رحمت العالمین ۖ کے پاک نام پر!

میں یہ تصور بھی نہیں کرسکتا کہ کوئی مسلمان ہوکر نبی آخرالزمان ۖ کے خاتم النبین ہونے میں رتی برابر بھی شک کرے ۔ ذہن نہیں مانتا کہ مسلمان ہوکر بھی کوئی دانستہ ختم نبوت ۖ کے عقیدے اور قانون کو متنازع بنانے کا خیال ذہن میں لاسکتا ہے۔ اس لئے مجھے یقین ہے کہ جو کچھ ہوا وہ کوئی سازش تھی یا پھر حکمرانوں اور ان کے اتحادیوں کی حماقت ۔ ممبران پارلیمنٹ کے حلف نامے میں تبدیلی کی جو غیرضروری حماقت کی گئی ، اس کے اگر ذمہ دار ہیں بھی تو حکمران ہیں یا پھر ان کے اتحادی ۔ بنیادی ذمہ داری بلاشبہ وزیر قانون زاہد حامد کی بنتی ہے ، پھر کابینہ اور پارلیمنٹ کی۔ وزیرداخلہ احسن اقبال میرے ٹی وی پروگرام جرگہ میں آن ریکارڈ دعوی کرچکے ہیں کہ قومی اسمبلی کی جس کمیٹی نے حلف نامے میں تبدیلی کے قانون کی منظوری دی اس میں جے یو آئی کے ممبربھی موجود تھے جبکہ مولانا فضل الرحمن صاحب کا موقف ہے کہ پارلیمنٹ اجتماعی گناہ کی مرتکب ہوئی ہے۔ اب اگرچہ قانون واپس لے لیا گیا لیکن بہرحال جو جرم سرزد ہوا ، اس کا ذمہ دار اگر کوئی ہے تو حکومت یا پھر بقول مولانا فضل الرحمن پوری پارلیمنٹ ، لیکن اس میں راولپنڈی میں رہنے والے رحم للعالمین ۖ کے امتی اس مزدور کا تو ہرگز کوئی قصور نہیں کہ جو روزانہ بچوں کا پیٹ پالنے کی خاطر اسلام آباد میں دیہاڑی لگانے جاتا ہے اور رستہ بندہونے کی وجہ سے وہ گزشتہ ایک ہفتے سے مزدوری نہیں کرسکا۔ اسی طرح گوجر خان سے تعلق رکھنے والے رحم للعالمینۖ کے اس امتی کا تو قانون بدلنے کے عمل سے کوئی تعلق نہیں تھا جو اپنی بیمار والدہ کو شفا اسپتال لارہا تھا لیکن رستہ بند ہونے کی وجہ سے اسے بلک بلک کر روتے ہوئے اپنی والدہ کواسپتال پہنچائے بغیر ان کی لاش کے ساتھ واپس جانا پڑا۔ کیا فیض آباد، کنہ پل ، آئی ایٹ اور گردونواح کے علاقوں میں رہنے والے لاکھوں پاکستانی اس رحمللعالمین ۖ کے امتی نہیں کہ جس کے نام کی آڑ لے کر گزشتہ ایک ہفتے سے ان سب کو گھروں میں محصو رکردیا گیا ہے اور کیا روز قیامت ان لوگوں کے ہاتھ ، حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کے گریبانوں میں نہیں ہوں گے کہ جنہوں نے دھرنے کے ذریعے ان کا جینا دوبھر کردیا۔
بات صرف زاہد حامد اور احسن اقبال کی ذات تک محدود ہوتی تو ہم جیسے گناہگار پھر بھی خاموش رہتے لیکن اب تو عاشق رسولۖ جسٹس شوکت عزیز صدیقی بھی فیصلے کی صورت میں بول اٹھے ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے ماضی کے بعض اقدامات اور فیصلوں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن ان کے ایک سچے عاشق رسول ۖ ہونے میں کوئی کلام نہیں ۔ ان کے ماضی کے بعض فیصلوں اور کمنٹس پر لبرل حلقوں کی طرف سے اس بنیاد پر اعتراض اٹھایا جاتا رہا کہ شاید ان سے خادم حسین رضوی جیسے لوگوں کو شہ ملتی ہے لیکن اب کی بار تو جسٹس صاحب بھی خاموش نہیں رہ سکے ۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی، علمی میدان میں اس نعیم صدیقی کے جانشین اور پیروکار ہیں جنہوں نے محسن انسانیت ۖ جیسی شہرہ آفاق کتاب تصنیف کی ۔ اب جب اس جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو بھی فیصلہ دینا پڑا کہ لبیک تحریک والوں کو اپنا دھرنا ختم کردینا چاہئے تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ معاملہ حد سے نکل گیا ہے ۔ لیکن افسوس کہ اس کے بعد بھی دھرنے کے منتظمین دھرنا ختم کرنے پر آمادہ نہیں۔
