نئے آئی جی اسلام آباد کیلئے چیلنجز

.حجاب خان

گزشتہ روز آئی جی اسلام آباد عامرذوالفقار کو تبدیل کرکے ان کی جگہ ڈی آئی جی ہزارہ قاضی جمیل الرحمن کو نیا آئی جی لگایا گیا۔تبادلے سے ایک روز قبل ہی پولیس کے ہاتھوں شہید ہونے والے اسامہ ستی کے لواحقین اور اسلام آباد کے تاجر رہنماوں نے آئی جی سے ملاقات کی۔اس ملاقات میں راقم بھی شریک تھا ۔ملاقات میں تاجر رہنما اجمل بلوچ،کاشف چوہدری ،خالد چوہدری، محبوب خان سمیت اسلام آباد کے تمام تاجر رہنماشریک ہوئے۔ڈی آئی جی وقار الدین سید، ایس پی سرفراز ورک ، ڈی ایس پی خالد اعوان اور بہت سے دوسرے اعلی افسران نے شرکت کی اور آئی جی کی معاونت کی۔ اجلاس میں شہید اسامہ کے لواحقین نے پولیس تفتیش پر عدم اعتماد کا اظہار کیا لیکن آئی جی صاحب ان کو ” میٹھی میٹھی“گولیاں دیتے رہے۔بظاہر تو وہ یہی کہتے رہے کہ ملزمان گرفتار ہیں ،قانون کے مطابق کارروائی ہوگی کوئی سزا سے نہیں بچ سکے گا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ایک بات سب نے نوٹ کی کہ آئی جی صاحب اپنے فورس کا دفاع ہی کرتے رہے کہ اہلکار کرے تو کیا کرے گولی نہ مارے تو آگے سے گولیاں لگ جاتی ہیں جیسے ترنول میں ہوا ۔سردی گرمی بارش میں اہلکار ڈیوٹیاں دیتے ہیں ۔ جو بھی کوئی بات کرتا آگے سے آئی جی صاحب فرماتے کہ تفتیش میں سب کچھ سامنے آجائے گا۔لواحقین میڈیا سے دور رہیں ۔میں عوام.کا آئی جی ہوں۔میرے ہاس براہ راست آئیں ۔سب کچھ میڈیا کا کیا دھرا ہے۔تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ وفاقی دارالحکومت میں پہلا واقعہ ہے اور اگر میڈیا پر کیس نہ اچھلتا تو کیا اس کیس کی اعلی سطح پر انکوائری ہوتی ۔اس سے قبل بھی بہت سے واقعات میں پولیس اہلکاروں نے براہ راست گولیاں مار کر شہری قتل کئےکس اہلکار کو سزا ہوئی آج تک? اور کیا یہ تربیت دینے والوں کی نااہلی نہیں ان کو ٹریننگ میں کیا سکھایا جاتا ہے کیا یہ تربیت کا حصہ نہیں کہ انکو پبلک ڈیلنگ سکھائی جائے۔نفسیاتی ٹریننگ دی جائے۔ ہر قسم کے حالات ، ہرقسم کے جرائم اور ملزموں سے نمٹنے کا طریقہ سکھایا جائے صرف پریڈ ،لیفٹ رائیٹ ،روایتی دوڑاور اٹھک بیٹھک کرنے کے بجائے ان کی ایسی کردار سازی کی جائےکہ یہ محسوس ہو کہ یہ واقعی دنیا کے خوبصورت ترین دارالحکومت کی بہترین پولیس فورس ہے۔
نئے آنے والے آئی جی قاضی جمیل الرحمن کے بارے میں بہت مشہورہیں کہ وہ بہت اچھے اور قابل افسر ہیں۔اس پوسٹ تک پہنچنے والے بلاشبہ بہت ہی قابل اور اچھے ہی ہوتے ہیں مگر اس بات کا انحصار آپ کے ماتحت فورس کا عوام کے ساتھ رویہ پر ہے۔ اعلی عہدوں پر بیٹھے افسروں کو سب اچھا ہی نظر آتا ہے۔یا ان کو سب اچھا پیش کرکے دکھایا جاتا ہے۔