چین کا امریکا اور اتحادیوں کو زبردست جھٹکا‘کورونا کے خلاف ویکسین تیار کرلی

نسانوں پر کامیاب تجربات کے بعد چینی کمپنی نے نومبر میں مارکیٹ میں لانے کا اعلان کردیا

لندن چین نے کورونا ویکسین تیار کرکے انسانوں پر اس کے تجربات شروع کردیئے ہیں جبکہ ایک بڑی چینی کمپنی کے سربراہ نے انکشاف کیا ہے کہ کووڈ 19 کی ویکسین نومبر تک مارکیٹ میں دستیاب ہونے کی توقع ہے. چینی کمپنیاں اس موقعے کو اقتصادی بحالی کا ایک اشارہ اور اپنی فرمز کے کاروبار میں اضافے کے ایک موقعے کے طور پر دیکھتے ہیں اس کمپنی کا اپنا ایک طبی مصنوعات کا ڈویژن ہے چند ہی ہفتوں میں چینی حکومت نے ڈھکے چھپے الفاظ میں ویکسین پر اپنی پیش رفت سے عوام کو آگاہ کردیا ہے جسے ایک بڑا بریک تھرو قراردیا جارہا ہے
چین کی جانب سے اس انکشاف کے بعد سب سے زیادہ پریشانی بیجنگ کے سب سے بڑے کاروباری مخالف امریکا میں پائی جارہی ہے کیونکہ امریکا کا خیال تھا کہ دنیا میں سب سے پہلے وہ ویکسین لے کر آئے گا مگر سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی بیجنگ نے آخرکار واشنگٹن کونیچا دکھا دیا ہے. برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق انسانوں میں کووڈ 19 وبا کا باعث بننے والا نوول کورونا وائرس چین میں انسانوں میں شروع ہوا جس کے بعد وہ تیزی سے دنیا بھر میں پھیلنے لگا.اب چین اپنی عالمی موجودگی کے ذریعے ایک موثر ویکسین بنانے اور اسے بازار تک پہنچانے کے لیے انتھک کوششوں میں مصروف ہے گذشتہ ہفتے چین کے سرکاری میڈیا میں ایک ویکسین دکھائی گئی: تصاویر میں ایک لیبارٹری میں کھڑی مسکراتی خاتون کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا برانڈڈ ڈبہ نظر آ رہا تھا سائنوفارم کے مطابق اسے امید ہے کہ یہ ویکسین دسمبر تک مارکیٹ میں آ جائے گی اس کے مطابق اس کی قیمت بھی 140 ڈالر کے لگ بھگ ہوگی.ویکسین کی تیاری کے لیے چین کا عزم سب کے سامنے ہے ہم جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں جو6 ویکسین آزمائش کے مختلف مرحلوں سے گزر کر بڑے پیمانے پر انسانی آزمائش کے مرحلے تک پہنچی ہیں ان میں سے نصف چینی ہیں یہ عالمی آزمائشیں ضرورت ہیں. ستم ظریفی یہ ہے کہ چین اپنے ملک میں اتنے بڑے پیمانے پر ویکسین ٹیسٹ نہیں کر سکتا کیونکہ یہ اپنے پاس وائرس کا پھیلاﺅ روکنے میں نہایت کامیاب رہا ہے ہانگ کانگ یونیورسٹی کے سکول آف پبلک ہیلتھ کے پروفیسر بین کاﺅلنگ کہتے ہیں کہ ویکسین تیار کرنے والی تمام کمپنیاں اپنے فیز تھری ٹرائل (آزمائش کا وہ مرحلہ جس میں ویکسین ہزاروں لوگوں کو دی جاتی ہے) کے لیے ایسی جگہیں تلاش کر رہے ہیں جہاں کووڈ 19 اب بھی نسبتاً بلند شرح سے پھیل رہا ہے انہوں نے کہا کہ انہیں ان تمام زیر تیاری ویکسینز بشمول چینی ویکسینز سے کافی امیدیں ہیںمجھے لگتا ہے کہ تیسرے مرحلے میں موجود تمام ویکسینز کے موثر ہونے کا کافی امکان موجود ہے مگر روس کی طرح اور وائٹ ہاﺅس میں موجود چند لوگوں کی خواہشات کی طرح چین بھی ایک قدم آگے نکل گیا ہے.