مذکورہ بالا الفاظ میرے اس کالم کے ہیں جو ٹی ایل پی کے دھرنے کے دوران روزنامہ جنگ میں نومبر کو شائع ہوا تھا۔ یہ وہ وقت تھا کہ میں نون لیگ کی حکومت کا شدید ترین ناقد ہونے کے باوجود حکومت کے خلاف مذہبی کارڈکو استعمال کرنے کا مخالف تھا۔ بہت گناہگار ہونے کے باوجود میں اللہ اور اس کے رسولۖ کے نام کو ذاتی، سیاسی یا صحافتی مقاصد کے لئے استعمال کرنا گناہ عظیم سمجھتا ہوں۔یہ وہ وقت تھا کہ جب عمران خان ، شیخ رشید احمد، ابرارالحق، شہریار آفریدی اور اسی طرح کے دیگر لوگ تحریک لبیک کے دھرنے کو ان کا آئینی اور قانونی حق گردانتے ہوئے نون لیگ کی حکومت کے خلاف مذہب کے اس کارڈ کو استعمال کررہے تھے ۔ آج مکافات عمل کے قانون کے تحت پی ٹی آئی حکومت کو اس صورت حال کا سامنا ہے جس کا نون لیگ کو سامنا تھا لیکن نون لیگ کی بدقسمتی یہ تھی کہ تب ریاستی ادارے اس معاملے میں ان کا اور پولیس کا ساتھ دینے کی بجائے الٹ سمت میں جارہے تھے جبکہ پی ٹی آئی کی خوش قسمتی ہے کہ اس کے ساتھ ریاستی ادارے بھرپور تعاون کررہے ہیں ۔ تاہم مجھ ناچیز کا جو موقف لبیک کے دھرنے کے بارے میں نون لیگ کی حکومت میں تھا، وہ پی ٹی آئی کی حکومت میں بھی ہے ۔ اگرچہ نون لیگ کی حکومت نے عمران خان کی حکومت کی طرح ٹی ایل پی کے ساتھ تحریری معاہدے کرکے اس کی خلاف ورزی نہیں کی تھی لیکن میں کل بھی رحمت العالمین ۖ کے نام پر ان کی امت کو تکلیف دینے اور قانون ہاتھ میں لینے کو ناجائز سمجھتا تھا ، اسی طرح آج بھی ناجائز سمجھتا ہوں۔ اس تناظر میں میری اپوزیشن کی جماعتوں بالخصوص جے یو آئی، جے یو پی، جماعت اسلامی، مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی سے اپیل ہے کہ وہ پی ٹی آئی کی سنت کو تازہ کرتے ہوئے اس موقع کو حکومت کے خلاف استعمال کرنے کی بجائے اس سے تعاون کریں۔ تمام دینی اور سیاسی شخصیات کا فرض بنتا ہے کہ وہ تیل چھڑکنے کی بجائے آگ کو ٹھنڈا کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں ۔ عمران خان اور ان کے سرپرستوں یا ہمنوائوں نے جو کیا ہے، اس کا کچھ صلہ ان کو مل گیا اور باقی مل جائے گا۔ ہم سب کا فرض ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں کیونکہ تحریک لیبک کے کارکن بھی مسلمان اور پاکستانی ہیں جبکہ پولیس اور رینجرز والے بھی نبی ۖ کے عاشق اور پاکستانی ہیں۔ان کا ٹی ایل پی سے معاہدے میں کوئی کردار تھا اور نہ خلاف ورزی میں۔ یہ سب اپنے نبیۖ سے اسی طرح محبت کرنے والے ہیں جس طرح ٹی ایل پی کے کارکن ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