ریورس سوئنگ: دنیائے کرکٹ کا ’کالا جادو‘

گزشتہ دنوں انگلش بولر ڈام سیبلی، آئی سی سی کے بال کو تھوک لگانے پر پابندی کی خلاف ورزی کرنے والے پہلے کھلاڑی بنے ہیں۔

یہ واقعہ انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کے درمیان جاری ٹیسٹ سیریز میں دوسرے ٹیسٹ کے چوتھے روز پیش آیا جب ڈام نے فیلڈنگ کے دوران غیر دانستہ طور پر گیند کو چمکانے کے لیے تھوک کا استعمال کیا۔

انھیں جب کچھ دیر بعد اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انگلینڈ کی ٹیم نے خود جا کر ایمپائر کو اس غلطی سے آگاہ کیا اور ایمپائر نے گیند فوری طور پر ڈس انفیکٹ کی۔

واضح رہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے آئی سی سی نے گیند کو تھوک لگانے پر عارضی پابندی عائد کر رکھی ہے۔ آئی سی سی کے اس نئے قانون کی پابندی تو ہو رہی ہے لیکن اس طرح کے واقعات میں نہ چاہتے ہوئے بھی اضافہ دیکھا جا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

اس کی بڑی وجہ ’مسل میموری‘ ہے۔ یہ وہ چیز ہوتی ہے جسے ہم برسوں سے کرتے آ رہے ہوتے ہیں اور اسے بار بار کرنے کی وجہ سے ہمیں اس کو کرتے وقت زیادہ سوچنا نہیں پڑتا۔ مثال کہ طور پر اگر آپ 10 سال سے گاڑی چلا رہے ہیں تو گیر بدلتے وقت آپ کا پاؤں خود بخود کلچ کی طرف کو جائے گا۔

اسی طرح کھیل کے دوران کسی بھی فیلڈر یا بولر کی طرف گیند جاتی ہے تو وہ اکثر اسے تھوک کے ذریعے چمکا کر بولر یا وکٹ کیپر کو واپس کرتے ہیں۔ یہ سب جتن سوئنگ یا ریورس سوئنگ کے لیے کیا جاتا ہے۔ جسے کھیل کے ماہرین اور مداح ’دی ڈارک آرٹ آف کرکٹ‘ یعنی ’کرکٹ کا کالا جادو‘ بھی کہتے ہیں۔

سوئنگ

گیند کو تھوک کیوں لگائی جاتی ہے؟

کرکٹ میں گیند کے ایک حصے کو پسینے یا تھوک لگانے کے پیچھے وجہ گیند کے ایک حصے کو چمکتا ہوا اور بھاری رکھنا ہوتا ہے۔ بہت اوورز تک اس طرح کرتے رہنے سے گیند کا ایک حصہ کھردرا اور دوسرا چمک جاتا ہے یعنی ایک حصہ دوسرے حصے سے ذرا بھاری ہوجائے گا اس سے گیند کو ہوا میں لہرانے میں مدد ملتی ہے جسے کرکٹ کی زبان میں سوئنگ کہتے ہیں۔

اس سے بالرز کو نہ صرف عام سوئنگ بلکہ آخری کے اوورز میں ریورس سوئنگ اور لیٹ سوئنگ میں بھی مدد ملتی ہے۔

جیسے آف سپن بالر کے لیے دوسرا کرنا نہایت مشکل ہوتا ہے، اسی طرح کسی بھی فاسٹ بولر کے لیے ریورس سوئنگ پر عبور حاصل کرنا کھیل کے مشکل ترین پہلؤوں میں سے ایک ہے۔

لیٹ سوئنگ، ریورس سوئنگ اور عام سوئنگ تینوں ہی گیند کی سیم یا سلائی کی گرپ پر منحصر ہیں۔

