‘میں کشمیریوں کا غم کینوس پر اتارتا ہوں’

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے 28 سالہ مدثر رحمان ڈار تجریدی مصوری پر مبنی اپنے فن پاروں کی مدد سے وادی کشمیر اور اس کے باسیوں کے درد و غم کی ترجمانی کر رہے ہیں۔

مدثر نے مصوری کا یہ سلسلہ 2016 سے جاری رکھا ہوا ہے۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے جنوبی ضلع کولگام سے تعلق رکھنے والے 28 سالہ مدثر رحمان ڈار پیشے کے اعتبار سے رنگ ساز لیکن شوقیہ طور پر مصور ہیں۔

مدثر نے تجریدی مصوری یا ایبسٹریکٹ آرٹ کے ذریعے کشمیریوں کے درد و کرب کو کینوس پر اتارنے کا سلسلہ 2016 سے جاری رکھا ہوا ہے۔

ضلع کولگام میں اپنے آبائی گاؤں کلپورہ میں اپنی منفرد مصوری کے علاوہ خوش اخلاقی اور نرم مزاجی کے لیے مشہور مدثر رحمان نے صرف ہائر سیکنڈری سطح تک تعلیم حاصل کی ہے جبکہ مصوری کا فن بھی انہوں نے کسی سکول یا تربیت گاہ سے نہیں بلکہ رنگوں کے ساتھ کھیلتے کھیلتے خود ہی سیکھا ہے۔

مدثر رحمان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا: ‘میں ایک عام کشمیری ہوں۔ وہ کشمیری جس کے اپنے جذبات و احساسات ہیں۔ میں اپنے لوگوں کے غم کو محسوس کرنے کی قوت رکھتا ہوں اور اس کو کینوس پر اتارنے کی کوشش کرتا ہوں۔’

ان کا مزید کہنا تھا: ‘مجھ سے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ آپ مشہور شخصیات کے پورٹریٹ بنائیں، اس سے آپ کو بہت شہرت ملے گی۔ لیکن سچ بولوں تو میرا اندر کا درد مجھے وہ سب کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔’

مدثر رحمان کا کہنا ہے کہ کشمیر جیسے خطے میں آزادانہ مصوری کرنا آسان کام نہیں ہے کیونکہ ہمیشہ یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ کچھ حلقوں سے دباؤ آئے گا۔

ساتھ ہی انہوں نے بتایا: ‘جتنا کھل کر مجھے اپنا کام کرنا چاہیے تھا میں نہیں کر پاتا ہوں۔ کسی بھی پینٹنگ پر کام کرنے سے پہلے میرے ذہن میں یہ بات آجاتی ہے کہ میں کشمیر میں رہتا ہوں۔ میری فیملی ہے۔ مختصراً یہ کہ یہاں ایک مصور کے لیے حقیقی صورت حال کو کھل کر پیش کرنا بہت مشکل ہے۔’


تجریدی مصوری ہی کیوں؟

اس حوالے سے مدثر نے بتایا: ‘2016 میں، میں نے ایک پورٹریٹ بنایا تھا، جو وائرل ہوتے ہی مجھ پر کچھ حلقوں کی جانب سے دباؤ آنا شروع ہوگیا، جس کے بعد میں نے حقیقت پسندانہ مصوری کو چھوڑ کر تجریدی مصوری شروع کردی۔ مقصد یہ تھا کہ کیوں نہ معاملات کو کھلم کھلا پیش کرنے کی بجائے تجریدی طریقے سے پیش کیا جائے۔’

واضح رہے کہ 2016 میں کشمیر میں حزب المجاہدین کے معروف نوجوان کمانڈر برہان مظفر وانی کی ہلاکت کا واقعہ پیش آیا تھا، جس کے بعد یہاں کئی مہینوں تک احتجاجی مظاہروں اور ہڑتال کا سلسلہ جاری رہا تھا۔

مدثر کے بقول: ‘حقیقت پسندانہ اور تجریدی مصوری میں بہت فرق ہے۔ تجریدی مصوری کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ آسمان رو رہا ہے۔ ایک حقیقت پسندانہ مصور کے لیے یہ دکھانا مشکل ہے لیکن تجریدی مصور مختلف رنگوں کا استعمال کر کے اس کو بہت اچھے انداز میں دکھا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں تجریدی مصوری کو بہت پسند کرتا ہوں۔’

مدثر کے تجریدی فن پاروں کو سوشل میڈیا پر کافی سراہا جارہا ہے۔

انہوں نے بتایا: ‘حال ہی میں سوپور میں نانا کی لاش پر بیٹھے ایک بچے کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ میں نے بھی اس پر ایک تجریدی فن پارہ بنایا اور یہ دکھانے کی کوشش کی کہ اگر کشمیر کے حالات کو دنیا نے نظر انداز نہ کیا ہوتا تو ایسے دلخراش واقعات پیش نہ آتے۔’

