فنی، علمی یونیورسٹی کے مستقبل کو تاریک ہونے سے بچایا جائے

پاکستان کی اکثر جامعات کا المیہ رہاہے کہ نئے آنے والے وائس چانسلر نے تعصبانہ رویہ اپنایا، سابق وائس چانسلر کے کاموں میں کیڑے نکالنا، ان کیساتھ کام کرنے والوں کو حقارت کی نظر سے دیکھنا، نئی تعصبانہ سیاست کا آغاز کرنا، مخالفین کا استحصال کرنا، الغرض اپنی تمام تر توانائیوںکا رخ بے جا سیاست کی نظر کرنا، اس کا نقصان یہ ہوا کہ پاکستان کی بڑی سے بڑی جامعہ ورلڈ ریکنگ میں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں فگرز پر بھی غور سے دیکھنے کو نہیں مل سکیں۔ دنیا کی وہ یونیورسٹیاں جنہوں نے نام کمایا، جن کے نام سرفہرست رہے، جن کا کردار بلکل مختلف رہا ، انہوں نے ایسی فضولیات پر توجہ نہیں دی، بلکہ ترقی کا سفر تسلسل سے جاری رکھنے کے لیے اچھی پالیسیوں کو اپنایا، جہاں پر کوئی جھول نظرنہیں آئی ، ان کی اصلاح کی ، ایک ٹیم ورک شکل اختیار کی ، انہیں اس سے کوئی غرض نہیں رہا کہ فلاں کے دور میں کیا ہوتا رہا، اب وہ پالیسیاں قابل تنقید یا قابل نفرت سمجھی جانے لگی، ایسا نہیں ہوا۔بلکہ ان پالیسیوں کو حوصلہ افزائی کے ساتھ جاری رکھا جن میں مستقبل کی نوید روشن نظر آتی تھی۔ بہر حال تعلیمی اداروں میں ایسے تعصبانہ رویوں کی وجہ سے ناقابل تلافی نقصان پہنچا، جن تعلیمی ادروں میں یہ سلسلہ جاری ہے وہاں پر ترقی کا سفر رک گیا، جنوبی پنجاب کی نوزائدہ یونیورسٹی خواجہ فرید انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی نے اپنے آغاز میں ہی ترقی کا سفر اس تیزی سے شروع کیا کہ صرف چار سالوں میں یونیورسٹی نے خوبصورتی کے ساتھ ترقی اور اعزازات کے ساتھ حاصل کیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ ادارے کو ایسا سربراہ میسر آگیا جن کے دل و دماغ میں صرف ایک ہی جنون تھا کہ اس کو خطے کی بڑی یونیورسٹی بنانا ہے۔ ڈاکٹر اطہر محبوب کی اس کاوش کو ناصرف اپنوں بلکہ پرایوں نے بھی سراہا، اس دور کے حکمرانوں نے تو شاباش دینا ہی تھی ، موجودہ حکمران بھی داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ ان کے بعد نئے آنے والے وائس چانسلر ا ن کی معاونت حاصل کرتے ، ان کی مشاورت سے آگے بڑھنے کی منصوبہ بندی کرتے ۔ لیکن ایسا نہ ہوا، بلکہ کیڑے نکالنے شروع کردیے ، ان کی مثال اس ناقد کی طرح ہے جس نے کسی مصور کی بنائی ہوئی شاہکار تصویر پر سینکڑوں نشان لگا کر حلیہ بگاڑدیا۔ ایک ایسی جامعہ جس کا آغاز صرف چار کمروں سے ہوا، صرف تین سالوں کی قلیل مدت میں شاہکار عمارت کھڑی کرکے ، ہزاروں طلباء کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کردیا۔ ادارے کو چلانے کے لیے اہل ، محنتی افراد کی تلاش شروع کی، بلکہ ان کوبھی لایا گیا جو آنے سے گریزاں تھے۔ جامعہ تیزی کے ساتھ خود انحصاری کی طرف سفر کررہی تھی کہ نظر بد کا شکار ہوئی نہ صرف تعمیر و ترقی کا سفر رکا، بلکہ ایسے ایسے احکامات جاری ہونا شروع ہوئے ، جن کی وجہ سے یونیورسٹی کا ماحول جنگل سا بنا دیا گیا۔ الزام تراشیوں ، اقدار سے گرے ہوئے اقدامات اٹھائے جانے لگے ، ایسے کھیل کھیلے جانے لگے جس سے رحیم یار خان دھرتی پر قائم ہونے والی خواجہ فرید یونیورسٹی نیک نامی کی بجائے بدنام ہونے لگی ۔ خبریں یہاں تک سامنے آئیں کہ خواجہ فرید یونیورسٹی کے وائس چانسلر پلے جرزم پکڑے جانے پر انٹرنیشل چور ڈکلئیر ۔ انٹر نیشنل تحقیقاتی ادارے ”فیول” میں رنگے ہاتھوں پلے جرزم پکڑے جانے کے بعد اسڑیلیا کی RMITیونیورسٹی نے بھی تحقیقات کے بعد خواجہ فرید یونیورسٹی کے وائس چانسلر انجینئر پروفیسر ڈاکٹر سلمان طاہر کو سرقہ باز ڈکلئیر کردیا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ایک معزز ادارے کے سربراہ نے لسانی تعصب کو فروغ دینا شروع کردیا۔ جس کی وجہ سے خطے کا ماحول آلودہ ہونے کے خدشات پیدا ہوئے۔ بہاولپور ایک ایسا خطہ ہے جہاں پر ایک عرصہ سے تمام زبانوں کے رہنے والے افراد بھائی چارے کی فضاء قائم رکھے ہوئے ہیں ۔ پچھلے دنوں روزنامہ نوائے وقت کے 27ستمبر 2021کے شمارے میں چھپنے والے کالم میں غلط اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں۔ کہا گیا جامعہ فرید بہت قدیم ادارہ ہے۔ دعویٰ کیا گیا کہ جب موجودہ وائس چانسلر نے چارج سنبھالا تو یونیورسٹی 408ملین روپے کے خسارے میں تھی، یہ نہیں بتایا گیا کہ گورنمنٹ پنجاب کے ذمہ 1912ملین روپے رینکنگ گرانٹ کی مد میں واجب الادا تھے۔ بعض عناصر نے تصویر کا ایک رخ دکھایا، یہ نہیں بتایاگیا کہ سابقہ انتظامیہ نے جوپالیسی اپنائی تھی جس کی وجہ سے سال 2019-20کے فنانشل سال میں خود انحصار ہونا لازمی تھا۔ اس منصوبے کے تحت طلباء کو پی سی ون کے تحت جو کہ 2000ہوتی 9ہزار کردی گئی۔ تعدا د صرف انجینئرنگ اور آئی ٹی میں پڑھانا علاقائی اور ملکی مفاد کے خلاف ہوتا جو علاقے کے طلباء و طالبات کے مستقبل کے لیے بھی مناسب نہیں تھا۔ لہذا نئے تعلیمی پروگرامز کی تعدا د14سے بڑھا کر 94کردی گئی ، بلاشبہ اس کاوش میں اساتذہ کا بھی بڑا عمل دخل رہا ۔ یہی وجہ تھی کہ سال 2019-20میں ایک ہزار ملین روپے سے زائد آمدنی ہوئی جس کا سہرا سابق انتظامیہ کو جاتا ہے۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ موجودہ انتظامیہ نے نئی ریکروٹمنٹ اور دیگر اقدامات اٹھاتے ہوئے ، یونیورسٹی کے ایس او پیز کو فالو نہیں کیا، حتی کہ اپنے ان عزیز و اقارب کو نوازا گیا جو متعلقہ عہدوں کی اہلیت نہیں رکھتے ۔ یہی وجہ تھی کہ ایک انکوائری میں متعدد الزامات لگائے گئے۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ موجود ہ انتظامیہ کی طرف سے بعض اٹھائے گئے غیر قانونی اقدامات کے پیش نظر یونیورسٹی کے ملازمین جن کی تنخواہوں میں کٹوتی کی گئی یا جن کو نکالا گیا اس پر افسوس کا اظہار ہی کیا جاسکتا ہے۔ یہ امر بھی قابل افسوس ہے کہ یونیورسٹی کے اساتذہ کم و بیش 80روز سے سراپا احتجاج ہیں ، یونیورسٹی انتظامیہ ٹس سے مس نہیں ہورہی ، اگر چہ کئی مقدمات بھی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ان تمام محرکات کا از سر نو جائزہ لے اور خطے کی ایک شاندارفنی، علمی یونیورسٹی کے مستقبل کو تاریک ہونے سے بچائے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