فرانسیسی صدر کے بیانات: ترکی کے بعد پاکستان، بنگلہ دیش سمیت دیگر مسلم ممالک میں بھی فرانس کے خلاف غصے کی لہر

 

فرانسیسی صدر میکخواں کی جانب سے حال ہی میں پیغمبرِ اسلام کے بارے میں توہین آمیز خاکوں اور فرانسیسی سیکیولر ازم کے دفاع کے تناظر میں ترکی کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش سمیت کئی مسلمان ممالک میں شدید ردِ عمل سامنے آ رہا ہے۔

اس وقت بھی فرانسیسی صدر میکخواں کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور دنیا میں فرانسسیسی اشیا کا بائیکاٹ کرنے کی کے مطالبات زور پکڑ رہے ہیں۔

یاد رہے صدر میکخواں نے یہ بیان ایک ایسے وقت پر دیا تھا جب فرانس میں سیموئل پیٹی نامی ایک استاد نے طلبہ کو پیغمبرِ اسلام سے متعلق خاکے دکھائے تھے جس کے بعد انھیں قتل کر دیا گیا۔ میکخواں کا کہنا تھا کہ ہم ان خاکوں کو نہیں چھوڑیں گے۔

میکخواں کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسلام پوری دنیا میں ‘بحران کا مذہب’ بن گیا ہے اور ان کی حکومت دسمبر میں مذہب اور ریاست کو الگ کرنے والے 1905 کے قوانین کو مزید مضبوط کرے گی۔

فرانس کی حکومت نے پیرس میں اس مسجد کو بھی بند کر نے کا حکم دیا ہے جہاں سے جمعے کو ہلاک کیے جانے والے استاد سے متعلق ویڈیوز سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی تھیں۔

اردوغان: ’فرانسیسی صدر کو اپنی نفرت پرستانہ مہم بند کرنی چاہیے‘

ترکی کے صدر طیب اردوغان اس تنازعے میں پیش پیش ہیں اور انھوں نے ٹی وی پر ایک حالیہ تقریر میں فرانسیسی اشیا کے بائیکاٹ کی اپیل کی تھی۔

ٹی وی پر ایک تقریر کے دوران صدر اردوغان نے کہا کہ مسلمانوں کے خلاف اب ایسی مہم چلائی جا رہی ہے جو کہ دوسری جنگِ عظیم میں یہودیوں کے خلاف یورپ میں چلائی گئی تھی۔ انھوں نے کہا کہ فرانسیسی رہنمائوں کو فرانسیسی صدر کو بتایا چاہیے کہ وہ اپنی نفرت پرستانہ مہم بند کریں۔

تاہم یورپی حکومتوں نے صدر میکخواں کی حمایت کا اظہار کیا ہے اور صدر اردوغان کے فرانسیسی صدر کے بارے میں بیان کی مذمت کی ہے۔ صدر اردوغان نے کہا تھا کہ ان کے فرانسیسی ہم منصب نے سنیچر کو سخت گیر اسلام کے خلاف جو بیان دیا ہے انھیں اس حوالے سے ذہنی علاج کی ضرورت ہے جس کے بعد فرانس نے ترکی سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا ہے۔

پاکستان

پاکستان: ’پیغمبرِ اسلام کی بے حرمتی کسی صورت قبول نہیں‘

پاکستان کے کئی شہروں میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے جس میں صدر میکخواں کے پوسٹرز جلائے جارہے ہیں اور سوشل میڈیا پر فرانسیسی اشیا کے بائیکاٹ کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔

پاکستانی ٹویٹر پر گذشتہ 48 گھنٹوں سے فرانس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے اور #MacronApologizeToMuslims ٹرینڈ کرتے نظر آ رہے ہیں۔

پاکستان کی وفاقی کابینہ نے گستاخانہ خاکوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس حوالے سے مسلمانوں کے جذبات کی موثر نمائندگی کے لیے ہر دستیاب فورم استعمال کرنے کا اعادہ کیا ہے۔

ریڈیو پاکستان کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیرِ صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت اور صدر ایمانوئیل میکخواں کی جانب سے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی بھی شدید مذمت کی گئی۔