سوئنگ کی تمام اقسام میں مشترکہ پہلو گیند کے ایک حصے کو تھوک یا پپسینے سے چمکاتے رہنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر اوقات کھلاڑیوں نے گیند کے ایک حصے کو چمکانے کے محنت طلب طویل عمل کے بجائے گیند کے دوسرے حصے کو فوری طور پر کھردرا کرنے کی کوشش کی جو کہ کھیل کے قوانین کے خلاف ہے اور اسے بال ٹیمپرنگ کہا جاتا ہے۔

ریورس سوئنگ

اسی طریقے سے سوئنگ حاصل کرنے کی وجہ سے دنیا نے 2018 میں آسٹرلیا میں کرکٹ کا سب سے بڑا بال ٹیمپیرنگ سکینڈل دیکھا۔ آسٹریلوی بلے باز کیمرون بینکرافٹ نے گیند پر سینڈ پیپر یا ریگ مال استعمال کیا جسے ٹیلی وژن کیمروں نے پکڑ لیا۔

اسی کی ایک اور مثال پاکستانی کرکٹر اور سابق کپتان شاہد آفریدی کی ہے جب انھوں نے گیند کو چبا کر اس کی سیم کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تھی۔

’پاکستانی پسنیے میں کچھ خاص بات ہے‘

تھوک سے گیند کو چمکا کر سوئنگ حاصل کرنے کا عمل اتنا پر اثر ہے کہ دو کھلاڑیوں نے اسی اور نوے کی دہائی میں بلے بازوں کو خوف اور مکمل کنٹرول میں رکھا۔

وسیم اکرم اور وقار یونس نے ریورس سوئنگ کے اس فن کو پوشیدہ بھی رکھا اور یہ دونوں کھلاڑی اس سے اس لیے بھی زیادہ فائدہ اٹھاتے تھے کیونکہ دونوں ہی تیز گیند کراتے تھے اور انھیں مختلف قسم کی سوئنگ کرنے کے لیے گیند کی پکڑ پر جو مہارت درکار ہوتی ہے، وہ حاصل تھی۔

یہی وجہ ہے کہ اپنے کیریئر کے دوسرے حصے میں وسیم اکرم اور وقار یونس اپنی گیند کی گرِپ کو بھاگتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے چھپاتے تھے۔

بینکروفٹ

،تصویر کا کیپشنبینکروفٹ نے پیلے رنگ کی ٹیپ انڈرویئر کے اندر چھپانے کی کوشش کی

بلے بازوں نے ان کی سوئنگ بولنگ کو سمجھنے کے لیے ان کی ویڈیوز دیکھ کر ان کی گرپ سے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ آنے والی گیند اندر آئے گی یا باہر جائے گی لیکن دونوں بولروں کی جانب سے اپنی گرپ کو چھپانے کی وجہ سے یہ تجزیے کامیاب نہیں ہو سکے۔

وقار یونس نے جب 90 میل فی گھنٹہ کی سپیڈ پر گیند ریورس کرنا شروع کی تو انگلش اور آسٹریلین کرکٹ ماہرین کی طرف سے ان پر اور وسیم اکرم پر بال ٹیمپرنگ کے الزامات لگتے رہے جو کہ کبھی بھی ثابت نہیں ہوئے۔

پسینے اور تھوک سے گیند کے ایک حصے کو چمکاتے رہنا پوری ٹیم کی ذمہ داری تھی تاکہ وسیم اور وقار ریورس سوئنگ سے فائدہ اٹھا سکیں۔

حالانکہ ریورس سوئنگ کے مؤجد فاسٹ بولر سرفراز نواز تصور کیے جاتے ہیں لیکن وسیم اکرم اور وقار یونس کی بولنگ اس فن کے ذریعے انتہائی تباہ کن ثابت ہوئی۔

