شہنشاہ ِکون ومکاں کی روح پرور آمد(حصہ اول)

مکہ مکرمہ میں دونوں میاں بیوی نے اپنی ازدواجی زندگی پیارمحبت کے بے پناہ جذبوں کے ساتھ شروع کی۔یوں معلوم ہوتاتھا جیسے آمنہ، عبداللہ کی آنکھ کا اورعبداللہ، آمنہ کی آنکھ سے دیکھتے ہوں۔دونوں کے دل ایک ساتھ دھڑکتے۔آمنہ کو جب کبھی یہ خیال آتاکہ اللہ نے ان کے خاوند کو ذبح ہونے سے بچالیاتھا، تو خوشی اورشکرکے ملے جلے جذبات سے ان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے اور وہ پکاراٹھتیں۔اے اللہ تیراشکرہے۔ تونے عبداللہ کے بدلے سواونٹوں کی قربانی قبول فرمالی جس طرح ان کے داداحضرت اسمعیل کے بدلے جنت کامینڈھا قربان فرمایاتھا۔عبداللہ نے ایک روزکہا:آمنہ اللہ تعالی نے مجھے شایداس لیے بچا لیاکہ تمہارے ساتھ زندگی بسرکروں۔میں اللہ سے دعا کرتاہوں کہ وہ ہمیں ایک ایسا بیٹاعطاکرے جو تمہاری طرح پاکباز، پرہیزگاراور نیک ہو۔ آمنہ: اللہ کاشکرہے کہ ا س نے آپ کو بھی اتناہی پرہیزگار، پاکبازاورنیک بنایا۔حتی کہ آپ قریش کی عورتوں میں انھی ناموں سے یادکیے جاتے ہیں۔قریش کی اکثر عورتیں آپ کو اپنی زندگی کا ساتھی بنانے کی تمناکرتی تھیں۔یہاں تک کہ ان میں سے ایک خاتون فاطمہ بنت مر نے جوایک بہت بڑی کاہنہ بھی تھی، آپ سے شادی کی باقاعدہ پیشکش بھی کی تھی۔شام کو روانگی: آمنہ اور عبداللہ کو اکٹھے رہتے ہوئے زیادہ سے زیادہ بیس دن گزرے ہوں گے کہ عبداللہ ایک تجارتی قافلے کے ساتھ سفرشام کی تیاریاں کرنے لگے۔یہ جدائی ان دونوں کیلئے بڑی کٹھن تھی۔عبداللہ کہہ رہے تھے: آمنہ! صبرکرو، ان شا اللہ میں چند ماہ بعد واپس آ جاں گا۔مجھے یقین ہے کہ اس سفر سے میں خاصانفع کماکرلاں گااورہم اپنی زندگی آرام اور خوشحالی سے بسرکرسکیں گے۔ آمنہ: عبداللہ! آپ کی محبت میرے لیے دنیااوراس کی زینتوں سے زیادہ قیمتی ہے۔میری ساری خوشیاں اس بات میں ہیں کہ آپ یہیں میرے پاس رہیں۔عبداللہ:آمنہ!ان شا اللہ میں سفرسے اس طرح لوٹ آں گا جس طرح ایک پرندہ رات ہونے پر اپنے گھونسلے میں واپس آتاہے۔۔۔۔ منہ میں اپنے بچوں کیلئے دانہ اوردل میں ان کی محبت لیے ہوئے۔آمنہ!اپنی اورمیری خوشی کیلئے یہ جدائی برداشت کرہی لو۔تم توجانتی ہو کہ ہم قریش اپنی سال بھر کی معیشت کے لیے انھی دوتجارتی سفروں سے کام لیتے ہیں۔۔۔شام اور یمن کے سفروں سے۔آمنہ: اگرآپ جاناہی چاہتے ہیں، تومیں جدائی کا صدمہ برداشت کرلوں گی، تاہم اس دوران میں میرادل برابرآپ کے خیال میں لگارہے گا۔