آزاد کشمیر میں چائنہ کٹنگ کس کے کہنے پر ہوئی ؟

سچ تو یہ ہے،

بشیر سدوزئی

آزاد کشمیر کابینہ نے آخری اجلاس میں ایسی تمام قطعہ آراضی کی آلائیٹ منٹ منسوخ کر دی، جو اسٹیٹ سبجکٹ 35۔اے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نان اسٹیٹ سبجکٹ کو آلائٹ کی گئی تھی ۔ گو کہ یہ آلائٹ منٹ اسی حکومت کے دور اقتدار میں ہوئی لیکن کابینہ نے بروقت فیصلہ کر کے آنے والوں کا راستہ بند کر دیا جو کشمیر کی خوبصورت زمین پر چائنہ کٹنگ کر چکے تھے ۔ یہ غیر قانونی اور ایسا قومی جرم تھا جس کی سزا شاید زمین آلائٹ کرنے والوں کو نہیں، لیکن کشمیریوں کی نسلںوں کو ضرور ملتی۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ان آلائٹ منٹ کو ہوئے کئی سال گزر گئے لیکن کسی شہری، سول سوسائٹی یا صحافی نے اس پر احتجاج نہیں کیا ۔آزاد کشمیر کے نوجوان عارضی ملازمین کی مستقلی اور حساس اداروں کی نقل و حمل پر تو فوری احتجاج کرتے ہیں لیکن اس اہم قومی ایشو پر خاموش رہے ۔جو خود ایک مجرمانہ غفلت اور قومی امور میں عدم دلچسپی کی جیتی جاگتی مثال ہے ۔ خدانخواستہ حکومت مبینہ طور پر جس نے نواز شریف کے دور میں آلائٹ اور عمران کے دور میں منسوخ کیا، ایسا نہ کرتی تو آزاد کشمیر میں بھی 35 اے عملا محطل ہو جاتا۔۔آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور مقبوضہ کشمیر میں اب صرف اسٹیٹ سبجکٹ کا ہی فرق رہ گیا ہے ۔اس قانون کی موجودگی سے ہی ریاستی جھنڈا مظفرآباد میں لہرا رہا ہے ۔چشم عالم نے دیکھا کہ 5 اگست 2019 کو بھارت نے اسٹیٹ سبجکٹ یعنی 35 اے ختم کیا تو دوسرے روز لال کپڑے پر بنا سفید ہل والا جھنڈا سری نگر کے ایوان سے غائب ہو گیا۔ گلگت بلتستان میں یہ قانون غیر علانیہ ختم کر دیا گیا۔ آزاد کشمیر میں چوں کہ اقتدار اعلی کشمیریوں کے پاس ہی رہا وہ الیکٹڈ ہوا ہو یا سلیکٹڈ، ہر ایک نے اپنی بساط کے مطابق اپنے کلچر اور قانون کا تحفظ کرنے کی کوشش کی۔ کابینہ کا فیصلہ بھی اسی کوشش کا حصہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ آلائٹ منٹ ہوئی کیوں کر ۔۔۔۔ قانون کے تقاضے پورے ہوئے یا گلگت کے طریقہ کار کو یہاں راج کرنے کی کوشش کی گئی ۔ کابینہ یا حکومت کے ترجمان نے اس کی کوئی وضاحت نہیں کی کہ خلاف قانون کام ہوا کیسے۔ آلائٹ منٹ کرنے والے افسران کے خلاف کیا کارروائی ہوئی۔ قانون میں جہاں کشمیر کی زمین ڈومیسائل اور شہریت دینے کا طریقہ کار طہ کیا گیا ہے وہاں خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے سزاء کا بھی تعین ہے۔ جو افراد غیر منقولہ نجی یا سرکاری املاک کے غیر قانونی قبضے یا خرید و فروخت میں ملوث پائے گئے انہیں 10 سال قید اور جرمانے کی سزاء ہو گی ۔اسٹیٹ سبجکٹ ہماری ریاست کی تاریخ اور کلچر کا خوب صورت باب ہے ۔ ڈوگرہ حکمران کو یہ خدشہ ہوا کہ خوش حال ریاست میں باہر سے آنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ حقیقی ریاستی باشندے اقلیت میں تبدیل ہو جائیں گے ۔ چناں چہ 20 اپریل 1927ء کو قانونی دستاویز نمبر 44َ نمبر I-L/84 نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جس کی عبارت درجہ ذیل ہے ” سٹیٹ سبجیکٹ کی ہس ہائنس مہاراجہ بہادر ( وائس پرائیویٹ سکریٹری چھٹی نمبری 2354 مورخہ 31 جنوری 1927 محکمہ مال ممبر کونسل) عوام الناس پر اطلاق کی منظوری دیتا ہے "۔ 1935ءمیں پونچھ پر قبضے کے بعد”سٹیٹ سبجیکٹ کی تعریف ریاست پونچھ کےلئے نوٹیفکیشن“ کے عنوان سے ایک دوسرے نوٹیفکیشن کے ذریعے نافذ کیا گیا۔ اپنی نوعیت میں یہ دنیا کا منفرد قانون ہے جہاں ریاست کے ہر شہری کو درجہ بندیوں میں تقسیم کر کے اس کےحقوق کو محفوظ کیا گیا۔۔۔(1) شہری درجہ اول۔۔ نوٹیفکیشن کے مطابق ایسے تمام افراد جو مہاراجہ گلاب سنگھ کے دور حکومت کے آغاز سے قبل جموں کشمیر میں پیدا ہوئے یا رہائش پذیر تھے اور ایسے تمام افراد جو ”بکرمی “یا” سموت“ کلینڈر کے مطابق1942 سے قبل جموں کشمیر میں آباد ہوئے اور مستقل سکونت اختیار کئے ہوئے ہیں، درجہ اول کے شہری کہلائیں گے۔ ”بکرمی“ یا ”سموت“ ہندی کلینڈر عالمی طور پر رائج عیسوی کلینڈر سے 57 سال پہلے کا ہے۔ بکرمی یا سموت کلینڈر کے مطابق 1942کا مطلب 1885ء سمجھا جائے۔(2) شہری درجہ دوم۔۔۔۔ ایسے افراد جو بکرمی یا سموت سال 1942 سے 1968 (1885ءسے 1911ء) کے دوران ریاست میں آباد ہوئے اور غیر منقولہ جائیداد خرید کر مستقل رہائش اختیار کی وہ باشندہ ریاست درجہ دوم کہلائیں گے۔ (3) شہری درجہ سوئم۔۔۔۔درجہ اول اور دوم کے علاوہ مستقل رہائش پذیر تمام افراد جنہوں نے رعیت نامہ یا اجازت نامہ کے ذریعے غیر منقولہ جائیداد خریدی، وہ دس سال کی مستقل رہائش کے بعد باشندہ ریاست درجہ سوم کہلائیں گے۔(4) شہری درجہ چہارم۔۔۔۔۔۔ ریاست میں رجسٹر ہونے والی ایسی کمپنیاں جن سے ریاستی حکومت کے مالیاتی مفادات وابستہ ہوں یا حکومت کے مالی فائدے کا باعث بن سکیں یا جن کمپنیوں کے مالیاتی استحکام سے حکومت مطمئن ہو، ایسی کمپنیوں مہاراجہ ریاست خصوصی حکم کے تحت باشندہ ریاست درجہ چہارم قرار دے سکیں گے۔شہریوں کو درجات میں تقسیم کرنے کے فائدے و نقصانات کی وضاحت اسی نوٹیفکیشن کے اختتامی حصہ میں چار خصوصی نوٹ کے ذریعے کی گئی۔(1) ریاست کی اسکالر شب اور زرعی زمین یا تعمیراتی مکانات کے مقاصد ، اور ریاستی ملازمت میں سٹیٹ سبجیکٹ درجہ اول کو درجہ دوم اور سوم پرترجیح حاصل ہوگی۔(2) سٹیٹ سبجیکٹ کے تمام درجات کے حامل افراد کی اولاد بھی متعلقہ درجہ بندی کے لحاظ سے ریاستی باشندہ ہوں گے۔ مثلا اگر الف سٹیٹ سبجیکٹ درجہ دوم ہو تو اس کی پوتے پڑ پوتے بھی درجہ دوم سٹیٹ سبجیکٹ کا حامل ہوگا۔ وہ درجہ اول نہیں ہو سکتا۔(3)بیوہ یا بیوی کو سٹیٹ سبجیکٹ کا وہی درجہ ملے گا جو اس کی شوہر کو حاصل ہوگا ، اگر وہ ریاست کے اندر لمبے عرصے کے لئے رہے اور ریاست نہ چھوڑے۔(4) سٹیٹ سبجیکٹ کی انٹر پری ٹیشن اور حوالہ نوٹیفیکیشن میں دی گئی تعریف اور قانون کے مطابق عمل در آمد ہوگی۔نئی شہریت حاصل کرنے والوں کے لیے قانون میں گنجائش رکھی گئی کہ کوئی بھی شخص دس سال تک مستقل رہائش اختیار کرنے کے بعد باشندہ ریاست سرٹیفکیٹ درجہ سوم حاصل کر سکتا ہے۔ تاہم اسے دس سال کے دوران تمام ریاستی قوانین کی پاسداری کرنا ہوگی۔ اجازت نامہ حاصل کرنے کے چھ ماہ کے اندر اندر اسے رہائشی جائیداد خریدنا ہوگا۔ورنہ اجازت نامہ زائد المعیاد ہو جائے گا، جس کی تجدید کروانی پڑے گی۔
