خوف پھیلا کر دنیا پر حکمرانی

لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف برصغیر میں یا مسلمانوں میں بچوں کو خوفزدہ کرکے ان سے بات منوائی جاتی ہے۔ انہیں اچھا بچہ بنانے کے لیے اللہ بابا ہائو یا چڑیل وغیرہ سے ڈرایا جاتا ہے۔ عربوں میں بھی مختلف بلائوں اور جانوروں سے ڈرایا جاتا ہے اور ہاں پڑھے لکھے مہذب مغرب امریکا، یورپ وغیرہ میں بھی ایک مانسٹر ہوتا ہے۔ اس سے ڈرایا جاتا ہے۔ بچوں کو بتایا جاتا ہے کہ اگر رات کو درخت کے نیچے کھڑے ہوئے تو جن آجائے گا۔ اور اس طرح کے دیگر طریقے اختیار کرکے بچوں اور بڑوں کو بھی اپنی ہدایات کا پابند بنایا جاتا تھا لیکن جدید دور میں یہ سب ختم نہیں ہوا ہے۔ اب ہر چیز کا نام اور طریقہ بدل گیا ہے۔ اب یہ کام مرکزی طور پر اداروں نے سنبھال لیا ہے۔ تقسیم کار کردی گئی ہے کون کس کو کس طرح ڈرائے گا، پہلے دادی اماں ڈراتی تھیں اب دادا گیر ڈراتے ہیں۔ پوری دنیا کو خوفزدہ کرنے کا ٹھیکا اقوام متحدہ نے لے رکھا ہے۔ وہاں سے تقسیم کار ہے، صحت کے حوالے سے خوفزدہ کرنا ہے تو ڈبلیو ایچ او کو کام تفویض کیا جاتا ہے۔ بچوں اور تعلیم کے حوالے سے خوفزدہ کرنا ہو تو یونیسکو کو ذمے داری دی جاتی ہے۔ جنگوں کے معاملے میں سلامتی کونسل استعمال ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر ذیلی ادارے، بین الاقوامی این جی اوز، ہر شعبے کی تنظیم اور آخر میں میڈیا، میڈیا کو آخر میں اس لیے لکھا ہے کہ کچھ ٹکڑے بچ جائیں تو وہاں ڈال دیے جاتے ہیں اور ان بھوکوں کے لیے یہ ٹکڑے بھی بہت ہوتے ہیں۔ حالاں کہ سب سے زیادہ خوف یہی پھیلاتے ہیں لیکن اصل منصوبہ سازوں میں ساری رقم پہلے ہی تقسیم ہوجاتی ہے پھر جیسا جیسا میڈیا ہو ویسی اس کی خدمت کی جاتی ہے۔ مغربی میڈیا سی این این، بی بی سی اور خبر رساں اداروں کی خدمت الگ انداز میں اور برصغیر کے نوزائیدہ میڈیا کو الگ انداز میں نوازا جاتا ہے۔ مختلف پیشہ ورانہ تنظیموں کے ذریعے ان پیشوں سے متعلق لوگوں کو اپنے ملک میں اور بیرون ملک کانفرنسوں کے دعوت نامے اور سیر سپاٹے، ٹکٹ وغیرہ اور سفر کے اخراجات کے نام پر اچھے خاصے ڈالرز جب یہ سب کچھ جیب میں اور پیٹ میں ہوتا ہے تو پیچھے سے آنے والی ہر آواز کو کسی تصدیق کے بغیر آگے بڑھایا جاتا ہے اور میڈیا ان چیزوں کو دکھا دکھا کر چیخ چیخ کر ڈرا رہا ہوتا ہے۔
خوف زدہ کرنے کے میدان بدلتے رہتے ہیں۔ ایک زمانے میں دنیا کو جنگوں سے خوفزدہ کیا جاتا تھا۔ کسی بھی ملکوں کے درمیان کشیدگی کو ہوا دے کر دنیا کو ڈرایا جاتا تھا کہ جنگ کے بادل گہرے ہوگئے پھر امن مشن روانہ ہوتے تھے دنیا بھر سے کرایے کی فوج جمع کرکے بھیجی جاتی اور پھر خوف کا ماحول پورے ملک میں چھا جاتا تھا۔ پھر یہ سودا مشکل سے بکنے لگا تو ایٹمی جنگ، ایٹمی مواد کی چوری، ایٹمی ہتھیاروں کا پھیلائو، عدم پھیلائو کے معاہدے وغیرہ۔ یہ شوشا چلتا رہا۔ عراق پر وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے کے ہتھیار رکھنے کا الزام جو دس سال میں ایک بھی نہیں برآمد ہوا۔ کیمیاوی اور وسیع پیمانے پر تباہی والے ہتھیاروں سے نکل کر دہشت گردی کا ہوا کھڑا کیا گیا۔ یہ محض الزام نہیں بلکہ دنیا کے روشن چہرے والے بل گیٹس فائونڈیشن، امریکی حکومت اور برطانیہ و یورپی یونین دنیا بھر میں دہشت گرد گروہوں کی تیاری ان کو فنڈز فراہم کرنے اور سرپرستی کرنے کے ثبوت بھی سامنے آچکے۔ کون سی تنظیم کو کہاں سے فنڈز ملتے ہیں سب ریکارڈپر آچکا ہے۔ پاکستان میں بلیک واٹر تھی اسی طرح دوسرے ممالک میں بھی یہی تنظیم تھی۔ دہشت گردی سے خوفزدہ کرکے ہر ملک کو تعاون پر مجبور کیا گیا ورنہ اسی پر دہشت گردی اور دہشت گردوں کی سرپرستی کا الزام لگادیا گیا۔ پاکستان تو دونوں الزامات سر پر اٹھائے پھرتا ہے۔ خدمت الگ کرتا ہے اسے سو جوتے اور سو پیاز کھانا کہا جاتا ہے۔ خدمت کا معاوضہ اس لیے نہیں ملتا کہ دہشت گردی کی سرکاری سرپرستی کے شبہات ہیں۔ دس سال عراق میں دہشت گردی وغیرہ کے نام پر مشرق وسطی میں دندناتے رہے۔ پھر 20 سال افغانستان میں بمباری کرتے رہے۔ بظاہر دہشت گردی کا بھوت افغانستان میں پٹ چکا ہے لیکن یہ کسی اور پر الزام تھوپ کر اس پر سواری گانٹھنے کے لیے تیاری کررہے ہیں۔ دہشت گردی ایسا زبردست آلہ ہے کہ اس کے نام پر کسی بھی ملک میں گھس جائیں۔ کسی پر بھی الزام لگادیں اور پھر باقی کام ذیلی ادارے کرتے ہیں۔
ان تمام چیزوں سے بالا جو چیز رہی ہے اور لگتا ہے وہ جاری رہے گی۔ وہ ہے بیماریوں کا خوف۔ دنیا کو ایڈز سے خوفزدہ کرکے میڈیا کو استعمال کیا گیا۔ کینسر سے زیادہ ایڈز کو موضوع بنایا گیا۔ دل کے امراض، بلڈ پریشر، فالج، معدے کی بیماریاں، ناقص غذائیں، آلودہ پانی اور ماحولیاتی آلودگی کو چھوڑ کر دنیا کو بیماریوں سے ڈرا کر غلام بنانے کا عمل شروع ہوا تو اس پر گرفت مضبوط نہیں تھی۔ کوئی مانتا تھا کوئی نہیں لیکن تازہ ترین وار تاریخ کا سب سے بڑا وار تھا، پوری دنیا کو ایک بیماری سے اتنا ڈرایا گیا کہ بہت سے لوگ ڈر سے ہی بیمار ہوگئے۔ میڈیا نے اس مرتبہ کمال کیا شاید ٹکڑے بڑے ملے تھے۔ ایسی ایسی ویڈیو کلپس سامنے آئیں کہ الامان کسی انگلش فلم میں جو اس وبا کے بارے میں پہلے سے آچکی تھی، دکھایا گیا کہ ایک آدمی بجلی کے کھمبے کے پاس چلتے چلتے گرا اور مر گیا۔ پھر پاکستان میں تو یہ خوف راسخ ہوگیا کہ لوگ سڑکوں پر مر بھی گئے۔ خوف کا کاروبار صرف ایک مرض کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ تازہ وبا تو دو دن میں عالمی وبا بنی تھی اس کے ذریعے تو دنیا پر کسی فوجی حملے کے بغیر حاکمیت کا تجربہ کیا گیا جو خاصا کامیاب رہا۔ جن بیماریوں سے خوفزدہ کیا جاتا ہے ایک خاص ترتیب سے ان کی باری آتی ہے۔ پولیو ڈینگی، نگلیریا، چھاتی کا سرطان، کانگو وائرس وغیرہ وغیرہ۔ کانگو وائرس عیدالاضحی کے موقع پر پھیلتا ہے۔ نگلیریا رمضان میں پھیلتا ہے تا کہ وضو کا پانی ناک میں نہ لیا جائے۔ یعنی وضو ہی نہ کیا جائے۔ کانگو وائرس کے خوف سے قربانی نہ کی جائے یا پرائیوٹائز کردی جائے۔ جتنی رقم ان بیماریوں سے آگہی نہیں یہ لفظ بالکل غلط ہے۔ آگہی کی جگہ ڈرانے کے لیے ہونا چاہیے۔
تو جتنی رقم ان بیماریوں سے خوفزدہ کرنے پر خرچ ہوتی ہے اگر اس سے بہت کم رقم دنیا کو صاف پانی کی فراہمی پر خرچ کردی جائے تو بیش تر بیماریاں خود ہی ختم ہوجائیں گی۔ اتفاق سے یہ ساری رپورٹیں بھی ڈبلیو ایچ او کی جاری کردہ ہیں کہ آلودہ پانی بیش تر وبائی امرض کا سبب ہے۔ اور ناقص غذائیں بھی۔ اور ان سب کو ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ یہ سارا کام عوام کو خوفزدہ کرکے کام نکالنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔ ایک کے بعد ایک بیماری، دہشت گردی، اصلی یا جعلی دہشت گرد تنظیم کا وجود اس کے بعد اسے استعمال کرکے پھینک دینا دوسری تنظیم کھڑی کردینا یہی کاروبار جاری ہے۔ دنیا خوف کی نفسیات سے نکلے تو کچھ نظر آئے گا۔
٭٭٭٭٭٭