کروناوائرس میں جینیاتی تبدیلی کتنی بھیانک ہوسکتی ہے؟

لندن: برطانیہ میں ہونے والی نئی طبی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ کروناوائرس میں رونما ہونے والی جینیاتی تبدیلی سے وائرس میں بیمار کرنے کی صلاحیت نہیں بڑھتی۔

کروناوائرس کے حوالے سے نئی تحقیق میں خوش آئند امر یہ ہے کہ وائرس میں جینیاتی تبدیلی بیماری کی صلاحیت کو نہیں بڑھاتی، نوول کرونا وائرس میں جینیاتی طور پر تبدیلیوں سے اس کی لوگوں کو آسانی سے بیمار کرنے کی صلاحیت میں اضافہ نہیں دیکھا گیا۔ تحقیقی نتائج طبی جریدے جرنل نیچر کمیونیکشن میں شایع ہوچکے ہیں۔

اس تحقیق میں ماہرین نے 99 ممالک سے حاصل کیے گئے 46 ہزار سے زائد جینیاتی سیکونس کے نمونوں میں تبدیلیوں کو دریافت کیا، تاہم ان تبدیلیوں سے وائرس کے افعال پر کوئی خاص اثرات مرتب نہیں ہوئے، کرونا کی ایسی قسم پر بھی مشاہدہ کیا گیا جس سے متعلق خیال کیا جاتا تھا کہ یہ وائرس کو فعال بناتا ہے۔

لیکن تحقیق میں یہ خیال بھی مسترد ہوگیا کیوں کہ کرونا کی یہ قسم ڈی 614 جی سے وائرس کی لوگوں کو بیمار کرنے کی صلاحیت پر کچھ خاص اثرات مرتب نہیں ہوئے البتہ وائرس کو پھیلنے میں مدد کرتا ہے۔

تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وائرس کے خلاف ویکسین استعمال کی جائے تو حالات بدل جائیں گے، تمام وائرسز میں تبدیلیاں آتی ہیں اور آر این اے وائرسز (جس میں کرونا وائرسز بھی شامل ہیں) دیگر کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے جینیاتی طور پر بدلتے ہیں اس کی وجہ ان میں بلٹ ان پروف ریڈر کی موجودگی ہے۔

کروناوائرس مریض کے اندر اپنی جینیاتی تبدیل لاتا ہے کیونکہ مدافعتی ردعمل کے نتیجے میں آر این اے بدلتا ہے لیکن یہ عمل غیرجانب دارانہ ہے کیوں کہ اس سے بیماری کے اثرات نہیں بڑھتے ہیں۔

وائرس کی قسم 614جی اسپائیک پروٹین کے ذریعے انسانی خلیات میں داخل ہوتے ہیں، وائرسز میں میوٹیشن(جینیاتی تبدیلی) ایک قدرتی عمل ہے جس سے ہمارے مدافعتی نظام پر دباؤ بڑھتا ہے۔ امریکا میں کروناوائرس کی مذکورہ قسم کو زیادہ دریافت کیا گیا ہے۔