اجلاس میں پاکستانی قوم اور اُمت مسلمہ کے جذبات اسلامی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم کے ذریعے دنیا تک پہنچانے کا فیصلہ کیا گیا۔

دوسری جانب پاکستان کے دیگر سیاسی رہنماؤں کی جانب سے بھی صدر میکخواں پر کڑی تنقید کی گئی ہے اور الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ ‘مذہبی آزادی’ کی عزت نہیں کرتے اور ان کے باعث فرانس کے لاکھوں مسلمان پسماندگی کا شکار ہو گئے ہیں۔

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے صدر مسعود خان نے بھی صدر میکخواں کے الفاظ کی مذمت کرتے ہوئے ٹویٹ کیا ’ہم ان کے گستاخانہ الفاظ اور ان کے پیچھے ذہنیت کی مذمت کرتے ہیں۔ فرانس کو دوسری عالمی جنگ کے دوران ایسی ہی ذہنیت کا سامنارہا تھا۔ اب وہ دوسروں کو وہی چوٹ کیوں پہنچا رہا ہے؟‘

ڈھاکہ

ڈھاکہ میں کیا ہو رہا ہے؟

بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں ہزاروں لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر مظاہرے کیے ہیں جن میں ان کا مطالبہ تھاکہ فرانس کی جانب سے سخت گیر اسلامی عناصر کے خلاف موقف اپنانے پر فرانسیسی اشیا کا بائیکاٹ کر دیا جائے۔

مظاہرین نے صدر میکخواں کا پتلہ بھی جلایا۔ تاہم مقامی پولیس نے مظاہرین کو فرانسیسی سفارتخانے تک پہنچنے نہیں دیا۔

پولیس کے اندازوں کے مطابق تقریباً 40000 افراد نے مظاہروں میں حصہ لیا ہے جو کہ بنگلہ دیش کی بڑی ترین اسلام پسند سیاسی جماعتوں میں سے ایک اسلامی اندولان بنگلہ دیش نے منعقد کیے تھے۔

مظاہرین نے فرانسیسی اشیا کے بائیکاٹ اور فرانسیسی صدر کو سزا دینے کے حق میں نعرے بازی کی۔

اسلامی اندولان بنگلہ دیش کے رہنما عطا الرحمان نے اپنی تقریر میں کہا کہ فرانسیسی ان چند رہنماؤں میں سے ایک ہیں جو شیطان کی عبادت کرتے ہیں۔ انھوں نے بنگلہ دیشی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کر دیں۔

ایک اور رہنما نصار الدین نے کہا کہ „فرانس مسلمانوں کا دشمن ملک ہے۔ جو ان کی نمائندگی کرتے ہیں وہ بھی ہمارے دشمن ہیں۔‘

غزہ

دیگر مسلم ممالک میں کیا ہو رہا ہے؟

ترکی، پاکستان اور بنگلہ دیش کے علاوہ ایران، اردن اور کویت ان اسلامی ممالک میں شامل ہیں جن میں پیغمبرِ اسلام کے بارے میں توہین آمیز خاکوں اور صدر میکخواں کے بیان پر کڑی تنقید کی گئی ہے۔

قطر میں ایک بڑی تجارتی یونین نے اعلان کیا ہے کہ وہ مستقبل قریب میں اپنی دکانوں سے فرانسیسی مصنوعات کو ہٹا رہے ہیں۔ غیرسرکاری یونین آف کنزیومر کوآپریٹو سوسائٹیز کا کہنا ہے کہ انھوں نے یہ احکامات پیغمبرِ اسلام کی ‘مسلسل توہین’ کے بعد دیے ہیں۔

اردن، قطر اور کویت میں کچھ سپر مارکیٹس سے فرانسیسی مصنوعات کو پہلے ہی ہٹا دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر فرانس میں بننے والی بالوں اور خوبصورتی سے متعلق مصنوعات سٹورز میں نظر نہیں آ رہیں۔

