خان صاحب ایجوکیشنل کمپلیکس پہلی اینٹ کا عطیہ سلار افتخار ؟

کرنل خان محمد خان نے بیسویں صدی کے اوائل میں ریاست پونچھ کے انتہائی پسماندہ اور غلامی کی زنجیروں میں جکڑے معاشرے میں شعوری بے داری اور بے بس لاچار اور غربت کی چکی میں پسنے والے عوام کو راحت و سکون پہنچانے کی خاطر تعلیم عام کرنے کی تحریک شروع کی.خان صاحب سمجھ چکے تھے کہ عوام کو اس ذہنی اور جسمانی غلامی سے نجات دلانے کا واحد ذریعہ تعلیم ہی ہے، جس سے شعور بے دار ہو گا اور لوگ اس دلدل دے نکلنے کی جدوجہد کرنے لگیں گے۔ اس سارے ریجن میں اس وقت نہ کوئی مدرسہ تھا نہ اسکول نہ کوئی مدرس نہ طالب۔ پڑھائے کون اور پڑے کون۔خان صاحب پھر بھی پر امید اور اس لگن میں تھے کہ ایک دن انقلاب ضرور آئے گا اور میری قوم کی زندگی آسان ہو گی۔ 1934 میں ڈنہ پوٹھی میر خان پر جو سدھن ایجوکیشنل کانفرنس کا تاسیسی جلسہ میں ڈوگرہ حکمرانوں کے ساتھ اسکول قائم کرنے کا مطالبہ سب مطالبات پر بھاری تھا۔ یہ عجب حقیقت ہے کہ خان صاحب نے جس زمانے میں اور جس معاشرے میں بے داری شعور کی بات اور تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب شروع کی اس زمانے کے حالات اور انداز زندگی کا مطالعہ کرنے سے خان صاحب کی سوچ ، ویڑن اور حیرت التیام خیال کو احاطہ ادراک میں لانے سے عاجز ہوں۔ کوئی ایسا بھی سوچ سکتا ہے اس زمانے میں۔اکبر الہ آبادی کی زمین پر قارئین انہی کے شعر کو تبدیل کرنے کی اجازت دیں تو خان صاحب پر صادق آتا ہے ۔”رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں۔۔۔۔۔۔ کہ خان نام لیتا ہے تعلیم کا اس زمانے میں” وہ دریا جہلم کے کنارے سے اٹھے، ڈنہ پوٹھی میر خان، تولی پیر اور کنگا چوٹی کی بلندیوں تک سفر کیا اور خطہ پونچھ کے عوام خاص طور پر خواتین کو صدا دی کہ اپنی تو گزری، نسلوں کو اس طرح ان بند وادیوں میں چھوڑ کر مت جاو۔ آو میرے ساتھ کھڑی ہو جاو، ہم مل کر ان وادیوں کے بند دریچے کھولیں تاکہ علی گڑھ سے آنے والی خوشبو سے یہ وادیاں معطر ہو جائیں۔ ماں جی بتاتی ہیں کہ” بہت چھوٹی عمر میں اپنی امی ( ہماری نانی اماں) کے ہمراہ تولی پیر کے جنگلات میں گلہ بانی میں مصروف تھیں، سفید گھوڑی پر سوار ایک باروب شخص نمودار ہوا۔ ہم بچے خوف زدہ اور بڑی عورتیں افسردہ ہو گئیں۔ اللہ نہ کرے کوئی ڈوگرہ کا آدمی لگتا ہے، کیا حکم لایا، ہمارے مویشی تو بند نہیں کرے گا۔ہم اسی وسواس میں تھے کہ، اللہ کا نیک بندہ سمجھ گیا کہ ہم اس ویران و بیابان میں خوفزدہ ہو گئے۔ انہوں نے اپنی ہی بولی میں آواز بلند کی ڈرو نہیں، میں آپ کا بھائی کرنل خان محمد خان ہوں ، آپ کی خریت معلوم کرنے آیا ہوں۔ ہم نے سن رکھا تھا کوئی خان صاحب ہے لوگوں کے فائدے کے لئے ان کو سمجھتا ہے۔ فوج میں بھرتی کرتا ہے نسوار چھوڑواتا اور بچوں کو پڑھانے کی تبلیغ کرتا ہے۔ ہمیں تو بڑا اشتیاق تھا دیکھنے کا یہ کیسا انسان ہو سکتا ہے جو اپنے کام چھوڑ کر دوسروں کو سمجھتا ہے۔ اطمینان ہوا یہی خان صاحب ہے جو آج ہمارے سامنے ہے۔ انہیں سامنے دیکھ کر خوشی کی انتہائ نہ رہی۔ خان صاحب گھوڑی سے اترے ایک چٹان پر گھڑے ہوئے اور سب کو بلایا کہ میرے قریب آو میں آپ سے بات کرو۔ انہوں نے بہت شفقت سے دھیمی آواز میں بات شروع کی۔ ان کی باتیں آج تک یاد ہیں ” دیگر باتوں کے علاوہ خان صاحب نے اجتماعی طور پر پونچھ کی خواتین سے کہا کہ آپ سے صرف ” مٹھی بھر آٹا” چاہئے۔ جب آپ کھانا پکائیں تو ایک مٹھی تحریک کے لیے علحیدہ کر لیں”۔ قربان جاوں کیسا لیڈر تھا، کیسی مائیں، بہن، بیٹیاں۔ لیڈر پر ان کا یقین و اعتماد کس قدر کہ کوئی برتن نہیں رہا جو آٹے سے اٹ نہ گیا ہو۔ اس مٹھی بھر آٹے نے جو انقلاب لایا وہ دنیا کے سامنے ہے ورنہ ساری ریاست اور پورا برصغیر ایک ہی دن آزاد ہوا تھا۔ آج تعلیم میں برصغیر کے بڑے شہروں جہاں اس زمانے میں یونیورسٹیاں اور کالج ہوا کرتے تھے کا مقابلہ پونچھ سے کیا جا سکتا ہے۔۔ بابائے پونچھ کی اسی تحریک کے اثرات تھے کہ 1947ئ میں پونچھ کی عوام نے تمام تر ڈوگرہ مظالم اور قتل عام کی منصوبہ بندی کا علم ہونے کے باوجود پرندوں کی طرح وطن چھوڑ کر ہجرت کرنے کے بجائے پیڑوں کی طرح اپنی مٹی سے پیوست رہے اور چپہ چپہ آزاد کرایا۔ اور اس خیال کو بھی مسترد کر دیا کہ جنگ شروع کرنے سے پہلے خاندان کو دریا جہلم پار منتقل کیا جائے۔جب خان صاحب نے تحریک شروع کی تو عوام کی محدود ترین آمدنی کا واحد ذریعہ اناج تھا جو لوگ اپنی آبائی زمینوں سے ہی پیدا کرتے۔ جس کی زمین تھوڑی یا محنت والی افرادی قوت محدود ہوتی اس کا غلہ بھی کم ہوتا اس کے باوجود اسی محدود اناج فصل خزاں سے 12 ماہ گزارا کرنا ہوتا۔ لیکن محدود غلہ یا اناج بھی اس تحریک کے آڑے نہیں آیا۔کم کھایا لیکن جب پکایا "مٹھی بھر آٹا ” خان صاحب کی تحریک کے لیے الگ کیا۔ آج اس تحریک کو ایک صدی مکمل ہو رہی ہے زمانہ آگئے نکل چکا۔ اس وقت پلندری میں چند سرکاری دفاتر اور راولاکوٹ میں حاجی قاسم خان صاحب کی ایک ہٹی تھی جہاں لوگ گھی اور مکھن انڈے دے کر نمک اور ماچس کی ڈبیہ لے جاتے۔یہ ہٹی بھی خان صاحب کی تحریک پر عوام کی خدمت کے لیے ہی قائم کی گئی تھی جہاں حاجی قاسم خان خود بیٹھتے اور لوگوں کے ساتھ ملاقات کرتے۔ آج راولاکوٹ ، پلندری اور باغ کی کیا مثال گاوں گاوں شہر بنے ہوئے ہیں ہر دوکان میں کروڑوں کا سامان ہے۔ اس زمانے کی عورتیں امور خان داری اور غلہ بانی سے آشنا تھیں، آج ڈاکٹر ہیں، پروفیسر ہیں، گھر گھر خواتین استاد ہیں اور خاندان کی آمدنی کا بڑا ذریعہ خواتین کے ہنر سے حاصل ہوتا ہے۔ کئی ایسے مخیر حضرات اربوں ڈالر کے مالک ہیں۔زمانہ بدل گیا تحریک زمانے کے ساتھ ساتھ چل رہی ہے۔ خان صاحب کے گدی نشین میجر(ر) سردار مشتاق حسین خان نے ایک مرتبہ پھر اسی طرز کی صدا دی ہے لیکن خواتین کے ساتھ بچوں کو بھی پکارا ہے۔
