مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے نئی حکمت عملی ہے، یا وقت گزاری؟۔

سچ تو یہ ہے۔

بشیر سدوزئی ۔

گزشتہ دنوں خبر وائرل ہوئی کہ بین الاقوامی دباؤ کے باعث دونوں ممالک تقسیم کشمیر پر متفق ہو چکے ۔ عارضی سرحد کو مستقل کرنے کے بعد پاکستان آزاد کشمیر کے مسئلے کو بھی حل کرئے گا ۔ اس کے لئے دو آپشن پر غور ہو رہا ہے اول یہ کہ اس کو ساتواں صوبہ قرار دیا جائے یا سری نگر کے حصہ کو کے پی کے اور جموں کو پہنجاب میں ضم کر دیا جائے۔ مولانا فضل الرحمن تو اپنی تقریروں میں کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ عمران خان نے کشمیر کا سودا کر لیا۔حالاں کہ مولانا صاحب نے تو خود چودہ سال میں 6 کروڑ سالانہ خرچ کرنے کے علاوہ کشمیر کی آزادی کے لیے کچھ نہیں کیا۔ جب صحافی نے سوال کیا تو سیخ پا ہو گئے کہ میں بندوق لے کر کشمیر پر چڑھائی کر لوں۔ تقسیم کشمیر کی خبر پر مجھے تو بہت تشویش ہوئی ۔ بے شک ہمارے اجداد نے اسی مقصد کے لئے قربانیاں دی تھی کہ ہم پاکستان میں شامل ہوں ۔ اگر 74 سال انتظار گیا تو وہ وادی کے عوام کے انتظار میں کہ وہ آئیں اور ہم ایک ساتھ پاکستان کی سرحد کے اندر داخل ہوں ۔ اگر ہمیں اکیلے ہی پاکستان میں شامل ہونا ہوتا تو 24 اکتوبر 1947 کو ہی کر چکے ہوتے ۔ جب ڈوگرہ کو معطل کیا تھا۔ آج اسٹیج پر یہ فیصلہ وادی کے ان بچوں کی قربانیوں کو ضائع کرنا ہو گا جنہوں نے پاکستان کے نام پر کھیل کود کی عمر میں ہی طاقت ور فوج سے ٹکرا کر خود کو امر کر دیا۔ میں نے ذاتی طور پر مطمعن ہوں کہ افواج پاکستان اس فیصلے کو نہ صرف تسلیم نہیں کرے گی۔ ہم کشمیری پاک فوج کو ہی اپنا مسیحاع سمجھتے ہیں اور یہ بھی ایمان ہے کہ پاکستان آرمی ہی ہماری آزادی کی نگران اور پشت بان ہے ۔ تاہم 5 فروری کو کوٹلی میں وزیراعظم عمران خان نے حکومت پاکستان کے چیف ایگزیکٹو کی حثیت سے نئی بات کہہ کر نئی بحث کا آغاز کیا کہ کشمیریوں کو خود مختاری کا آپشن بھی دیا جائے گا ۔ یہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے نئی حکمت عملی ہے یا وقت گزاری یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔لیکن پہلا موقع ہے کہ پاکستان کے کسی ذمہ دار فرد نے مسئلہ کشمیر کے حل کے تیسرے آپشن کو بھی تسلیم کیا ۔ فی زمانہ مسئلہ کے حل کا اس سے بہتر آپشن نہیں ہو سکتا ۔ اگر خان صاحب کا یہ بیان مملکت کی پالیسی بیان ہے تو یہ بھارت کے لیے موت کا سبب بنے گا ۔ اگر کشمیر خود مختار ہو بھی جاتا ہے تب بھی وہ پاکستان ہی رہے گا کشمیریوں کو پاکستان سے کوئی جدا نہیں کر سکتا ۔ اس لیے کہ جموں سے سالکوٹ 30 کلومیٹر اور دلی 15 سو کلو میٹر سے زیادہ ہے ۔ سری نگر سے دلی 17 سو کلو میٹر اور اسلام آباد دو ڈھائی سو کلو میٹر ہے۔ جموں کشمیر کی ہواوں اور پانیوں کا رخ بھی پاکستان کی طرف ہے ۔ یہ تو جغرافیائی صورت ہے دلوں میں تو کوئی فاصلہ ہی نہیں، جو قوم 10 لاکھ فوج کے سامنے کہہ رہی ہو کہ ہم ہیں پاکستانی، پاکستان ہمارا ہے، اس کو پاکستان سے کون جدا کر سکتا ہے ۔ لیکن سیاسی حکمت عملی کے طور پر اگر بھارت کو جموں و کشمیر سے نکالنے کے لیے کوئی بھی تدبیر کام آسکتی ہے تو اس کو استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ کشمیر بھارت کے قبضے میں رہنے کے بجائے اگر خود مختار ریاست کے طور پر بھی رہتی ہے تو ہر لحاظ سے پاکستان کے فائدے میں ہی ہے۔ وزیراعظم پاکستان کے اعلان کے بعد مقبوضہ اور آزاد کشمیر میں یکساں طور پر ایسے اقدامات ہوئے ہیں تقسیم کشمیر کی افواہوں سے بالکل متضاد ہیں۔ سری نگر میں دو الگ سوچ کے حامل رہنماوں مقبول بٹ اور افضل گورو کی 9، اور 11 فروری کو یوم شہادت پر نہ صرف مکمل ہڑتال ہوئی بلکہ حریت پسندوں نے رنگین پوسٹر سے دیواریں بھر لیں ۔ دونوں رہنمائوں کی تصویروں کے درمیان میں صدر پاکستان عارف علوی اور 5 فروری کو آزاد کشمیر اسمبلی میں ان کے خطاب سے اقتباس پر مبنی پوسٹر کے ذریعے کشمیری عوام سے اپیل کی گئی تھی کہ دونوں رہنمائوں کی شہادت کے روز مکمل ہڑتال کی جائے۔ چناں چہ ایسا ہی ہوا۔ہڑتال کی اپیل آل پارٹیز حریت کانفرنس اور لبریشن فرنٹ نے مشترکہ طور پر دی تھی جب کہ دیگر تنظیموں نے اس کی حمایت کی ۔ یہ پہلا موقع ہے کہ قوم پرست جماعتوں اور الحاق پاکستان کی بات کرنے والے مشترکہ دشمن کے خلاف ایک پلیٹ فارم پر یکجا ہوئے اور ایک دوسرے کی قربانیوں کو تسلیم کیا۔ مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں کی سوچ میں واضح تبدیلی اور باہمی نظریاتی اختلافات کم ہوتے محسوس ہو رہے ہیں ۔ آزاد کشمیر حکومت نے 11 فروری یوم شہادت مقبول بٹ کی برسی کے موقع پر مکمل تعطیل کا اعلان کر کے دنیا کو اور خصوصا بھارت کو یہ پیغام دیا ہے کہ مقبول بٹ اگر چہ ریاست کی خود مختاری کی بات کرتا تھا لیکن پاکستان اس کی اس جدوجہد کی قدر اور اس کی سوچ کی حمایت کرتا ہے۔ مقبول بٹ کی برسی کے موقع پر آزاد کشمیر میں پہلی مرتبہ سرکاری تعطیل کا اعلان ہوا۔ جب اتنا سب کچھ ہو رہا ہے تو آزاد کشمیر کے انتخابات میں امیدواروں سے انتخابات میں شامل ہونے کے لئے وفاداری کا حلف کی دستاویزات پر دستخط کی شرط مسئلہ کشمیر کے تناسب میں مناسب نہیں لگتی ۔ قوم پرستوں کو اخلاقیات کے اندر وہ سہولت دینا چاہیے کہ ان کو ہائبرڈ جنگ میں شامل ہونے اور پاکستان کے خلاف کسی نوعیت کے منفی پروپیگنڈہ کا موقع ہی نہ ملے مکمل آزاد اور غیر جانبدار انتخابات کی صورت میں بھی آرپار قوم پرست کسی بھی حلقے سے ایک ہزار ووٹ نہیں لے سکتے ۔ اس لیے کہ اپنے نظریے کی ناکامی کے لیے وہ خود ہی کافی ہیں۔ لہذا پالسی سازوں کو تقسیم کے بجائے اس آپشن کو آزامائیں تو یہ کشمیریوں اور پاکستان کے لیے بہتر ہے۔