اپوزیشن کی انگڑائی

ہمارے دوست کہتے ہیں کہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں انگڑائی کیا لی ہے کہ حکومت کے کڑاکے نکال دیے ہیں۔ کڑاکے سے بے اختیار مشاہد حسین سید یاد آجاتے ہیں جن کی اٹھان بڑی عالمانہ تھی، درس و تدریس سے صحافت کی طرف آئے، ایک انگریزی اخبار کی ادارت کرتے رہے، ان کے انگریزی کالموں نے بھی بڑی دھوم مچائی۔ پھر وہ سیاست کو پیارے ہوگئے اور مسلم لیگ (ن) کے لیڈر کی حیثیت سے مخالفین کے کڑاکے نکالنے لگے۔ یہ لفظ ان کی زبان پر ایسا چڑھا ہوا تھا کہ مشاہد حسین سید کڑاکے والے مشہور ہوگئے تھے۔ جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کو برطرف کرکے اقتدار پر قبضہ کیا تو خود مشاہد حسین کے بھی کڑاکے نکل گئے، مدتوں نظر بند رہے۔ مسلم لیگ ن نے جھوٹے منہ ان کی خبر نہ لی۔ رہا ہوئے تو انہوں نے مسلم لیگ ق میں پناہ ڈھونڈ لی کہ اسے خود جنرل پرویز مشرف نے کھڑا کرکے شریک اقتدار بنایا تھا۔ اس طرح مشاہد حسین کی بھی اقتدار تک رسائی ہوگئی۔ اب ہمیں نہیں معلوم کہ ان دنوں وہ کہاں ہیں اور ان کے کڑاکوں کا کیا حال ہے۔ مسلم لیگ ق میں ہیں یا مسلم لیگ ن میں واپس چلے گئے ہیں۔ البتہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں انگڑائی لے کر حکومت کا جو حال کیا ہے اس سے کڑاکے یاد آگئے ہیں۔ آصف زرداری تو ابتدا ہی سے اس بات کے حق میں تھے کہ عمران حکومت کے خلاف لانگ مارچ، دھرنے اور استعفوں کی سیاست کے بجائے اِن ہائوس تبدیلی کی حکمت عملی اختیار کی جائے تو اس کے مثبت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں لیکن کسی نے ان کی مان کر ہی نہ دی۔ پی ڈی ایم کے سربراہ حضرت مولانا فضل الرحمن نے تو اِن ہائوس تبدیلی کا امکان ہی سرے سے مسترد کردیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مشقِ لاحاصل میں ہمیں اپنا وقت نہیں ضائع کرنا چاہیے۔ حکومت عدم اعتماد سے نہیں عوامی ردعمل سے جائے گی۔ اس کے لیے جلسے جلوس لانگ مارچ اور دھرنا ہی بہترین حکمت عملی ہے۔ میاں نواز شریف بھی حضرت مولانا کے ہم رائے تھے۔ پی ڈی ایم نے جلسے تو بہت کیے لیکن پیپلز پارٹی کے عدم تعاون کی وجہ سے لانگ مارچ پر اتفاقِ رائے نہ ہوسکا۔ اِس وقت اپوزیشن قومی اسمبلی میں حکومت کو پچھاڑ رہی ہے اور حکمران پارٹی کے اتحادی پنچھی اڑنے کے لیے پر پھلائے بیٹھے ہیں تو حضرت مولانا نے پھر لانگ مارچ کا راگ الآپنا شروع کردیا ہے۔ اندر کے بھیدی حافظ حسین احمد کا کہنا ہے کہ یہ جو بار بار لانگ مارچ کا مروڑ اٹھتا ہے اس کا واحد سبب یہ ہے کہ لانگ مارچ کے لیے ایڈوانس پکڑ رکھا ہے مگر لانگ مارچ نہیں ہوتا تو یہ ایڈوانس واپس کرنا پڑے گا جب کہ سیاست میں ایڈوانس واپس کرنے کی کوئی روایت موجود نہیں ہے۔ یہاں تو کھیل ختم پیسہ ہضم کے اصول پر عمل ہوتا ہے۔ چوں کہ ابھی کھیل ختم نہیں ہوا ہے اس لیے پیسہ ہضم کرنے میں بھی دشواری پیش آرہی ہے اور بار بار لانگ مارچ کا اعلان کرنا پڑرہا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ اگلے مہینے لانگ مارچ کا انعقاد یقینی ہے۔
کیا لانگ مارچ یا دھرنے سے حکومت چلی جائے گی؟ شاید ایسا ممکن نہ ہو البتہ تحریک عدم اعتماد سے حکومت کا رخصت ہونا یقینی معلوم ہوتا ہے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے جس طرح اپنی قوت کا مظاہرہ کیا ہے اور حکومت نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرنے کے بعد اسے جس عجلت اور بدحواسی میں ملتوی کیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اپوزیشن سے بری طرح خائف ہے اسے اپنے اتحادیوں پر بھی اعتماد نہیں ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف نے چند روز پہلے ارکان پارلیمنٹ کے اعزاز میں جو ظہرانہ دیا تھا۔ اس میں ایک سو اسی ارکان شریک ہوئے تھے۔ یہ تعداد تحریک عدم اعتماد کو درکار مطلوبہ ووٹوں سے بھی زیادہ ہے لیکن تحریک عدم اعتماد کا بظاہر کوئی غلغلہ نظر نہیں آرہا۔ غلغلہ کیا معنی، اپوزیشن کے حلقوں میں کوئی اس کا تذکرہ کرنے کو بھی تیار نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ اب عمران خان کو قومی اسمبلی کا اعتماد حاصل نہیں رہا، خود ان کے اتحادی ان سے پیچھا چھڑانے کی فکر میں ہیں اور ان سے اختلاف کا اظہار کررہے ہیں۔ ای ووٹنگ کو بھی وہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں، جب کہ شنید ہے کہ الیکشن کمیشن بھی حکومت کے دبائو میں آکر اس نئے نظام کو قبول کرنے پر آمادہ ہوگیا ہے۔ عمران خان پر حال میں ای ووٹنگ کے ذریعے انتخابات کرانا چاہتے ہیں کہ یہی ان کے بچائو کی واحد صورت ہے جب کہ اپوزیشن جماعتیں اس میں اپنی ناکامی دیکھ رہی ہیں۔ بہرکیف عمران حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی فضا موجود ہے۔ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ اس عدم اعتماد کی فضا کو کیش کرانا آسان نہیں ہے۔ اس کے لیے بھی کسی غیبی اشارے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شاید لانگ مارچ بھی کسی اشارے کا منتظر ہے ورنہ وہ بار بار ملتوی نہ ہوتا۔ بظاہر ملک میں جمہوریت ہے لیکن پس پردہ اسے آہنی ہاتھوں سے کنٹرول کیا جارہا ہے۔
ایسے میں اپوزیشن نے انگڑائی تو لے لی ہے اور قومی اسمبلی میں اس کے نتائج بھی سامنے آگئے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ نتائج کسی پرامن انقلاب کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں؟ جمہوریت میں ایسا ہوتا ہے لیکن پاکستان میں جمہوریت ہو تو بات بنے۔ اِن ہائوس تبدیلی کے واضح امکانات کے باوجود حضرت مولانا نے نئے انتخابات کا مطالبہ داغ دیا ہے۔
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی