بھارتی فوج نے مشرقی لداخ میںپشمینہ فراہم کرنے والی بکریوں کی نقل وحرکت پر پابندی لگا دی پشمینہ شالوں کی سالانہ فروخت چار کروڑ 10 لاکھ ڈالر سے گھٹ کر دو کروڑ 32 لاکھ ڈالر رہ گئی ہے

سری نگر() مشرقی لداخ میں چینی فوج سے کشیدگی کے باعث بھارتی فوج نے پشمینہ فراہم کرنے والی بکریوں کی نقل وحرکت پر پابندی لگا دی ہے ۔ بھارتی  فوج چرواہوں کو اپنی بکریاں بلندی پر واقع سرسبز وادیوں میں لے جانے کی اجازت نہیں دے رہی جس کی وجہ سے   پشمینہ کا کاروبار بری طرح متا ثر ہوا ہے  پشمینہ شالوں کی سالانہ فروخت چار کروڑ 10 لاکھ ڈالر سے گھٹ کر دو کروڑ 32 لاکھ ڈالر رہ گئی ہے۔لداخ کے علاقے میں چین اور بھارت کے درمیان گزشتہ 17 ماہ سے جاری کشیدگی کا سب سے زیادہ منفی اثر وہاں پشمینہ اون کی صنعت پر ہوا ہے۔ یہ دنیا کے سب سے بلند پہاڑی سلسلے ہمالیہ کی قدیم اور مقبول ترین صنعت ہے، جس کی جڑیں تاریخ میں 600 سال گہری ہیں اور اس شعبے سے علاقے کی تقریبا دس لاکھ آبادی کے تین چوتھائی افراد منسلک ہیں۔لداخ کی مشرقی وادی گلوان میں جون 2020 میں دونوں ملکوں کی فورسز کے درمیان جھڑپ میں 20 بھارتی اور چار چینی فوجی مارے گئے تھے، جس کے بعد سے دونوں ملکوں کے فوجی ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے چوکس کھڑے ہیں۔اگرچہ دونوں ملکوں کے درمیان صورت حال معمول پر لانے کی کوششیں جاری ہیں، لیکن اس خطے میں کشیدگی کی سطح ابھی تک بہت بلند ہے۔اس تنازعے کے نتیجے میں لداخ کی ان سرسبز چراگاہوں کا رابطہ باقی دنیا سے کٹ گیا ہے جہاں لداخ کے خانہ بدوش چانگ تھن گی نسل کی بکریاں پالتے ہیں۔ ان بکریوں سے، جنہیں چانگپا بھی کہا جاتا ہے، پشمینہ اون حاصل کی جاتی ہے۔ایک اندازے کے مطابق، لداخ میں پشمینہ فراہم کرنے والی بکریوں کی تعداد ڈھائی لاکھ کے لگ بھگ ہے اور وہ تقریبا 14 ہزار فٹ کی بلندی پر پائی جاتی ہیں، جہاں موسم انتہائی سرد ہوتا ہے۔پشمینہ اون، ریشم کی طرح ملائم، نفیس، چمکدار اور انسانی بال سے چھ گنا زیادہ باریک ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ عالمی مارکیٹ میں بہت اچھے دام پاتی ہے۔ زیادہ تر پشمینہ منگولیا سے آتی ہے اور پشمینہ کے ہاتھ سے بنے ہوئے سکارف امریکہ اور یورپ میں بہت مہنگے داموں فروخت ہوتے ہیں۔چینی فوجیوں کے ساتھ جھڑپ کے بعد بھارتی فوج چرواہوں کو اپنی بکریاں بلندی پر واقع سرسبز وادیوں میں لے جانے کی اجازت نہیں دے رہی، کیونکہ وہاں فوجیوں کی نقل و حرکت جاری رہتی ہے اور وہ ایک طرح سے جنگی علاقہ ہے۔لداخ کا سب سے بڑا قصبہ لیہہ ہے۔ پشمینہ کا زیادہ تر کاروبار لیہہ کی مارکیٹ میں ہوتا ہے۔ ذاکر حسین زیدی خانہ بدوشوں سے براہ راست پشمینہ اون خریدتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اب خانہ بدوشوں کو اپنی بکریاں اونچائی پر واقع چراگاہوں میں لے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کا اثر بکریوں کی صحت پر پڑا ہے اور اون کی پیداوار گھٹ گئی ہے۔عبدالحمید پنجابی پشمینہ ایکسپورٹ کرتے ہیں۔ وہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سرحدی تنازع، پشمینہ کی پیداوار کو متاثر کرنے والا تازہ ترین مسئلہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اور وجوہات بھی پشمینہ کی پیداوار گھٹانے میں کردار ادا کر رہی ہیں، مثال کے طور پر کووڈ-19 کی عالمی وبا ہے، جس کی وجہ سے ہونے والا لاک ڈان اور آمد و رفت کی پابندیاں پشمینہ پر اثر انداز ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت فراہم کرنے والے آرٹیکل 370 کا خاتمہ ہے، جو اس متازع خطے کو کافی حد تک خود مختاری فراہم کرتا تھا۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے اقدام کے خلاف ردعمل اور طویل کرفیو نے کشمیر کے تمام شعبوں کو منفی طور پر متاثر کیا، جس میں پشمینہ اون بھی شامل ہے۔