بابری مسجد شہادت کیس:عدالتی فیصلہ ہندوازم اور ہندوﺅں کی فتح ہے. آرایس ایس

بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ کا فیصلے کا خیر مقدم‘ملزمان کی بریت کو انصاف کی جیت قراردیا

لکھنو بابری مسجد کی شہادت کے حوالے سے خصوصی عدالت کے فیصلے کو انتہا پسند وں نے ہندو از م اور ہندوﺅں کی فتح قراردیا ہے فیصلے کے بعد بری ہونے والے ملزمان نے عدالت کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بری ہونے والے ملزم اور آرایس ایس کے مرکزی راہنما ایل کے ایڈوانی کے وکیل ومل سریواستو نے فیصلے کے بعد کہا کہ تمام ملزموں کو بری کر دیا گیا ہے اتنے شواہد موجود نہیں تھے کہ الزمات ثابت ہو سکتے.
اسی مقدمے میں دوسرے ملزم جے بھگوان گویل نے کہا کہ ہم نے مسجد کو توڑا تھا ہمارے اندر سخت غصہ تھا ہر کارسیوک کے اندر ہنومان جی سما گئے تھے ہم نے مسجد توڑی تھی اگر عدالت سے سزا ملتی تو ہم خوشی سے اس سزا کو قبول کر لیتے عدالت نے سزا نہیں دی یہ ہندو مذہب کی فتح ہے ہندو قوم کی فتح ہے. دوسری جانب بابری مسجد اراضی مقدمے میں ایک فریق ہاشم انصاری کے بیٹے اقبال انصاری نے کہا ہم قانون کی پاسداری کرنے والے مسلمان ہیں اچھا ہے اگر عدالت نے بری کر دیا ہے تو ٹھیک ہے کیس بہت طویل عرصے سے التوا میں تھا اب ختم ہوگیا ہے اچھا ہوا ہم چاہتے تھے کہ اس کا جلد فیصلہ ہوجائے ہم عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں.بھارت کے مرکزی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے اپنے ایک ٹویٹ میں فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے اور لکھا کہ دیر سے ہی سہی انصاف کی جیت ہوئی‘انہوں نے لکھا کہ بابری مسجد انہدام کیس میں لکھنوکی خصوصی عدالت کے ذریعے مسٹر ایل کے ایڈوانی، مسٹر کلیان سنگھ، ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی، اما جی سمیت 32 افراد کے کسی بھی سازش میں شامل نہ ہونے کے فیصلے کا خیرمقدم کرتا ہوں اس فیصلے سے ثابت ہوا ہے کہ دیر سے ہی سہی انصاف کی جیت ہوئی ہے.ایودھیا کی تاریخی بابری مسجد کے دو مقدمے عدالت میں زیر سماعت تھے ایک مقدمہ زمین کی ملکیت کا تھا جس کا فیصلہ سپریم کورٹ نے گذشتہ برس نومبر سناتے ہوئے یہ قرار دیا کہ وہ زمین جہاں بابری مسجد تھی وہ مندر کی زمین تھی اسی مقام پر دو مہینے قبل وزیراعظم نریندر مودی نے ایک پرشکوہ تقریب میں رام مندر کا سنگ بنیاد رکھا تھا. دوسرا مقدمہ بابری مسجد کے انہدام کا ہے 6 دسمبر 1992 کو ایک بڑے ہجوم نے بابری مسجد کو شہید کر دیا تھا یہ مسجد پانچ سو برس قبل بھارت کے پہلے مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر کے دور میں تعمیر کی گئی تھی ہندو کارسیوکوں کا ماننا ہے کہ یہ مسجد ان کے بھگوان رام چندر کے جائے پیدائش کے مقام پر تعمیر کی گئی تھی.بابری مسجد کے انہدام کے بعد ایودھیا کی انتظامیہ نے دو مقدمے درج کیے تھے ایک مقدمہ مسجد پر یلغار کرنے والے ہزاروں نامعلوم ہندوانتہاءپسندوں کے خلاف درج ہوا تھا اور دوسرا مقدمہ انہدام کی سازش کے بارے میں تھا اس مقدمے میں ایل کے اڈوانی، جوشی، اوما بھارتی، سادھوی رتھمبرا اور وشو ہندو پریشد کے کئی رہنما اور ایودھیا کے کئی مہنت ملزم بنائے گئے.ابتدائی طور پر 48 لوگوں کے خلاف فرد جرم عائد کی گئی تھی تین عشروں سے جاری اس کیس کی سماعت کے دوران 16 ملزمان انتقال بھی کر چکے ہیں‘بابری مسجد کے انہدام کے یہ دونوں مقدمے پہلے رائے بریلی اور لکھنوکی دو عدالتوں میں چلائے گئے مگر بعد میں انھیں سپریم کورٹ کے حکم پر یکجا کر دیا گیا اور ان کی سماعت لکھنوکی سیشن اور ضلعی عدالت میں مکمل کی گئی.تقتیش اور مقدمے کی سماعت کے دوران ایسا بھی مرحلہ آیا تھا جب تفتیشی بیورو نے ایڈوانی، جوشی اور دوسرے سینیئر راہنماﺅں کے خلاف انہدام کی سازش کا مقدمہ واپس لے لیا تھا لیکن بعد میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد اسے دوبارہ بحال کیا گیا‘اس مقدمے میں ملزمان کے خلاف سی بی آئی کی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے 500 سالہ تاریخی بابری مسجد کو گرانے کی سازش تیار کی اور ہندو کارسیوکوں کو مسجد کے انہدام کے لیے مشتعل کیا جبکہ اپنے دفاع میں ملزمان کی دلیل ہے کہ انھیں قصوروار ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہیں ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ انہدام کے وقت دلی میں برسر برقتدار کانگریس کی حکومت نے سیاسی انتقام کے طور پر انھیں اس مقدمے میں شامل کیا.