عبداللہ:میں تمہیں یقین دلاتاہوں کہ میرادل بھی اس دوران میں کبھی تمہارے خیال سے غافل نہیں رہے گا۔آخر کارعبداللہ قافلے کے ساتھ سفر پرروانہ ہوگئے اورآمنہ گھرمیں ان کی واپسی کاانتظارکرنے گیں۔عبداللہ کو گئے ہوئے ایک ماہ گزرگیا، توآمنہ کو محسوس ہواکہ وہ عنقریب ماں بننے والی ہیں۔انھیں مکہ کی کاہنہ فاطمہ بنت مر کی وہ باتیں یادآئیں جو اس نے عبداللہ سے کی تھیں۔وہ سوچنے لگیں کہ میرابیٹا واقعی ایک بہت بڑاانسان ہوگا۔ایسا بیٹاہرماں کے گھرمیں پیدانہیں ہوتا۔یہ انھی حضرت اسمعیل ذبیح اللہ کی اولادسے تو ہوگاجن کے بجائے اللہ تعالی نے جنت سے خصوصی مینڈھا بھیجاتھا اوریہ انھی عبداللہ کا بیٹاہوگاجنہیں بچانے کیلئے اللہ تعالی نے ان کی جگہ سو اونٹوں کی قربانی قبول کی تھی۔اس اعتبارسے تووہ ابن الذبیحین ہوگا یعنی دو ذبح ہونے والوں کابیٹا۔مجھے یقین ہے میرابیٹااتنی اونچی شان والا ہوگا کہ ایسی شان کسی نے دیکھی نہ سنی ہوگی۔ حضرت آمنہ انھی خیالات میں گم انتہائی بے تابی سے شوہرکاانتظارکررہی تھیں۔ وہ چاہتی تھیں کہ عبداللہ جلدازجلد واپس پہنچیں تاکہ انھیں اپنے بیٹے کے بارے میں بتاسکیں جو کچھ ہی عرصہ بعددنیامیں آنے والاتھا۔اسی دوران انھیں معلوم ہواکہ شام سے ایک قافلہ واپس آرہاہے۔یہ خبرسن کران کے دل کی بے تابیاں بڑھنے لگیں۔انھیں امیدتھی کہ اس قافلے کے ساتھ جناب عبداللہ بھی ہوں گے اوراگر ایسانہ بھی ہوا، تو قافلے والے انکے بارے میں ضرورکچھ بتاسکیں گے۔ قافلہ مکہ مکرمہ پہنچا، تو لوگوں نے بڑھ چڑھ کراستقبال کیا اورخوشیاں منائیں۔کہیں کوئی بچہ اپنے باپ کے ساتھ لپٹ رہاتھا، تو کہیں کوئی بیوی اپنے شوہرکااستقبال کررہی تھی اورکہیں کوئی باپ اپنے بیٹے پراپنی محبتیں نچھاورکررہاتھا۔غرض جشن کا سماں تھا۔حضرت عبداللہ کی وفات: ادھرآمنہ کی بے چینی بڑھ رہی تھی۔عبدالمطلب قافلے والوں سے مل کرگھرآئے، تو انھوں نے بہوسے کہا:آمنہ بیٹی! عبداللہ کے بارے میں پریشان مت ہونا۔قافلے والے کہتے ہیں کہ عبداللہ یثرب پہنچ کربیمارپڑگیاتھا، لہذاانھوں نے اسے آرام اورعلاج کی غرض سے یثرب کے محلہ نبی نجارمیں ٹھہرادیا۔خود ان لوگوں نے بھی رات وہیں قیام کیاتھا۔میں نے حارث کواس کا پتا کرنے بھیجاہے۔امیدہے کہ و ہ دونوں چندروزبعد مکہ واپس آجائیں گے۔حارث یثرب پہنچے، توانھیں پتاچلاکہ عبداللہ ان کے آنے سے پہلے ہی فوت ہوچکے اور نبی نجاروالوں نے انھیں اپنے قبرستان میں دفن کردیاہے۔