بھارتی کنٹرول کے کشمیر کے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر شیخ عاشق کہتے ہیں کہ پشمینہ کی پیداوار میں کمی کا ایک اور سبب کرونا وائرس کے پھیلا کے باعث عالمی مارکیٹ میں کاروبار کی سست روی ہے۔ دوسرا یہ کہ کچھ تاجروں نے کوالٹی کنٹرول کے تقاضوں کو نظر انداز کیا جس کا نتیجہ پشمینہ کی مانگ اور فروخت میں کمی کی شکل میں نکلا۔کشمیر کی دستکاریوں اور کھڈیوں کے ڈائریکٹر محمود احمد شاہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مالی سال 2018-2019 کے عرصے میں پشمینہ شالوں کی فروخت چار کروڑ 10 لاکھ ڈالر تھی، جو 2020-2021 میں گھٹ کر دو کروڑ 32 لاکھ ڈالر رہ گئی۔پشمینہ اون کے بین الاقوامی لگژری برینڈ ‘می اینڈ کے’ کے بانی ڈائریکٹر مجتبی قادری پشمینہ کی صنعت کے زوال کا الزام صنعت کاروں کو دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اون کاتنے والوں اور پشمینہ ملبوسات پر کڑھائی کرنے والے فن کاروں کو بہت کم معاوضہ ادا کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ میں دوسروں کے مقابلے میں اپنے دستکاروں کو 50 فی صد زیادہ معاوضہ دیتا ہوں۔قادری نے بتایا کہ انہوں نے اون کاتنے کے لیے 300 سے زیادہ خواتین کو روزگار فراہم کیا ہے۔ انہوں نے خواتین کو ہاتھ کے چرخے پر پشمینہ اون کاتنے کی تربیت کا پروگرام بھی شروع کر رکھا ہے۔پشمینہ انڈسٹری سے منسلک سرکردہ افراد کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال گرمیوں میں جنم لینے والے سرحدی بحران سے اس شعبے کے مفادات کو نقصان پہنچا ہے۔ کشمیر پشمینہ آرگنائزیشن کے صدر مبشر احمد شا نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سرحدی تنازعے کے نتیجے میں خام پشمینہ کی قیمت بڑھ گئی ہے جس سے تقریبا سات لاکھ افراد متاثر ہو رہے ہیں جن کی روزی روٹی اس شعبے سے وابستہ ہے۔پشمینہ کی تیاری اور مارکیٹنگ کی ایک کمپنی ‘فامب فیشنز پرائیویٹ لمیٹڈ’ کے ایگزیکٹو منیجنگ ڈائریکٹر جنید شادھر نے بتایا کہ ایک کلوگرام خام پشمینہ اون کی قیمت 37 ڈالر سے بڑھ کر 47 ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ لداخ میں اس صنعت کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ یہاں کمیاب ‘چانگ تھن گی’ بکریاں پالنے والے خانہ بدوش خاندانوں کی تعداد 1600 سے 1700 کے درمیان ہے۔ اب انہیں قیمتی اون پیدا کرنے والی بکریاں پالنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔سرحدی علاقے کے ایک حلقے میں خانہ بدوشوں کی نمائندگی کرنے والے کونسلر کونچوک سٹانزین نے بتایا کہ پشمینہ بکریاں پالنے والوں کی زندگیاں انتہائی دشوار ہیں اور وہ ایک کھٹن زندگی گزارتے ہیں جس کی وجہ سیان کے بچے گلہ بانی کا کام جاری رکھنا نہیں چاہتے۔سٹانزین لداخ آٹونومس ہل ڈیولپمنٹ کونسل کے رکن ہیں انہوں نے بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کو اپنے مطالبات کی ایک فہرست پیش کی جس میں یہ اپیل بھی شامل تھی کہ چین اور بھارت کو الگ کرنے والی سرحدی لائن آف کنٹرول کے قریب رہنے والے خانہ بدوشوں کو لیہہ شہر کے اندر رہنے کی جگہ فراہم کی جائے، کیونکہ سرحد پر جاری کشیدگی کی وجہ سے ان کا وہاں رہنا ممکن نہیں