آزاد کشمیر کا میزانیہ ۔۔ فاروق حیدر کا جارحانہ انداز ۔۔ پی ٹی آئی کا منشور۔۔۔

سچ تو یہ ہے،

بشیر سدوزئی ۔

2021ء مالی سال ختم ہونے سے ایک دن قبل مسلم لیگ ن نے آیندہ مالی سال 2021_22 کا میزانیہ منظور کر کے آزاد کشمیر کو مالی بحران سے بچا لیا ۔ اس سے قبل 16 جون کو اسمبلی کا بلایا گیا بجٹ اجلاس اس وجہ سے ملتوی کر دیا گیا تھا کہ وفاقی حکومت نے 5 ارب روپے وزیر امور کشمیر کی صوابدید کے لیے رکھے ہیں جو غیر قانونی ہیں ۔خدشہ ہے کہ یہ رقم پی ٹی آئی کی انتخابی مہم کے دوران استعمال کی جائے گی۔ رقم آزاد کشمیر کے میزانیہ میں مختص کئے بغیر ریاست کا بجٹ منظور نہیں کیا جا سکتا ۔ 29 جون کے اسمبلی اجلاس میں مسلم لیگ ن نے آخری بجٹ پیش کیا اور بغیر بحث کے منظور بھی کر لیا۔ وزیر خزانہ ڈاکٹر نجیب نقی نے 1کھرب 41 ارب 40 کروڑ روپے کے بجٹ کو عوام دوست تاریخی ٹیکس فری بجٹ قرار دیا ۔ ترقیاتی اخراجات کے لئے 28 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں % 14 زیادہ ہیں ۔ مالی سال،2020-21ء کے میزانیہ کا حجم 1کھرب 39 ارب 50 کروڑ روپے جب کہ ترقیاتی منصوبوں کے لیے 24 ارب 50 کروڑ روپے مختص کئے گئے تھے ۔20-2019 ء میں 1 کھرب 21 ارب روپے اور ترقیاتی مد میں لگ بھگ 21 ارب روپے رکھے گئے تھے۔ مالی سال 19-2018 کے لیے قانون ساز اسمبلی کی جانب سے متفقہ طور پر منظور کئے جانے والے بجٹ کا کل حجم ایک کھرب 8 ارب روپے تھا جن میں سے ترقیاتی بجٹ 25 ارب 50 کروڑ روپے مختص کیا گیا ۔ اسی سال نواز شریف کی ہدایت پر وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے آزاد کشمیر کے عوام کے پرانے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے کشمیر کونسل کے اختیارات آزاد کشمیر اسمبلی کو منتقل کئے جس سے آزاد کشمیر حکومت کے وسائل میں اچانک کئی گناہ اضافہ اور بجٹ کا حجم ایک کھرب روپے سے زائد  ہوا۔ مالی سال2017-18ءکے لیے 94 ارب 41 کروڑ روپے کے میزانیہ میں ترقیاتی میزانیہ کے لیے 22 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی۔ مجموعی طور پر مسلم لیگ ن کی حکومت نے پانچ سال کے دوران کل چار کھرب 62 ارب 90 کروڑ روپے استعمال کئے جن میں سے برائے راست ترقیاتی منصوبوں پر 93 ارب روپے خرچ کئے گئے ۔ جب کہ بیرونی امداد اور وفاقی حکومت کے منصوبے اس سے الگ ہیں۔ مسلم لیگ ن کی واحد حکومت ہے جس کو عوام کی خدمت اور سماجی ترقی کے لیے وسیع موقع اور کثیر سرمایہ دستیاب ہوا ۔ گو کہ مرکز میں دو سال بعد عمران خان کی حکومت آ گئی تھی۔ ممکن ہے اس نے خاطر خواہ سرپرستی نہ کی ہو، لیکن کشمیر کونسل کے اختیارات ملنے کے بعد ریاست کے وسائل اتنے کافی تھے کہ دیانت داری کے ساتھ استعمال کر کے سماجی ترقی خاص طور پر صحت، تعلیم اور ذرائع نقل و حمل کو بہتر کیا جا سکتا تھا۔ لیکن آج بھی بڑے شہر، پانی سیوریج، صفائی سمیت مضافاتی علاقوں کی سڑکیں خستہ حال ہیں اور ادارے معیار پر نہیں ۔ راجہ فاروق حیدر خان پانچ سالہ کارکردگی کے ساتھ دوبارہ اپنی ٹیم کے ہمراہ عوام کے پاس آیا ہے اور عوام ہی بہتر جج ہیں ۔ 