وہ دل گرفتہ ہوکر مکہ لوٹ آئے۔ عبدالمطلب نے اپنے بیٹے کے انتقال کی خبرسنی، توآنکھیں چھلک پڑیں۔وہ اپنے سب سے چہیتے بیٹے کی وفات کے صدمے سے تڑپ اٹھے۔ آمنہ کو حارث کی واپسی کاپتاچلا، تو انھوں نے اپنی لونڈی برکہ کو بھیجا کہ حقیقت حال معلوم کرکے آئے۔برکہ یہ اندوہناک خبرسن کر چیختی چلاتی لوٹی۔آمنہ نے اس کی چیخیں سنیں، تو اندرسے ہل کررہ گئیں۔انھیں اندازہ ہوگیا کہ برکہ اچھی خبرنہیں لائی اور شایداب وہ اپنے شوہرکو کبھی نہ دیکھ سکیں گی۔وہ خودکو تھام نہ سکیں، بسترپرگرپڑیں اور پھرانھیں گردوپیش کی کچھ خبرنہ رہی۔برکہ انھیں ہوش میں لانے کی تدابیرکرنی لگی۔اس نے ان کے چہرے پرپانی چھڑکا حتی کہ انھیں ہوش آگیا۔۔۔ مگراب ان کی دنیااجڑ چکی تھی۔آمنہ سخت پریشان تھیں کہ عبداللہ کے بعدان کی پہاڑ جیسی زندگی کیسے کٹے گی، لیکن اچانک ان کا خیال اپنے اس بیٹے کی طرف گیاجو شوہرکی یادکی صورت میں ان کے پیٹ میں تھااورجس کی پیدائش میں اب صرف چندماہ باقی رہ گئے تھے۔یہ خیال آتے ہی انھوں نے فیصلہ کیاکہ اب وہ اپنے اس بیٹے کے لیے زندہ رہیں گی۔ابرہہ کا حملہ: ایک دن ایسا ہوا کہ عبدالمطلب، آمنہ کے پاس اس حال میں آئے کہ چہرے سے اضطراب جھلک رہاتھا۔وہ آتے ہی کہنے لگے:آمنہ بیٹی! مکہ مکرمہ سے نکلنے کی تیاری کرو۔آمنہ: اباجان! کیاماجراہواہے؟عبدالمطلب:صنعاکاظالم حکمران ابرہہ الاشرم چاہتاہے کہ مکہ فتح کرکے کعبہ ڈھادے، قریش کو ذلیل کرے، ان کی عورتیں قیدکرلے اورمردقتل کردے۔آمنہ:توکیاہم یہاں سے جان بچاکرنکل چلیں اوراسے یہ موقع دیں کہ کعبہ ڈھادے؟ حالانکہ یہ اللہ کاگھرہے اوراسے حضرت ابراہیم اورحضرت اسمعیل نے تعمیرکیا جواللہ کے پیغمبرتھے۔ کیاوہ ظالم اوربدبخت شخص اللہ کا یہ گھر تباہ کرنے میں کامیاب ہوجائے گا؟ کیاحضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل کا رب اپنے گھرکی تباہی پرخاموش رہے گا؟عبدالمطلب:یہ کیسے ہوسکتاہے۔ کعبے کا رب یقینا اپنے گھر کی حفاظت کرے گا۔وہ یقینا اسے ظالموں سے بچائے گا۔آمنہ مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالی میری گود سے ایک ایسا بیٹادے گا جو مکہ اورتمام عرب کاسردارہوگا۔میرابیٹا دنیاسے باطل کے اندھیرے مٹاکرہرطرف حق کانورپھیلائے گا۔ وہ دنیاسے برائیوں اور گمراہیوں کامکمل خاتمہ کرکے حق کا بول بالاکرے گا۔عبدالمطلب:بیٹی تمہارایہ یقین کس بنیادپرہے؟ آمنہ: اباجان!مجھے کئی ایسے خواب نظرآئے ہیں جن سے میرے بیٹے کی عظمت کا پتاچلتاہے۔