اینتھریکس کا مہلک زہر ہماری تکلیف دور کرسکتا ہے، تحقیق

ہارورڈ: اینتھریکس ایک زہریلا اور جان لیوا مادّہ ہے جو ایک خطرناک جرثومے سے خارج ہوتا ہے، لیکن اب چوہوں پر گئے تجربات سے معلوم ہوا ہے کہ اس سے کئی طرح کے درد اور تکالیف کی جاسکتی ہیں۔

بیسیلس اینتھریسِس نامی ایک خردبینی جرثومہ مٹی اور دیگر جانداروں میں پایا جاتا ہے۔ چھوٹی سلاخ نما شکل کے یہ بیکٹیریا سانسوں کے جان نیوا انفیکشن میں مبتلا کرکے ایک تندرست انسان کو گھنٹوں میں مار سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے اینتھریکس کو دنیا کے خطرناک ’’حیاتیاتی ہتھیاروں‘‘ (بایولاجیکل ویپنز) میں بھی شمار کیا جاتا ہے۔

تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اینتھریکس کے زہریلے مرکبات تکلیف کے سگنل کو تبدیل کردیتے ہیں جس سے اذیت ناک درد بھی کم یا ختم کیا جاسکتا ہے۔ یہ مرکزی اعصابی نظام پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ یہ تحقیق ہارورڈ میڈیکل اسکول کے سائنسدانوں نے کی ہے جس کی تفصیلات 20 دسمبر کو شائع ہوئی ہیں۔

ماہرین نے اینتھریکس کے زہر کو تھوڑا بدل کر مختلف سالمات پر رکھ کر درد کا ا حساس دماغ تک پہنچانے والے اعصابی خلیات (نیورونز) پر آزمایا۔ اس طرح نیورون سے اعصابی سگنلز کا راستہ بدل گیا اور درد میں کمی واقع ہونے لگی۔ اس سے قبل کینسر تھراپی کےلیے بھی اینتھریکس کی تبدیل شدہ کیفیت کو استعمال کیا گیا تھا۔

البتہ درد کش دوا کے طور پر ابھی یہ طریقہ صرف ابتدائی درجے میں ہے۔ لیکن سائنسدانوں نے اعصابی اور امنیاتی نظاموں میں خردبینی جانداروں (خرد نامیوں) کے کردارپرغور ضرور کیا ہے تاہم انسانوں پر آزمائش ابھی بہت دور ہے۔

تحقیق سے پتا چلا ہے کہ ہے کہ اینتھریکس سے احساس والے نیورون سُن ہوجاتے ہیں۔ یہ عصبیے گینگلیا میں ہوتے ہیں جہاں سے درد کے سگنل خارج ہوتے ہیں اور ہمیں بے چین کردیتے ہیں۔ لیکن اینتھریکس بیکٹیریا کے پروٹین ایک پیچیدہ طریقے سے سگنل کے پورے نظام کو تبدیل کرتے ہیں۔ اس طرح تکلیف کا احساس بہت کم بلکہ تقریباً ختم ہوتا چلا جاتا ہے۔

چوہوں کے بعد پیٹری ڈش میں انسانی دماغی خلیات پربھی اینتھریکس کی آزمائش کی گئی ہے جس کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے ہیں۔