اجازت نامہ کے حصول اور رہائشی جائیداد خریدنے کے دس سال بعد اسے ہر صورت میں باشندہ ریاست سرٹیفکیٹ حاصل کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر اسکی رہائشی جائیداد ریاست کی ملکیت میں چلی جائیگی۔ اگر دس سال کے دوران وہ باشندہ ریاست سرٹیفکیٹ حاصل نہ کر سکا تو جائیداد کی فروخت کےلئے اسے چھ ماہ کی مہلت مل سکتی ہے۔1947ء تقسیم کشمیر کے بعد تینوں حصوں میں یہ قانون نافذ رہا۔ جعلی باشندہ ریاست سرٹیفکیٹ جاری ہونے کی تحقیقات اور تنسیخ کےلئے ”آزاد جموں و کشمیر جعلی باشندہ ریاست سرٹیفکیٹ تنسیخ ایکٹ1971ءجاری کیا گیا تھا۔ لیکن 25جون 1980ءکو آزاد کشمیر میں باشندہ ریاست کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے کے لئے ڈوگرہ ایکٹ کو ہی من و عن نافذ اور رولز بنائے گئے تو 1971 کا ایکٹ ختم ہو گیا۔1980 کے ایکٹ میں کشمیرکونسل کو اختیار دیا گیا کہ وہ اس ایکٹ کی روشنی میں قانون سازی کر سکتی ہے۔ غیر قانونی طریقے سے یا جعل سازی کر کے حاصل کئے جانے والے باشندہ ریاست سرٹیفکیٹ یا ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کی تحقیقات اور انکوائری کا طریقہ کار وضع کیا گیا اور غیر قانونی طور پر سرٹیفکیٹ حاصل کرنے والے افراد کےلئے سزائیں تجویز کی گئیں۔ آزاد جموں کشمیر میں "سٹیٹ سبجیکٹ سرٹیفکیٹ” نافذ ہونے کے بعد غیر ریاستی خاتون ریاستی شہری سے شادی کرنے کی صورت میں درجہ اول کی شہری بن سکتی ہے لیکن کوئی بھی غیر ریاستی مرد کسی بھی صورت درجہ اول کا شہری نہیں ہو سکتا۔
البتہ ریاستی خاتون اگر کسی غیر ریاستی شخص سے شادی کرتی ہے تو اسے اس ریاست کی شہریت بچانے کےلئے اسی ریاست میں رہنا پڑے گا۔ اگر وہ بیرون ریاست منتقل ہوتی ہے تو پھر وہ شہریت کا حق کھو دے گی۔ اور محض وراثتی جائیداد کی حقدار ٹھہرے گی۔ تاہم وراثتی جائیداد کو اپنی اولاد کو منتقل نہیں کر سکے گی بلکہ اسے فروخت کرنے کا اختیار حاصل ہوگا جو ریاستی باشندہ ہی خرید سکتا ہے ۔ اگرریاستی خاتون کسی غیر ریاستی شخص کے ساتھ شادی کرنے کے بعد ریاست ہی میں رہائش اختیار کرتی ہے تو اس کے خاوند کو تیسرے درجے کا شہری بننے کےلئے ایک طویل راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔ جو قانون کی موجودگی کے باوجود تقریباً ناممکن ہے۔ ایسی صورت میں اس خاتون کی اولاد بھی اس کے خاوند کی طرح تیسرے درجے کی شہریت کی ہی حامل رہے گی۔
غیر ریاستی خاتون بھی شوہر کے انتقال کے بعد اگر ریاست سے مستقل سکونت ترک کرتی ہے تو اسکی شہریت ختم ہو جائیگی۔ البتہ اگر وہ مستقل سکونت ترک نہیں کرتی تو وہ باشندہ ریاست اسی درجہ پر رہے گی جس درجہ پر اسکا خاوند باشندہ ریاست تھا۔رولز کے مطابق ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ باشندہ ریاست سرٹیفکیٹ جاری کرے گا۔ درخواست گزار کو، درخواست متعلقہ دستاویزات کے ساتھ مجسٹریٹ کے پاس پیش کرنا ہوں گی۔وہ تمام دستاویزات کی تصدیق کے بعد درخواست ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو ارسال کرے گا۔ جو باشندہ ریاست سرٹیفکیٹ جاری کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے ۔ درخواست مسترد ہونے کی صورت میں تیس ایام کے اندر حکومت کو اپیل کی جاسکتی ہے۔ ریاستی زمین کی خریدوفروخت اور شہریت کے لیے اتنے سخت قوانین کی موجودگی میں راولاکوٹ اور مظفر آباد میں قطعہ آراضی کا آلائٹ منٹ ہونا دیدا دلیری کی انتہاء ہے ۔ایسا کرنے والوں کو سخت سزائیں نہ دی گئیں تو آزاد کشمیر کو کراچی بننے سے کوئی نہیں روک سکتا جہاں جس کی مرضی جس جگہ پر قبضہ کر لے یا جو جتنا طاقتور ہے اتنا بڑا قطعہ آراضی قبضہ کرے۔ آلائٹ منٹ تو منٹوں میں ہو جاتی ہے ۔وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان اگر اس میگا کریپشن میں خود ملوث نہیں ہے تو فوری طور پر ایسے افسران کے خلاف سخت کارروائی کریں اور اس کی تشہیر بھی تاکہ آئندہ کسی کو ہمت نہ ہو ایسا کرنے کی ۔۔۔