میں اکثر خواب میں دیکھتی ہوں کہ ایک نورمیرے اندرسے نکلتاہے۔یہ نور زمین سے آسمان تک ہرچیزکومنورکردیتاہے۔اس کے ساتھ ہی مجھے غیب سے ایک پکارسنائی دیتی ہے۔کوئی مجھ سے کہہ رہاہوتاہے:اے آمنہ!تجھ سے اللہ کامحبوب ترین بندہ پیداہوگا۔تجھ سے عرب اورعجم کاسردارپیداہوگا۔عبدالمطلب:آمنہ بیٹی!مجھے یقین ہے کہ اپنے بیٹے کے بارے میں
تمہارایہ اندازہ درست ثابت ہوگا ان شا اللہ اورہاں بیٹی! میں تمہیں بتارہاتھا کہ ابرہہ مکہ مکرمہ پرحملے کی نیت سے آرہاہے۔اگر وہ ظالم اس شہر امن میں داخل ہوجاتاہے، توپھر ہم اپنے گھروں سے نکل کرپہاڑوں کی طرف چلے جائیں گے تاکہ ہمیں اس کے شر سے پناہ مل سکے۔اگر اس گھر کے رب نے اسے راستے ہی میں تباہ کردیاتو پھر ہم اپنے گھروں ہی میں رہیں گے،لہذامیری بیٹی تم روانگی کے لیے تیارتورہنا، لیکن مجھے بتائے بغیریہاں سے نکلنا نہیں۔آمنہ: اباجان! ان شا اللہ آپ مجھے اپنے حکم کی تعمیل کرتے پائیں گے۔اللہ کا دشمن بربادہوا: ابرہہ اپنی فوج لے کر مکہ مکرمہ کی جانب بڑھا۔اس کا ارادہ تھاکہ کعبہ شریف کوگرادے تاکہ لوگ اس کے بجائے اس کنیسہ کاحج کیاکریں جواس نے یمن میں بنایاتھا۔لشکرکے ساتھ چندہاتھی بھی تھے۔اسی لیے قرآن میں انھیں اصحاب الفیل یعنی ہاتھیوں والے کہاگیا ہے۔جب یہ لشکرمکہ معظمہ کے قریب مزدلفہ کی وادی میں پہنچا، توابرہہ کاہاتھی اچانک زمین پربیٹھ گیا۔اسے آگے بڑھانے کے سوسوجتن کیے گئے، مگر وہ ذرہ برابربھی آگے نہیں بڑھا۔ابرہہ کے سپاہی زبردستی اس کا رخ مکہ کی طرف موڑناچاہتے، تو وہ یمن کی طرف منہ کرلیتایازمین پربیٹھ جاتا۔اتنے میں ابرہہ اوراس کی فوج نے دیکھا کہ آسمان پرہزاروں پرندے اپنی چونچوں اورپنجوں میں کنکر لیے ان کی طرف آرہے ہیں اورپھر یکایک وہ کنکر ان پر گرنے لگے۔ جس شخص کے بھی ان میں سے کوئی کنکر لگتا، وہ اسی وقت مرجاتا اور اس کی حالت کچھ ایسے ہوجاتی جسے کھایاہوابھوساہو۔ایک کنکر ابرہہ کے جسم پر بھی لگاجس سے ا س کی عجیب حالت ہوگئی۔اس کے جسم کاگوشت تھوڑاتھوڑاکرکے گرناشروع ہوایہاں تک کہ اسے یقین ہوگیاکہ اب اس دنیاکی کوئی طاقت مرنے سے نہیں بچاسکتی۔دیکھتے دیکھتے ابرہہ اوراس کے تمام ساتھی نیست ونابودہوگئے۔ یوں اللہ تعالی نے خوداپنے گھر کی حفاظت فرمائی۔مکہ والے ابرہہ کے شرسے بچ گئے اورا س ظالم کی چال ناکام ہوگئی۔قرآن کریم اس واقعے کا ذکران الفاظ میں کرتاہے: تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیاکیا؟ کیااس نے ان کی تدابیراکارت نہیں کردی؟ اوران پر پرندوں کے جھنڈکے جھنڈ بھیج دیے جوان کے اوپر پکی ہوئی مٹی کے پتھر پھینک رہے تھے۔پھر ان کا یہ حال کردیاجیس ے( جانوروں)کاکھایاہوابھوسا۔(سور الفیل) یہ ایک بڑا اہم اورتاریخی واقعہ تھا۔اس لیے مکہ والوں نے اس کانام ہی عام الفیل رکھ دیایعنی ہاتھیوں والاسال۔جناب عبدالمطلب یہ خوشخبری سنانے آمنہ کے پاس گئے، توکہنے لگے:آمنہ!واقعی تمہارے خواب سچے ثابت ہورہے ہیں۔مجھے یقین ہے کہ تمہاراہونے والابیٹا مکہ مکرمہ کو بھلائی اور خیر سے بھر دیگا۔نورطیب کانزول: یہ بیع الاول کی ایک پاکیزہ اورنورانی صبح تھی جب حضرت آمنہ کودردمحسوس ہوااورپھرانھیں یوں لگا جیسے ان کے گھر سے ایک نور نکلاہو(جاری ہے ۔۔۔)
جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری کائنات اپنی لپیٹ میں لے لی۔اسی دوران انھیں احسا س ہوا جیسے کچھ خواتین ان کے اردگرد بیٹھی مشکل کے اس موقع پر ان کی مددکوآئی ہوں۔آمنہ سوچنے لگیں کہ یہ کون عورتیں ہوسکتی ہیں، کیونکہ خودانھوں نے تو بنی ہاشم یا قریش کی عورتوں کی اس بارے میں کوئی اطلاع نہیں دی تھی، پھر بھلاوہ کیسے آسکتی ہیں؟ آمنہ ابھی یہی سوچ رہی تھیں کہ ان کے کانوں میں ان عورتوں کی آوازیں آنے لگیں۔۔۔۔انتہائی میٹھی اورسریلی آوازیں جو انھوں نے پہلے کبھی نہیں سنی تھیں۔اس سے آمنہ کو یقین ہوگیا کہ یہ بنوہاشم کی عورتیں نہیں، بلکہ اورہی کسی دنیاسے آئی ہیں۔ آمنہ پران کا رعب طاری ہوگیا۔انھوں نے خودکوان بزرگ خواتین کے سپردکردیا۔پھرانھیں یوں لگاجیسے ان کاپوراگھر نورسے جگمگا اٹھا۔یہ نوران کے اپنے جگرگوشے کے جسد مبارک سے پھوٹ رہاتھا جو اب پیداہورہاتھا۔دیکھتے ہی دیکھتے اس مبارک نورنے پوری دنیاکو منورکردیا۔اس کے ساتھ ہی آمنہ نے سناکہ وہ بزرگ خواتین ایک دوسری کومحمد ۖ کی پیدائش پرہدیہ تبریک پیش کررہی ہیں۔یوں آمنہ کے کان میں باربار محمد ۖ کامبارک نام پڑااور پھر یہ نام انھیں زبانی یادہوگیا۔کچھ دیربعد جب آمنہ کی وہ خاص کیفیت ختم ہوئی اورانھیں افاقہ محسوس ہوا، تویہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اب ان بزرگ خواتین میں سے کوئی بھی وہاں موجود نہیں تھیں, البتہ ان کے پہلو میں ان کا اپناجگرگوشہ محوخواب تھا۔وہ سراپانور اورحسن وجمال کامجسمہ تھا۔۔۔۔چاندایساروشن، پاک اور طاہراوراس کی آنکھیں آسمان پرجمی ہوئی تھیں۔ آمنہ نے اپنے جگرگوشے کو سینے چمٹالیااوراپنی لونڈی برکہ کو جناب عبدالمطلب کے پاس بھیجا کہ انھیں پوتے کے پیداہونے کی خوشخبری سنائے۔جناب عبدالمطلب بھاگے ہوئے آئے۔وہ اپنے پوتے کی طرف مسرت سے بھرپور نظرو ں سے دیکھ رہے تھے جوانھیں اپنے مرحوم بیٹے عبداللہ کے بچپن کی تصویرلگ رہاتھا۔عبدالمطلب نے پوتے کواپنی آغوش میں اٹھالیا۔و ہ اسے باربارچوم رہے تھے اوران کی زبان سے مرحبامرحبانکل رہاتھا۔پھروہ آمنہ کی طرف متوجہ ہوئے اوران سے پوچھا:بیٹی! ان کا نام کیارکھاہے۔زمین وآسمان کے محبوب: آمنہ کے ذہن میں فورا وہ نام آگیاجوانھوں نے ان برزگ خواتین سے سناتھا۔وہ ایک دوسرے کو محمد ۖ کی پیدائش کی خوشخبری سنارہی تھیں، چنانچہ انھوں نے خسرکواپنے بیٹے کایہی نام بتایا۔عبدالمطلب:محمد۔۔۔۔! تم نے یہ نام کہاں سے لیا؟ہمارے باپ دادامیں سے کسی کانام بھی محمد نہ تھا۔آمنہ: اباجان! ان کا نام تو آسمان پر رکھاگیاہے۔عبدالمطلب:کتناپیارانام ہے! محمد۔۔۔۔ زمین اورآسمان میں تعریف کیاجانے والا۔پھر عبدالمطلب نے بچہ ماں کی طرف بڑھایااورخودقریش کو یہ خوشخبری دینے چلے گئے۔انھوں نے بڑی تعدادمیں اونٹ ذبح کرکے ان کاگوشت غرباومساکین میں تقسیم کیا۔اب آمنہ کو خاندانی رواج کے مطابق بیٹے کے لیے کسی دودھ پلانے والی دایہ کا بندوبست کرناتھا، چنانچہ انھوں نے جناب عبدالمطلب سے کہاکہ وہ محمد ۖ کے لیے کوئی دایہ ڈھونڈلائیں جوانھیں اپنے ساتھ لے جاکردیہات کی صحت منداورپاکیزہ آب وہوامیں ان کی پرورش کرے۔دائی حلیمہ : ایک دن عبدالمطلب ایک دیہاتی عورت کو ساتھ لیے آمنہ کے گھر میں داخل ہوئے۔آمنہ نے حسب معمول اھلا وسھلا مرحبا کہتے ہوئے بڑے تپاک سے ان کا استقبال کیا۔عبدالمطلب اپنی بہوسے مخاطب ہوئے:آمنہ بیٹی! یہ حلیمہ ہیں، بنی سعد کے دیہات سے آئی ہیں تاکہ محمد ۖ کواپنے ساتھ لے جاکران کی پرورش کرسکیں۔حلیمہ بولیں: میں محمد ۖ کوکتنا عرصہ اپنے پاس رکھ سکوں گی؟۔عبدالمطلب نے کہا: آ پ محمد ۖ کو اس وقت تک اپنے پاس رکھیں جب تک یہ اپنے قدموں پرچلنے پھرنے کے قابل نہ ہوجائیں، تاہم اس دوران انھیں ان کی ماں سے ملوانے کے لیے مکہ لاتی رہاکریں، کیونکہ آمنہ اپنے بیٹے کی جدائی لمبے عرصے تک برداشت نہیں کرسکیں گی۔ حضرت محمد کئی سال حلیمہ سعدیہ کے ساتھ بنی سعدکے علاقے میں رہے۔اس دوران میں وہاں کئی واقعات ایسے ہوئے جن سے حضرت حلیمہ سعدیہ کو یقین ہوگیاکہ محمد ۖ عام بچوں جیسے نہیں۔مثلااونٹی کادودھ کئی گنابڑھ جانا، ان کے گھرانے میں اچانک خوشحالی کے دورکاآغاز ہونا، فرشتوں کے ہاتھوں محمد کا سینہ چاک ہونا۔