صرف زبانی کلامی حدتک عوام کا آئی جی ہونا بڑی بات نہیں عوام کا واسطہ پڑتا ہے تھانوں سے ، چوکیوں سے، ناکوں سے اور تفتیشی افسران ومحرر سٹاف سے وہاں سے عوام کو زلیل کرنے کا سلسلہ جاری رہا تو اوپر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آئی جی اور ڈی آئی جی کتنے ایماندار ہیں۔آج بھی اگر شہرمیں روزانہ منوں کے حساب سے منشیات تعلیمی ادروں، گلی کوچوں میں فروخت ہوتی رہیں اور افسران چند گرام برآمد کرکے تصویریں بناتے اور آئی جی سے تعریفی سرٹیفیکیٹس اور نقد انعام وصول کرتے رہے۔شہرمیں سینکڑوں قحبہ خانے ، منشیات اور جوئے کے اڈے چلتے رہے اور ان کے خلاف ایکشن لینے کے بجائے مخبر کی اطلاع پر ایک پسٹل بمع 5 روند برآمدگی کی خبریں میڈیا کو بھیجی جاتی رہیں تو نئے آئی جی صاحب کی تعیناتی کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔نئے آئی صاحب جس علاقے کا تھانیدار 10 گرام چرس برآمدکرکے اپنی تصاویر بنوائے اس کیس کے ملزم کو اپنے آفس بلا کر فرینڈلی ماحول میں اس سے پوچھیں باقی کتنی منشیات پولیس نے خود رکھ لی ہیں اور اتنی کم مقدار ڈالنے کے پیسے کتنے لئے ہیں۔پولیس افسرکے ہرطرف سے وارے نیارے ہوتے ہیں۔منشیات کی زیادہ مقدار خود رکھ کر فروخت بھی کرلیتا ہے۔ ملزم کے کھاتے میں کم ڈال کر ان کو 9C سے بھی بچالیتا ہے اس کے عوض اچھی خاصی رقم بھی مل جاتی ہے پرچہ دیکر افسران بھی خوش اور عوام بھی خوش کہ ہماری پولیس مجرم پکڑ رہی ہے۔یوں گلشن کا کاروبار چلتا ہے مگر حقیقت میں.ہماری گلی کوچوں میں سرعام یہ زہر فروخت ہورہاہے۔ہمارے تھانوںمیں آج بھی ایف آئی آر کے نرخ مقرر ہیں۔ہمارے ناکوں پر اور دوران گشت عام شہری فیملی ساتھ ہوتے ہوئے بھی ہزیمت اور بے عزتی سے بچنے کیلئے رشوت دینے پرمجبور ہے۔عدم اعتمادکی وجہ سے عوام کی اکثریت ناکوں سے گاڑی بھگانے کو ہی ترجیح دیتی ہے۔پھر آگے اپنی قسمت بھاگ گئے تو بھاگ گئے ورنہ 21 گولیوں کی سلامی۔بلاشبہ تمام پولیس اہلکار اور افسر برے نہیں بہت سے افسر واہلکار نہایت ایماندار ہیںان کو ڈھونڈ کر اچھے عہدوں پر تعینات کریں۔ پہلے سلام پھر کلام والی فلم بہت پرانی ہوچکی ہے ۔اپنے شاندار لگژری دفتر میں بیٹھ کر افسروں کی روایتی رپورٹس ، فرسودہ تھانہ کلچر اور اسی کلچر کے تحت ہونی والی کارروائیوں ، وہی 10,10 سالوں سے ایک ہی علاقے میں تعینات اہلکاروں سے ہی آپ نے شہرمیں امن بحال کرنا ہے تو پھر ہوچکا امن بحال ، ختم ہوچکی منشیات اور بدامنی لیکن اگر آپ نے حقیقی معنوں میں تبدیلی لانی ہے تو بھیس بدل کر تھانوں،چوکیوں اور ناکوں کا وزٹ کریں۔نام بدل کر اہلکاروں کوفرضی کال کریں اپ کو لگ پتہ جائیگا کہ کس چیز کے کیاریٹ مقرر ہیں۔اور اس کا خاتمہ آپ نے کیسے کرنا ہے۔اللہ آپ کو چیلنجزسے نمٹنے کی طاقت دے۔آمین