مصوری کا سفر

مدثر نے بتایا کہ زمانہ طالب علمی میں انہوں نے مصوری کے کچھ مقابلوں میں حصہ لیا، جن میں ملنے والی پذیرائی نے انہیں اس فن کا شوقین بنا دیا۔

‘میں نے مصوری کسی سکول یا تربیت گاہ سے نہیں سیکھی ہے۔ سچ بولوں تو مجھے بالکل بھی اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ مصوری سیکھنے کا بھی کوئی باضابطہ سکول ہوتا ہے۔ بچپن سے ہی رنگوں سے کھیلنے کا شوق تھا جس نے مجھے مصور بنا دیا۔ میں  جتنے بھی نامور مصوروں سے ملا ہوں، سب نے مجھے کہا کہ آپ کے آرٹ میں نیچرل ٹچ ہے۔ یہ سچ بھی ہے کیونکہ میں جب بھی کوئی فن پارہ بناتا ہوں تو  اس سوچ میں ڈوب جاتا ہوں کہ یہ اتنا اچھا کیسے بن گیا۔’

مدثر نے بتایا کہ ‘میرے فن پارے دیکھنے والے لوگ مجھے مشورہ دیتے تھے کہ آپ کو کسی آرٹ سکول میں داخلہ لینا چاہیے لیکن چونکہ گھر کے مالی وسائل محدود تھے اس لیے میں ایسا نہیں کر پایا۔’


مدثر کو کئی ایک ایوارڈ مل چکے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ مقامی لوگوں کی تعریف ہی ان کے لیے سب سے بڑا ایوارڈ ہے۔

انہوں نے بتایا: ‘2017 میں جموں و کشمیر حکومت نے مجھے ‘آرٹسٹ آف دی ڈسٹرکٹ’ کے اعزاز سے نوازا۔ ساتھ ہی مجھے ضلع میں مصوری کا شوق اور صلاحیت رکھنے والے بچوں کو ڈھونڈنے اور مصوری سکھانے کی ذمہ داری بھی سونپی گئی۔’

ان کا مزید کہنا تھا: ‘حال ہی میں پنجاب کی چٹکارا یونیورسٹی نے مجھے کرونا وائرس پر ایک تجریدی فن پارہ بنانے پر ایوارڈ سے نوازا ہے، جس میں، میں نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ 2019 کا انسان ایک معمول کی زندگی گزار رہا تھا لیکن اسی انسان کے سر پر 2020 میں کرونا وائرس سوار ہے اور مسلسل ماسک پہننے کی وجہ سے اس کے کان جھک چکے ہیں۔’

بقول مدثر: ‘میرے فن پارے ورلڈ ورچول میوزیم کی ویب سائٹ پر بھی شائع ہوئے ہیں۔ اسی ادارے نے حال ہی میں کرونا کے متعلق ایک آن لائن نمائش کا انعقاد کیا جس میں، میں نے بھی حصہ لیا۔’

‘رنگ سازی میرا پیشہ ہے’

مدثر رحمان کی شادی 2014 میں ہوئی ہے اور ان کی دو بیٹیاں ہیں۔ گھر میں معمر والدین ہیں اور وہ اپنے کنبے کی کفالت کرنے کے لیے رنگ سازی کا کام کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا: ‘ہر انسان کو اپنے کنبے کی کفالت کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ میں رنگ سازی کا کام کرتا ہوں۔ بہت لوگ مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ آپ رنگ سازی کا کام کیوں کرتے ہیں۔ میرا جواب ہوتا ہے کہ رنگ سازی میرا پیشہ اور مصوری میرا شوق ہے، مگر مجھے معلوم ہے کہ جب میں اس دنیا سے چلا جاؤں گا تو لوگ مجھے اپنی مصوری کی وجہ سے ہی یاد رکھیں گے۔’

انہوں نے مزید بتایا: ‘میں پڑھائی میں کم ہی دلچسپی لیتا تھا۔ اس معاملے میں میں رابندر ناتھ ٹیگور سے بھی دو قدم پیچھے ہی تھا۔ میں نے میٹرک پاس کرنے کے بعد پڑھائی چھوڑ دی۔ ایک تو میری پڑھائی میں دلچسپی کم تھی اور دوسرا گھر کے خرچے پورے نہیں ہو رہے تھے، جس کی وجہ سے مجھے پڑھائی ترک کرنے کا فیصلہ لینے میں وقت نہیں لگا۔’

مدثر کا مزید کہنا تھا: ‘ایک آرٹسٹ کی زندگی آسان نہیں ہوتی ہے۔ کشمیر جیسی جگہ پر آرٹسٹوں کی حکومتی سطح پر کوئی مدد نہیں کی جاتی ہے۔ وہ آرٹسٹ جو حالات کو دکھانے کی کوشش کرتے ہیں ان کے لیے تو حکومتی دروازے مکمل طور پر بند ہیں۔’