جب آپ کی عمر سات سال ہوئی، تو حضرت حلیمہ آپ کو لے کرواپس مکہ مکرمہ آگئیں تاکہ انھیں دیکھنے کے لیے بے چین ہیں۔حضرت محمد کی والدہ اور داداانکی بخیر وعافیت مکہ واپسی پر بہت خوش ہوئے اور اللہ تعالی کا شکر بجالانے لگے کہ اس نے انھیں دوبارہ اپنے نور نظرکودیکھنے کا موقع دیا۔کچھ عرصے کے بعدحضرت آمنہ نے پروگرام بنایاکہ وہ اپنے بیٹے محمد اورلونڈی برکہ کو ساتھ لے کر اپنے شوہرعبداللہ کی قبرکی زیارت کے لیے یثرب جائیں، چنانچہ ادھر جانے والے ایک قافلے کے ساتھ ہولیں۔شوہرکی قبرکی زیارت کرنے کے بعد اسی قافلے کے ساتھ واپسی کی راہ لی، مگرابھی تھوڑاہی راستہ طے کیاتھا کہ اچانک بیمارہوگئیں۔ان کی بیماری سے محمد اوربرکہ پریشان ہوگئے۔روزبروزبیماری بڑھتی جارہی تھی یہاں تک کہ وہ قافلے کے ساتھ چلنے سے معذورہوگئیں، لہذاراستے میں ابوانامی جگہ پرٹھہرگئیں۔ برکہ نے دل وجان سے ان کی تیمارداری کی، لیکن ایک ہی رات بعدان کی روح جسم سے پروازکرگئی۔حضرت آمنہ اپنے رب کے پاس پہنچ گئیں جہاں ان کے شوہرپہلے ہی موجودتھے۔صدمہ جانکاہ: حضرت محمد ۖ کواپنی والدہ کی اچانک وفات کااس قدرشدیدصدمہ ہواکہ وہ نڈھال ہوکررہ گئے۔والدکے بعد والدہ کی رحلت نے ان کا احساس یتیمی دگناکردیا۔برکہ کو بھی اپنی پیاری مالکہ کے رخصت ہونے کاسخت افسوس ہوا۔وہ خوب خوب روئی اورپھر اپنے ہاتھوں سے ریگستان میں قبرکھود کر انھیں دفن کردیا۔اس کے بعد برکہ اورحضرت محمد اکیلے مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔حضرت محمد کواحساس تھاکہ اب وہ اس دنیامیں کبھی اپنی ماں کاچہرہ نہیں دیکھ سکیں گے، لیکن وہ اسے کیسے بھول سکتے تھے جوان سے بے پناہ محبت کرتی تھیں اورجن سے خودانھیں بے پناہ محبت تھی۔حضرت آمنہ کی تصویرہمیشہ کے لیے آپ کے دل میں نقش ہوچکی تھی۔تریسٹھ سال کی عمرمیں اپنی زندگی کے آخری برس جب رسول اللہ اہل ایمان کے ساتھ حجتہ الوداع کیلئے مکہ مکرمہ کی طرف جارہے تھے، توآپ اس راستے سے گزرے جدھر سے بچپن میں اپنی ماں کے ساتھ گزرے تھے۔اس بارآپ کے ہمراہ آپ کی زوجہ حضرت عائشہ صدیقہ بھی تھیں۔جب آپ ابواکے مقام پر پہنچے، تووہاں قبروں میں سے گزرتے ہوئے ایک قبرکے سامنے افسردگی کی حالت میں کھڑے ہوگئے اور دیرتک وہاں کھڑے روتے رہے۔حتی کہ آپ کارونادیکھ کر حضرت عائشہ بھی روپڑیں۔ یہ آپ کی والدہ محتر مہ حضرت آمنہ کی قبرتھی۔ (ماخوذازاردو ڈائجسٹ اکتوبر2021 )