دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے پاکستان میں پیٹرول اب بھی سستا ہے، وفاقی وزیر خزانہ

وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ خطے اور دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے پاکستان میں پیٹرول کی قیمتیں کم ہیں اور صرف 16 ممالک ایسے ہیں جہاں پیٹرول اس سے بھی سستا ہے جو کہ خود تیل پیدا کرنے والے ممالک ہیں۔

اسلام آباد میں وزیر مملکت فرخ حبیب کے ہمراہ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صرف 16 ممالک ایسے ہیں جہاں پیٹرول کی قیمت ہم سے کم ہے اور وہ ممالک خود تیل پیدا کرتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ خطے کے دیگر ممالک مثلاً بھارت بنگلہ دیش کے مقابلے بھی پاکستان میں پیٹرول کی قیمتیں کم ہیں، ہماری قیمتیں خطے اور دنیا کے مقابلے کم ہیں، کیا ہم اس میں مزید کمی کرنا چاہتے ہیں؟ تو بالکل کرنا چاہتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ اگر حکومت قیمتیں کم کرنا چاہے تو ریونیو ضروریات پوری کرنے کے لیے اسے اپنی جیب سے پیسے دینے پڑیں گے اور پیٹرول لیوی جو 2018 میں 30 روپے فی لیٹر تھی وہ کم ہو کر 2 سے ڈھائی روپے تک آگئی ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت نے بجٹ میں پیٹرولیم لیوی کی مد میں 600 ارب روپے اکٹھے کرنے کا رکھا ہے اس کے باوجود ہم لیوی نہیں رکھ رہے، وزیراعظم نے اس کی پرواہ نہیں کی اور کہا کہ عوام پر مزید بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔

انہوں نے ایک مرتبہ پھر دہرایا کہ پاکستان کی معیشت ترقی کرنا شروع ہوگئی ہے جس کے اثرات ریونیو پر آرہے ہیں، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے اس وقت 3 ماہ کے عرصے میں اپنے ہدف سے 185-190 ارب روپے زیادہ اکٹھا کیے ہیں۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ پہلے کبھی بھی نہیں ہوا تھا کہ ایف بی آر اپنے ہدف سے آگے ہو لیکن اس وقت گزشتہ سال کے مقابلے ہم 38 سے 40 فیصد آگے ہیں، اگر ریونیو آرہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ معیشت ترقی کررہی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ معیشت کی نمو کا فائدہ نچلے طبقے تک پہنچے گا لیکن اس میں وقت لگے گا اس لیے وزیراعظم کی ہدایت پر ہم کامیاب پاکستان کا پروگرام شروع کرنے والے ہیں جس میں تھوڑی تاخیر ہوگئی۔

انہوں نے بتایا کہ اس پروگرام کے تحت 40 سے 60 لاکھ زرعی خاندانوں کو ہر فصل کے لیے ڈیڑھ لاکھ روپے دیے جائیں گے اور ہر سال 2 لاکھ روپے انہیں آلات مثلاً ٹریکٹر، تھریشر وغیرہ کے لیے دیے جائیں گے اور شہری گھرانوں کو 5 لاکھ روپے کاروبار کے لیے دیے جائیں جو بلا سود ہے۔

شوکت ترین نے کہا کہ عام طور پر کہا جارہا ہے کہ قیمتیں بڑھ گئی ہیں، مہنگائی ہوگئی ہے، حالانکہ کورونا وائرس بحران کی وجہ سے دنیا بھر میں قیمتوں پر اثر پڑا ہے، امریکا میں جہاں ایک سے ڈیڑھ فیصد مہنگائی ہوتی تھی اب ساڑھے 8 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس بحران نے ہمیں بھی متاثر کیا ہے بین الاقوامی سطح پر قیمتیں گزشتہ 10 سے 12 سال کی بلند ترین سطح پر موجود ہیں جس کا ہم پر اس لیے اثر پڑا ہے کہ ہم اشیائے خورو نوش درآمد کرنے کا والا ملک بن گئے۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہم خوراک درآمد کرنے والا ملک 3 سال میں نہیں بنے بلکہ شعبہ زراعت میں 30 برس کی کوتاہیاں ہیں جس کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں لیکن موجودہ حکومت اس کا سدِ باب چاہتی ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ اس مقصد کے لیے حکومت پیداوار بڑھانے کے لیے زراعت میں پیسہ لگا رہی ہے تا کہ مقامی سطح پر پیدا ہونے والی اشیا استعمال کرسکیں اور دیگر ممالک کو پیسے دینے کے بجائے اپنے کاشت کاروں کو دیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پورے ملک کے عوام کو ریلیف دینے کے لیے روز مرہ استعمال کی اشیا مثلاً گندم اور چینی کی قیمتوں کو قابو کرنے کی کوشش کررہے ہیں جبکہ گھی کے لیے پام آئل کی درآمد پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ دے دی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک کروڑ 20 لاکھ غریب ترین گھرانوں کو اکتوبر سے اشیائے خورونوش پر براہ راست سبسڈی دی جائے گی۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمارا مڈل مین یا آڑھتی بہت منافع کماتا ہے، ضلعی انتظامیہ میں خامیاں ہیں، پہلے پرائس مجیسٹریٹ ہوتے تھے جو اب نہیں ہیں تو لوگ من مانی قیمت لیتے ہیں اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ دوبارہ پرائس مجسٹریٹ مقرر کیے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ کاشت کار سے لے کر ہول سیلر تک کی قیمتوں میں 4 سے 500 فیصد کا منافع ہے جو نہیں ہونا چاہیے۔