چین کے ایک سینیئر طبی عہدیدار نے گذشتہ ہفتے تصدیق کی کہ چین خفیہ طور پر اہم سرکاری اہلکاروں پر گذشتہ ماہ سے ویکسین آزما رہا ہے نیشنل ہیلتھ کمیشن کے ژینگ ژونگ وے نے سرکاری ٹی وی کو بتایا کہ تیاری کے مرحلے میں موجود غیر منظور شدہ ویکسینز کے استعمال کی اجازت دینے والے ہنگامی اختیارات کے ذریعے سرحدوں اور دیگر علاقوں میں موجود اہلکاروں کو ویکسین دی جا رہی ہے لیکن ویکسین کی سب سے پہلے تیاری ہی سب کچھ نہیں ہے، بلکہ اسے بڑے پیمانے پر تیار کرنا بھی ایک چیلنج ہوگا.پروفیسر کاﺅلنگ کہتے ہیں کہ مجھے لگتا ہے کہ دسمبر تک کچھ ویکسینز بازار میں آ سکتی ہیں لیکن میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ بڑی تعداد میں دستیاب ہوں گی یا نہیں ان کا خیال ہے کہ 2021 کی گرمیوں میں پوری پوری آبادیوں کو کووڈ 19 کے خلاف ویکسین دی جا سکے گی. تجربات کئی سطحوں پر جاری ہیں چین پہلے ہی تصدیق کر چکا ہے کہ وہ متحدہ عرب امارات، پیرو اور ارجنٹیائن سمیت دیگر ممالک میں ہزاروں لوگوں پر باضابطہ طور پر ویکسین آزما رہا ہے یہ حکومتوں اور ادویہ ساز کمپنیوں کے درمیان عالمی تعاون کے ذریعے ہو رہا ہے اور اس حوالے سے دستاویزات بھی موجود ہیں.اس کے بعد وہ آزمائشیں ہیں جنہیں عوام کے سامنے نہیں لایا گیا ہے بظاہر ہنگامی اختیارات کے تحت ویکسین کی آزمائش (نہ کہ باضابطہ فیز تھری آزمائش) سے منسلک ایک واقعے میں چینی کان کنوں کے ایک گروہ کو پاپوا نیو گنی میں داخلے سے روک دیا گیا کیونکہ ان کے آجر نے یہ انکشاف کیا تھا کہ وہ انہیں ویکسین کی آزمائش کے لیے استعمال کر رہے ہیں‘بحرالکاہل کے اس جزیرائی ملک میں کان چلانے والی اس چینی سرکاری کمپنی کے بیان کے مطابق 48 کے قریب کارکنان کو اگست کے اوائل میں ویکسین دی گئی تھی.چینی حکومت کی سرکاری رپورٹ کے انگریزی مسودے میں لکھا گیا کووڈ 19 کی ویکسین کی مرتبہ جب چین میں تیار اور استعمال ہوجائے تو اسے عالمی عوامی پراڈکٹ کے طور پر استعمال کیا جائے گا چین نے اشارہ دیا ہے کہ جنوب مشرقی ایشیا میں اس کے پڑوسی ممالک اور افریقہ کے ممالک یہاں تیار ہونے والی ویکسین سے فائدہ اٹھانے والے اولین ممالک ہوں گے. ایک سینیئر یورپی سفارتکار نے اس جانب توجہ دلائی جسے وہ ”ماسک ڈپلومیسی“ قرار دیتے ہیں انہوں نے کہا کہ وباءکے عروج کے دنوں میں چین نے یورپی ممالک سمیت دنیا بھر طبی کٹس اور دیگر سازوسامان بجھوایا انہوں نے مغربی دنیا کی بدترین ناکامی کو تسلیم کرنے کی بجائے بیجنگ کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ چین کے انتہائی بااثر پوزیشن میں ہونے کے باعث ”ویکسین ڈپلومیسی“ کافی نپی تلی ہوسکتی ہے دوسری جانب پروفیسر کاﺅلنگ نے چین کے بارے میں کہا کہ انہوں نے ویکسین پر تحقیق کے لیے بہت سرمایہ کاری کی ہے اور اب اس کا پھل مل رہا ہے.امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے یہ امر کسی ڈراﺅنے خواب سے کم نہیں کہ انہیں چین سے ویکسین خریدنا پڑے گی کیونکہ امریکا اور اس کے اتحادی ملک سب سے پہلے ویکسین بنانے کے دوعوے کرتے رہے ہیں اور کھلے عام ان کا موقف رہا ہے کہ چین یا روس کی جانب سے پہلے ویکسین بنانے کی صورت میں ان کی عالمی ساکھ کو شدید دھچکا پہنچے گا.