زمانے کی تبدیلی کے ساتھ ” مٹھی بھر آٹا ” ” ایک اینٹ ” میں تبدیل ہوا ہے۔ 7 نومبر 2021ئ کو راولاکوٹ میں خان صاحب ایجوکیشنل کمپلیکس کی 5 منزلہ عمارت کے کام کے آغاز کے موقع پر انہوں نے خان صاحب کی تحریک کو زندہ کرنے کی بات کی اور کہا” خان صاحب نے خواتین سے اپیل کی تھی کہ "مٹھی بھر آٹا دو علم کی شمع جلاؤ” پونچھ کی بہادر، پرجوش اور عقلمند خواتین نے بابائے پونچھ کے ایک اشارے پر "مٹھی بھر آٹا” دے کر پورے کشمیر کوعلم کے زیور
سے آراستہ کیا.آج بھی میری پکار مائیں بہنیں اور بیٹیوں سے ہے۔ آئیں بابائے پونچھ نے 87 سال پہلے جو علم کا ننھا پودا "سدھن ایجوکیشنل کانفرنس” کی صورت میں لگایا تھا اس کی آبیاری میں تن من دھن لگا دیں.” مٹھی بھر آٹا” مہم کو پھر سے زندہ کریں۔ آج کے تقاضوں کے مطابق ہم اس اسیکم کو اس طرح زندہ کر سکتے ہیں کہ پونچھ کا ہر بچہ "ایک اینٹ ” عطیہ دے۔ جس کی قیمت ایک سو(150) روپے ہے۔ پونچھ کی دو یونیورسٹیوں، درجنوں کالجوں اور سیکڑوں اسکولوں میں زیر تعلیم ہر بچہ ایک اینٹ کی قیمت صرف ڈیڑھ سو روپے عطیہ کرے اور اس مہم کی سرپرستی ہماری وہ خواتین کریں جو معلم یا صدر معلم پرنسپل یا سربراہ ادارہ ہیں تو ہماری یہ عمارت وقت پر مکمل ہو جائے گی”۔ صدر سدھن ایجوکیشنل کانفرنس سردار مشتاق خان کی اپیل پر لبیک کہتے ہوئے سالار افتخار نے پہل کی ہے جس نے 100 اینٹوں کی قیمت 1500 روپے عطیہ کیا ہے۔ اس عظیم الشان منصوبے کے لیے ایک اینٹ کا پہلا ننا ڈونر سالار افتخار محترم و معتبر میجر جنرل (ر) ڈاکٹر سردار افتخار حسین کے پوتے جن کے 2 بیٹے اور ایک بیٹی پہلے ہی اس عمارت کی تعمیر کے لیے 1،1 لاکھ روپے عطیہ کر چکے۔ سردار وسیم اعظم، سیکرٹری یوتھ ونگ سدھن ایجوکیشنل کانفرنس کے صاحب زادے حسن وسیم عمر 5 سال نے 100 اینٹوں کا عطیہ دیا۔کشمالہ خان کی عمر 8 سال ہے کی طرف سے 313 اینٹوں کے لیے 5000 روپے کا عطیہ آیا ہے۔ سدھن ایجوکیشنل کانفرنس کی انتظامیہ کو تجویز کیا جاتا ہے کہ ان بچوں کا نام عمارت کی تعمیر میں عطیہ دھندگان کی فہرست میں اوپر لکھا اور ممکن ہو تو عمارت پر کندہ کیا جائے کہ یہ اس تحریک کے پہلے ڈونر بچے ہیں۔ ایسی ٹیچرز کو توصیفی اسناد دی جائیں جو اس کار خیر میں تعاون کریں اور بچوں کو متحرک کرنے میں کردار ادا کریں۔ مبینہ طور پر پونچھ میں دو لاکھ بچے زیر تعلیم ہیں ہر بچہ ایک اینٹ عطیہ دے تو تین کروڑ روپے جمع ہوتے ہیں۔ قوم میں یی جزبہ پیدا ہو جائے تو عمارت نہیں عمارتیں کھڑی ہو سکتی ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