پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس: صدر کے خطاب کے دوران احتجاج کا امکان

قومی اسمبلی کے چوتھے پارلیمانی سال کے آغاز پر مشترکہ اجلاس سے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی خطاب کریں گے جبکہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اجلاس کے بائیکاٹ اور پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر اور باہر احتجاج کی دھمکی دی گئی ہے۔

اپوزیشن نے 13 اگست کو اختتام پذیر ہونے والے تیسرے پارلیمانی سال میں صدر کے خطاب پر بحث کی اجازت نہ دینے پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت اور اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر پر آئین کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا ہے۔

بعد ازاں احتجاج کرنے والی جماعتوں نے مذمت کرتے ہوئے کہا کہ برسر اقتدار جماعت کی الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کو دھمکیاں پارلیمنٹ کو کمزور کرنے اور میڈیا پر پابندیاں عائد کرنے کی کوشش ہے۔

آئین کے آرٹیکل 56 (3) کے تحت پارلیمانی سال کے آغاز کے لیے صدارتی خطاب لازمی ہے، اجلاس آج شام میں شروع ہونے والا ہے جس دوران قومی اسمبلی میں ہنگامہ آرائی متوقع ہے۔

اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اسمبلی سے واک آؤٹ اور باہر مظاہرہ کرنے سے قبل ہی صدر عارف علوی کے خطاب میں خلل پیدا کرنے کی حتمی حکمت عملی تیار کرلی گئی ہے۔

پی ٹی آئی حکومت کا تیسرا پارلیمانی سال 13 اگست کو نئی مثال کے ساتھ اختتام پذیر ہوا جس میں قومی اسمبلی نے صدر کو ان کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے آخری خطاب پر بحث کے بغیر ‘شکریہ کا ووٹ’ دیا۔

حیرت انگیز بات یہ تھی کہ صدر کے خطاب کے حوالے سے بحث پورے تیسرے پارلیمانی سال میں ایوان زیریں کے ایجنڈے پر رہی، لیکن پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اپوزیشن رکن خواجہ آصف کے اس معاملے پر بات کرنے کے بعد بحث کے بغیر اس معاملے کو ختم کردیا گیا۔

آئین کے تحت ہر پارلیمانی سال کے آغاز میں صدر، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتا ہے جس کے بعد قومی اسمبلی میں بحث ہوتی ہے جسے کوئی وزیر سمیٹتا ہے، اس کے بعد صدر کو ‘شکریہ کا ووٹ’ دیا جاتا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے قانون ساز سید نوید قمر کا کہنا تھا کہ ‘پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں یہ منفرد کیس دیکھا ہے کہ صدر کو ان کے خطاب پر بحث کے بغیر شکریہ کا ووٹ دیا گیا’۔

انہوں نے شکایت کی کہ یہ کوئی طریقہ کار نہیں کہ صدر کے خطاب پر بحث ختم کردی گئی۔

پیپلز پارٹی کے رہنما نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہمیں توقع تھی کہ کوئی وزیر بحث سمیٹے گا لیکن ایسا نہیں ہوا’۔

اپوزیشن نے مشترکہ اجلاس کے بائیکاٹ کے علاوہ اسمبلی کے باہر ہونے والے صحافیوں کے احتجاج میں شرکت کرنے کا بھی منصوبہ بنایا ہے، صحافی ‘حکومت کی جانب سے میڈیا پر پابندیاں عائد کرنے کے خلاف’ احتجاج کر رہے ہیں۔

جمعہ کو اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے اعلان کیا تھا کہ وہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ کرے گی اور 13 ستمبر کو پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر ہونے والے صحافیوں کے احتجاج میں شرکت کرے گی۔

مولانا فضل الرحمٰن کی زیر صدارت پی ڈی ایم کی ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا گیا تھا اور ساتھ ساتھ یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ اس دن اپوزیشن جماعتیں پارلیمنٹ میں جائیں گی اور اجلاس کے بائیکاٹ سے قبل احتجاج کریں گی۔