دونوں بازو سے محروم شخص، کامیاب اسپورٹس کار ڈرائیور بن گیا

وارسا: ایک المناک حادثے میں دونوں بازو کھونے کے باوجود پولینڈ کے نوجوان نے ہمت نہ ہاری اور اب وہ اپنے پیروں سے کار دوڑاتے ہوئے پروفیشنل اسپورٹس کار ڈرائیور بن چکے ہیں۔

بارٹک اوستافوسکی سال 2006 میں اپنی موٹرسائیکل دوڑاتے ہوئے ایک المناک حادثے کے شکار ہوئے اور ان کے دونوں بازو کاٹنے پڑے۔ وہ اس سے پہلے ہی اسپورٹس کار ڈرائیور بننا چاہتے تھے لیکن اس حادثے سے انہیں شدید دھچکا پہنچایا۔ لیکن دھن کے پکے بارٹک نے اپنا خواب مرنے نہیں دیا۔

صرف 20 سال کی عمر میں دونوں بازوؤں سے محرومی کا صدمہ انہیں گھیرچکا تھا۔ لیکن انہوں نے کوشش کی کہ آیا وہ اپنے پیروں سے گاڑی دوڑاسکتے ہیں یا نہیں؟ اس میں وہ مسلسل تین سال تک لگے رہے اور ایک وقت ایسا آیا کہ وہ ٹانگوں سےکار چلانے کے ماہر ہوگئے۔ آج یہ حال ہے کہ پوری دنیا انہیں اسپورٹس کار ڈرائیور مانتی ہے اور وہ اپنے پیروں سے گاڑی دوڑانے والے دنیا کے پہلے پروفیشنل اسپورٹس ڈرائیور بھی ہیں۔

انہوں نے ٹانگوں کا ڈرائیور بننے کےلیے نسان اسکائی لائن جی ٹی ریس کار کو اپنے انداز سے بدلا۔ پہلے انجن میں تبدیلیاں کی گئیں۔ پھر الگ سے ایک گیئرباکس لگا کر اس میں ٹرانسمیشن کو مضبوط کیا گیا۔ اب وہ سیدھے پیر سے گاڑی کے پیڈل قابو کرتے ہیں اور الٹی ٹانگ سے اسٹیئرنگ گھماتےہے۔ خودکار گیئر کندھوں کی حرکت سے تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔

بارٹک نے کہا کہ ’المناک حادثے کے بعد میں اس کے حل کی تلاش میں تھا، میں نے خود سے پوچھا کہ دوبارہ کار چلانے کےلیے مجھے کیا کرنا ہوگا؟ مجھے پولینڈ میں دونوں بازوؤں سے محروم ایک شخص ملا جو بہت آرام سے کار چلاسکتا تھا اور یوں مجھے اس سے بہت ہمت ملی۔ پھر میں نے خود سے کہا کہ ایک دن میں بھی اسپورٹس کار چلاسکوں گا۔

لیکن انہوں نے کارریسنگ میں بھی ایک مشکل مقام کا انتخاب کیا جسے ڈرفٹ ریسنگ کہا جاتا ہے۔ اس میں فوری ردِ عمل اور آنکھ و ہاتھ کا تعلق استوار رکھنے پر مہارت درکار ہوتی ہے۔ پھر ٹریک میں تیزی سے مڑتے ہوئے کار کو لائن میں رکھنا سب سے مشکل کام ہوتا ہے جس پر بارٹک نے بہت محنت کی ہے۔

2019 میں انہوں نے پولینڈ کے ایک مقابلے میں حصہ لیا جس میں 50 ڈرائیور شریک ہوئے اور وہ نویں نمبر پر آئے۔ لیکن ایک سال پہلے انہوں نے چیک ڈرفٹ سیریز مقابلہ جیتا جس میں ماہر ترین پروفیشنل ڈرائیور شامل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں پولینڈ میں سپرہیرو کا درجہ دیا جارہا ہے۔