امراللہ صالح: کابل میں افغانستان کے نائب صدر کے قافلے پر حملہ، کم از کم دس افراد ہلاک

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ملک کے پہلے نائب صدر امراللہ صالح کو نشانہ بنانے والے ایک دھماکے میں کم از کم 10 افراد ہلاک ہوگئے ہیں تاہم امراللہ صالح کو صرف معمولی چوٹیں آئی ہیں۔

بی بی سی کے سکندر کرمانی کے مطابق افغان ٹی وی پر نشر ہونے والی فوٹیج میں جائے وقوعہ سے کالا دھواں اٹھتا ہوا دیحکھا جا سکتا تھا۔ حملے کا ہدف امراللہ صالح کا قافلہ تھا جو اس وقت وہاں سے گزر رہا تھا۔

حملے کے بعد جاری ہونے والے ایک بیان میں افغان نائب صدر نے کہا کہ ان کا ایک ہاتھ جلا ہے۔ صالح، جو کہ طالبان کے خلاف بڑھ چڑھ کر بولتے رہے ہیں، نے اسی پیغام میں اپنے سیاسی کام جاری رکھنے کا عہد کیا۔

اگرچہ طالبان نے کہا ہے کہ ان کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ حملہ ایک ایتسے وقت ہوا ہے جب افغان حکومت اور طالبان بلآخر مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے قریب ہیں۔ اب تک کسی بھی گروہ نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

حملے کے تقریبا دو گھنٹے بعد جاری ہونے والے ویڈیو پیغام میں امراللہ صالح نے کہا کہ اس واقعے میں ان کے متعدد محافظ زخمی ہوگئے ہیں اور انھیں نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی ہسپتال لایا گیا ہے۔

’مجھے اور میرے بیٹے عباد اللہ جان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا، لیکن میرا چہرہ اور بازو زخمی ہوئے ہیں۔‘

کابل

انھوں نے بتایا کہ جہاں حملہ ہوا وہاں سڑک تنگ تھی اور بہت سے لوگوں حملے کی وجہ سے کو جانی اور مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

افغانستان کی وزارت داخلہ کے ترجمان نے بتایا کہ اس حملے میں امراللہ صالح کے محافظوں سمیت 10 شہری ہلاک اور نو زخمی ہوگئے۔

حملے پر ردعمل

افغان صدر محمد اشرف غنی نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے واقعے کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے جبکہ افغانستان کے دوسرے نائب صدر سرور دانش نے بھی حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک ایسے وقت جب سب ہی طالبان اور حکومت کے مابین امن مذاکرات کے آغاز کے منتظر ہیں، نائب صدر پر دہشت گرد حملہ امن مذاکرات کی واضح خلاف ورزی ہے۔

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 1

Twitter پوسٹ کا اختتام, 1

پاکستان کے دفتر خارجہ اور پاکستانی قانون ساز محسن داوڑ نے بھی اپنی ٹویٹس میں اس حملے کی مذمت کی۔

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 2

Twitter پوسٹ کا اختتام, 2

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 3

Twitter پوسٹ کا اختتام, 3

منگل کو شمالی اتحاد کے کمانڈر احمد شاہ مسعود کی برسی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے امر اللہ صالح نے کہا تھا ’امن مذاکرات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ افغان حکومت یا طالبان ایک دوسرے کے سامنے ہتھیار ڈال دیں گے۔‘

صالح نے گذشتہ اتوار کو ایک ٹی وی انٹرویو میں ڈیورنڈ لائن کے بارے میں بھی بات کی تھی۔

وہ اس سے قبل افغانستان کے وزیر داخلہ اور قومی سلامتی کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔

صالح کے دفتر پر پانچ جولائی کو بھی حملہ کیا گیا تھا۔ اُس وقت وہ افغانستان کے پہلا نائب صدر منتخب ہوئے تھے۔