اس کے علاوہ قطر یونیورسٹی میں فرینچ کلچرل ویک بھی ملتوی کردیا گیا ہے۔

فرانس کے صدر کے بیانات کے بعد لیبیا، شام اور غزہ کی پٹی پر احتجاج بھی کیا گیا ہے۔

عرب دنیا کی سب سے بڑی معیشت سعودی عرب میں فرانسیسی سپرمارکیٹ چین کیریفور کے بائیکاٹ سے متعلق ہیش ٹیگ دوسرے نمبر پر ٹرینڈ کرتا رہا۔ دریں اثنا لیبیا، غزہ اور شمالی شام میں فرانس مخالف مظاہروں کا انعقاد بھی ہوا۔ ان تمام ممالک میں ترکی کی حمایت یافتہ ملیشیا بااثر ہیں۔

عمان

اس سب کے پیچھے کیا وجہ ہے؟

رواں ماہ میکخواں نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اسلام پوری دنیا میں ‘بحران کا مذہب’ بن گیا ہے اور ان کی حکومت دسمبر میں مذہب اور ریاست کو الگ کرنے والے 1905 کے قوانین کو مزید مضبوط کرے گی۔

اس سے قبل سیموئل پیٹی نامی ٹیچر نے اپنے طالب علموں کو پیغمبرِ اسلام سے متعلق خاکے دکھائے تھے جس کے بعد انھیں قتل کر دیا گیا۔

اس کے بعد فرانس کی حکومت نے پیرس میں اس مسجد کو بند کر نے کا حکم دیا ہے جہاں سے جمعے کو ہلاک کیے جانے والے استاد سے متعلق ویڈیوز سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی تھیں۔

سیموئل پیٹی کے قتل کے لرزہ خیز واقعے نے فرانس میں لوگوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اتوار کو لاکھوں لوگوں نے آزادیِ اظہار اور ٹیچر کے حق میں اور خلاف ریلیاں نکالیں۔

انسداد دہشت گردی کے حکومتی وکیل ژان فراسو رچرڈ نے کہا ہے کہ پیٹی کو اس وقت سے دھمکیاں مل رہی تھیں جب انہوں نے آزادی اظہار کے بارے میں اپنی کلاس میں متنازع خاکے دکھائے تھے۔

مظاہرہ

پیٹی تاریخ اور جغرافیہ کے استاد تھے۔ انھوں نے حالیہ برسوں میں کئی کلاسوں میں اپنے شاگردوں کو یہ خاکے دکھائے اور مسلمان طالب علموں سے وہ یہ ہی کہتے تھے کہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ یہ خاکے ان کے لیے ناقابل برداشت یا اشتعال انگیز ہیں تو وہ انھیں نہ دیکھیں اور اپنے نظریں پھیر لیں۔

مسلمانوں کے عقائد کے مطابق پیغمبر اسلام کا کسی قسم کا عکس یا تصویر ممنوع ہے اور اس کو انتہائی قابل مذمت سمجھا جاتا ہے۔

فرانس میں یہ معاملہ طنزیہ جریدے چارلی ایبڈو میں خاکے شائع کیے جانے کے بعد انتہائی سنگین صورت حال اختیار کر گیا تھا۔

ملک میں یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب 2015 میں چارلی ایبڈو کے دفتر پر حملے میں دو افراد کی سہولت کاری کے الزام میں 14 افراد پر مقدمہ چل رہا ہے۔ اس واقعے میں 12 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

فرانس میں مغربی یورپ کی سب سے بڑی مسلمان آبادی ہے اور ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت سیکیولر ازم کو ہتھیار بنا کر انھیں نشانہ بناتی ہے۔

پیر کے روز ایک ٹوئیٹ میں فرانسیسی صدر نے کہا فرانس اس حوالے سے کبھی ہار نہیں مانے گا مگر امن کے لیے وہ تمام مذاہب کے مختلف خیالات کی عزت کرتے ہیں۔

فرانسیسی حکومت کی جانب سے ایک بیان میں بائیکاٹ کی اپیلوں کی بھی تنقید کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ فرانس میں آزادیِ اظہارِ رائے اور صدر کے بیان کو سیاسی مقاصد کے لیے موڑ توڑ کر پیش کرتی ہیں۔