر میں کہا کہ صوبائی حکومت پیپرا رولز تیار کر رہی ہے۔تاکہ منصوبہ منظور ہونے کے بعد ٹینڈر جاری کرنے اور کام شروع کے مکمل کرنے میںغیر ضروری طور وقت کے ضیاع سے بچا جا سکے۔