پاکستان جنوری 2022 سے موبائل فونز کی برآمد شروع کردے گا، مشیر تجارت

اسلام آباد: وزیراعظم کے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق داؤد نے کہا ہے کہ پاکستان جنوری 2022 سے موبائل فون برآمد کرنا شروع کردے گا۔

سینیٹر ذیشان خانزادہ کی سربراہی میں ہونے والے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کے اجلاس میں مشیر تجارت نے کہا کہ ایک چینی کمپنی کراچی میں موبائل فون مینوفیکچرنگ فیکٹری قائم کررہی ہے۔

اجلاس کے بعد ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے عبد الرزاق داؤد نے کہا کہ پاکستان میں موبائل فونز کی پروڈکشن پہلے ہی شروع ہوچکی ہے اب میں چینیوں کو پاکستان سے موبائل فونز برآمد کرنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔

انہوں نے بتایا کہ چینیوں نے گزشتہ برس موبائل فونز کی پروڈکشن شروع کی تھی اور میں نے انہیں دسمبر 2021 کو ہدف دیا تھا جس پر انہوں نے مجھے جنوری 2022 سے موبائل فون کی برآمد شروع کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی۔

پاکستان میں تیار ہونے والے موبائل فون کی برآمد کے لیے کسی ہدف سے متعلق سوال کے جواب میں مشیر تجارت نے کہا کہ یہ برآمدات کے لیے نئی پروڈکٹ ہے اس لیے اس کا کوئی ہدف مقرر نہیں کیا گیا، 2 سال پہلے تک کوئی یہ سوچ بھی نہیں رہا تھا کہ پاکستان موبائل فونز برآمد کرنا شروع کردے گا۔

ملک میں سام سنگ کے آپریشن کے بارے میں عبدالرزاق داؤد نے کہا کہ ابتدا میں سام سنگ نے پاکستان آنے سے انکار کردیا تھا لیکن بعد میں اپنا فیصلہ تبدیل کرتے ہوئے رضامندی ظاہر کی تھی۔

سیکریٹری تجارت کی عدم موجودگی پر کمیٹی برہم

اجلاس کے دوران کمیٹی نے سیکریٹری تجارت محمد صالح فاروقی کی عدم حاضری پر برہمی کا اظہار کیا۔

ایڈیشنل سیکٹریٹی تجارت مجتبیٰ میمن نے کمیٹی کو بتایا کہ صالح فاروقی ایکسپو 2022 کی تیاریوں کے لیے کراچی گئے ہیں۔

تاہم سینیٹر دانش کمار نے کہا کہ وہ سیکریٹی کی عدم موجودگی میں آئندہ اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے، سینیٹر فدا محمد نے سیکریٹری تجارت کے رویے پر سینیٹ چیئرمین کو خط لکھنے کے لیے کمیٹی چیئرمین پر زور دیا۔

دوسری جانب سینیٹر دانش کمار اور سینیٹر احمد خان نے اجلاس سے بائیکاٹ کیا لیکن سینیر فدا محمد دونوں کو واپس لے کر آگئے۔

علاوہ ازیں سینیٹرز نے وزارت تجارت کی جانب سے بروقت ورکنگ پیپرز نہ ملنے پر بھی ناگواری کا اظہار کیا، عبدالرزاق داؤد نے سیکریٹری تجارت کی عدم موجودگی پر کمیٹی اراکین سے معذرت کی۔

ڈائریکٹر جنرل ٹریڈ نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ 2 پروگرامز میں برآمداتی اہداف غیر حقیقی تھے اس لیے پورے نہ کیے جاسکے۔

دوسری جانب ایک بیان میں وزارت تجارت نے کہا ہے کہ چین کو پاکستانی چاولوں کی برآمد پر پابندی نہیں لگائی گئی یہ وضاحت ان میڈیا رپورٹس کے بات جاری کی گئی جن میں کہا گیا تھا کہ بوریوں پر کورونا وائرس کی موجودگی کی وجہ سے چین میں پاکستانی چاولوں پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ ’چینی حکومت بندرگاہ پر کلیئرنس دینے سے قبل کووڈ کی موجودگی کے باعث درآمدی اشیا کی چیکنگ کے لیے سخت حفاظتی اور صفائی ستھرائی کے پروٹوکول پر عمل کرتی ہے، چاول کےپاکستانی برآمدی سامان کو بندرگاہ پر معائنے کے لیے حراست میں لیا گیا تھا لیکن چینی حکومت کے پروٹوکول کے مطابق ہونے کے بعد انہیں جاری کردیا گیا تھا‘۔