انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں انٹرنیٹ جزوی طور پر بحال، سوشل میڈیا بدستور بند

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں انٹرنیٹ جزوی طور پر بحال، سوشل میڈیا بدستور بند

انڈیا نے اپنے زیرِ انتظام کشمیر میں انٹرنیٹ سے جزوی طور پر پابندیاں اٹھانی شروع کی ہیں مگر موبائل انٹرنیٹ سروسز اور سوشل میڈیا اب بھی بلاک رہیں گے۔

انڈیا کی سپریم کورٹ نے گذشتہ ہفتے کشمیر میں نافذ تمام پابندیوں پر نظرِثانی کا حکم دیا تھا۔

کشمیر میں انٹرنیٹ سروسز پانچ اگست سے بند ہیں جب انڈیا نے اس کی نیم خودمختارانہ حیثیت ختم کر کے اسے انڈین وفاق کے زیرِ انتظام دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔

انڈیا کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بے جے پی) کی جانب سے خطے کی نیم خودمختارانہ حیثیت کے خاتمے کا فیصلہ اس لیے متنازع تھا کیونکہ کشمیر کو حاصل ’خصوصی حیثیت‘ ہی اس کے دلی سے نازک تعلق کی بنیاد تھی۔

حکومت کا کہنا تھا کہ یہ بندشیں امن و امان کے قیام کے لیے ضروری تھیں مگر ناقدین کہتے ہیں کہ دنیا کی کسی بھی جمہوریت کا یہ طویل ترین شٹ ڈاؤن ’نہایت شدید اور غیر جمہوری‘ ہے۔
مسلم اکثریتی وادی کشمیر میں طویل عرصے سے انڈین حکمرانی کے خلاف مسلح جدوجہد جاری ہے۔

رابطوں کی بندش جس میں ابتدائی طور پر فون سروسز بھی شامل تھیں، سے خطے کی معیشت کو شدید دھچکا پہنچا ہے اور کئی کاروبار مشکلات کے شکار ہیں۔

لیکن بدھ کے اقدام کے بعد بھی سخت تر بندشیں اپنی جگہ برقرار ہیں کیونکہ نرمی کا اطلاق وائرلیس انٹرنیٹ یا موبائل ڈیٹا پر نہیں ہوگا۔

اس کے برعکس صرف چار اضلاع میں ’ضروری خدمات فراہم کرنے والے اداروں‘ مثلاً بینکوں، ہسپتالوں اور سرکاری دفاتر کے چند براڈ بینڈ کنکشن بحال کیے جائیں گے اور ان کی بھی کڑی نگرانی کی جائے گی۔

حکومتی نوٹس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا ویب سائٹس یا واٹس ایپ جیسی میسجنگ سروسز کو بحال نہیں کیا جائے گا۔

اس کے علاوہ انٹرنیٹ کمپنیوں کو فائروالز لگانے کے لیے بھی کہا گیا ہے جو صرف ’وائٹ لسٹ‘ میں شامل چند حکومت ویب سائٹس کے علاوہ باقی تمام ویب سائٹس تک رسائی کو روک دیں گی۔

عدالت نے کہا تھا کہ اس کام کو ایک ہفتے میں مکمل ہونا چاہیے، جبکہ حکمنامے میں مزید کہا گیا تھا کہ ’آزادانہ نقل و حمل، انٹرنیٹ اور بنیادی آزادیاں طاقت کے بلاجواز استعمال کے ذریعے معطل نہیں کی جا سکتیں۔‘

چند موبائل فون اور لینڈ لائن سروسز کو اکتوبر میں بحال کر دیا گیا تھا مگر انٹرنیٹ کی غیر معینہ مدت تک بندش سے روز مرّہ کی زندگی، میڈیا اور کاروبار شدید متاثر ہوئے ہیں۔