25 جولائی کو عوام فیصلہ کریں گے کہ مسلم لیگ ن کی کارکردگی ایسی ہے کہ آئندہ بھی اقتتدار اسی کے حوالے کیا جائے ۔عمران خان اور جماعت چھوڑنے والوں پر راجہ صاحب شدید برم اور جارحانہ سیاسی رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ بجٹ سیشن کے موقع پر اس وقت ایوان میں قہقہے بلند اور دلچسپ صورت حال پیدا ہو گئی جب انہوں نے احمد رضا قادری کو کہا کہ پانچ سال کے دوران انتقال کرنے والوں اور مسلم لیگ ن چھوڑنے والوں کی بخشش کی دعا کی جائے۔۔۔ واضح رہے کہ پانچ سال تک وزیراعظم کے دائیں بائیں رہنے والے پیر علی رضا بخاری۔ چوہدری شہزاد ۔ سردار میر اکبر و دیگر مسلم لیگی رہنماء انتخابات کا اعلان ہوتے ہی پارٹی چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہوئے ہیں ۔ جس سے مسلم لیگ ن کو بڑا جھٹکا لگا۔ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران صدر مسلم لیگ ن نے عمران خان کی ذات کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں کشمیری شہیدوں کا خون بھولنے کا کہا جا رہا ہے لیکن ہم ان کو کبھی نہیں بھولیں گے ۔ عمران خان نے وزیر اعظم پاکستان کی کرسی کو متنازعہ بنا دیا۔ راجہ صاحب نے پہلی مرتبہ زبان کھولی کہ 5/اگست کا واقعہ مودی اور عمران خان کے صلاع مشورہ سے رونما ہوا ۔ بھارتی پارلیمنٹ میں کشمیر کی نیم خود مختار کے خاتمے کے فوری بعد گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کا اعلان دونوں جانب سے ایک جیسا اقدام ہے۔ ہم گلگت بلتستان کی طرح آزاد کشمیر فتح نہیں ہونے دیں گے ۔ آزاد جموں و کشمیر سے لفظ آزاد نکالنے کے لیے کہا گیا ۔اس لفظ کا وسیع مفہوم ہے ۔ یہ لفظ ختم ہونے سے آزادی کا مقدمہ ختم ہو جائے گا ۔ فاروق حیدر خان نے کہا کہ ہم آزاد کشمیر کو کسی صورت صوبہ نہیں بننے دیں گے ۔ عمران خان کا خیال ہے کہ گلگت بلتستان کی طرح آزاد کشمیر کی اسمبلی سے بھی کوئی قرار داد منظور کرا کر کشمیر کی تقسیم کی راہ ہموار کی جائے گی لیکن یاد رہنا چاہیے کہ 1953میں اقوام متحدہ مقبوضہ کشمیر اسمبلی کی قرار داد کو مسترد کر چکی جس نے بھارت کے ساتھ الحاق کی قرار داد منظور کی تھی” ۔ صرف وزیراعظم آزاد کشمیر ہی نہیں پاکستان کی اپوزیشن جماعتیں بھی عمران خان کی حکومت پر الزامات لگاتی ہیں کہ اس نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کے ساتھ سودے بازی کی ہے ۔ بلاشبہ عمران خان کے رفقاء کو آزاد کشمیر کے ایکٹ 74 کی تیرویں ترمیم ہاضم نہیں ہوتی جو غیر جمہوری رویہ ہے ۔وزراء نے چودھویں ترمیم کے لیے فاروق حیدر خان پر شدید دباو ڈالا کہ کشمیر کونسل کے اختیارات واپس کئے جائیں وہ آزاد کشمیر حکومت کو بائی پاس کر کے عوام پر حکومت کرنا چاتے ہیں ۔ لیکن فاروق حیدر خان نے دباو کو برداشت اور ریاست کے جائز حق کا تحفظ جاری رکھا۔ ان کی یہ کوشش اور اقدام قابل تعریف ہے ۔ جہاں تک آزاد کشمیر کو صوبہ بنانے کے اشارے ہیں اس کے اشارے پی ٹی آئی کے اس کتابچہ میں بھی ملتے ہیں جو انتخابی منشور کے طور پر جاری کیا گیا ہے اس کی تفصیل آئندہ کالم میں ملاحظہ فرمائیں ۔