مشہور انگلش کرکٹ صحافی مارٹن جانسن نے سنہ 1992 میں پاکستان کا دورہ کرنے کے بعد برطانوی اخبار دی انڈیپینڈنٹ میں لکھا ’میلکم مارشل کو چھوڑ کر سوائے وسیم اور وقار کے، ایسا کوئی فاسٹ بولر نہیں جو گیند کو پرانے ہونے کے بعد اتنا سوئنگ کر سکے۔ ایک خیال ہہ بھی ہے کہ پاکستانی پسنیے میں کچھ خاص بات ہے۔‘

سرفراز نواز

،تصویر کا کیپشنریورس سوئنگ کے مؤجد فاسٹ بولر سرفراز نواز تصور کیے جاتے ہیں

لیکن ریورس سوئنگ کا راز زیادہ عرصے تک پوشیدہ نہیں رہا اور اسے سمجھنے اور اسے کرنے کا عمل جاننے کے بعد اب سوئنگ کرنے کی کوشش ہر بولر کرتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ گیند کو چمکانا جدید کرکٹ کے دور میں اور بھی ضروری ہو گیا ہے۔

کئی بار دیکھا گیا ہے کہ کھلاڑی منہ میں میٹھی چیز چباتے ہوئے یا چوستے ہوئے گیند کو تھوک لگاتے ہیں۔ آئی سی سی کے قوانین کے تحت گیند کو ’میٹھی چیز‘ سے چمکانا کھیل کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میٹھی چیزوں میں ایسے اجزا ہوتے ہیں جو کہ گیند کی سطح پر لگنے کے بعد اس میں جذب ہو کر اس حصے کو زیادہ بھاری بناتے ہیں۔

انگلینڈ میں جہاں عموماً گرین اور تیز پچز بنائی جاتی ہیں وہیں بچوں کو شروع سے ہی گیند کو چمکانا سکھایا جاتا ہے۔ ایسا سکول اور یونیورسٹی لیول پر ہوتا ہے جہاں سے کھلاڑیوں کی ’مسل میموری‘ بنے اور ان کی کنڈشننگ ہو۔

میں نے جب یونیورسٹی آف شیفیلڈ میں اپنی تعلیم کے دوران کرکٹ کھیلی تو ہمارے یونیورسٹی کے کوچ پریکٹس میچ کے دوران فیلڈرز کو سختی سے تلقین کرتے کہ گیند غیر ضروری طور پر زمین پر نہیں لگنی چاہیے اور جب جب یہ کسی بھی فیلڈر کے ہاتھ میں آئے گی تب تب وہ اسے چمکا کر واپس کرے گا۔ وہ اس بارے میں اتنے سنجیدہ تھے کہ وہ اس کی خلاف ورزی پر کھلاڑی کو پریکٹس میچ سے باہر کر دیتے تھے۔

تھوک اور گیند کے ریورس ہونے کے بارے میں سائنس کیا کہتی ہے؟

برطانیہ میں باتھ یونیورسٹی نے اس سے متعلق ایک تحقیق کی۔ یونیورسٹی کے مکینیکل انجینیئرنگ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے کی جانے والے اس تحقیقی مضمون کا عنوان تھا ’پریکٹیکل پرسپیکٹیو آف کرکٹ سوئنگ بالنگ‘ یعنی کہ کرکٹ میں سوئنگ بالنگ کا عملی نقطہ نظر۔

بال

محققین نے نئی گیند سے لے کر 80 اوورز تک کھیلی گئی 9 مختلف گیندوں کا جائزہ لیا۔ اس میں بین الاقوامی میچز میں گیندیں فراہم کرنے والی کمپنیاں ڈیوکس اور کوکا بورا کی گیندیں استعمال کی گئیں۔

اس تحقیق میں یہ پتا چلا کہ عام گیند 25 اوورز پرانی ہونے کے بعد زیادہ سے زیادہ 75 میل فی گھنٹہ کی رفتار تک سوئنگ کرے گی۔ لیکن اگر منہ میں کوئی میٹھی چیز ہو جسے تھوک کے ساتھ ملا کر گیند کے ایک حصہ پر لگایا جاتا رہے تو گیند 90 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زیادہ پر بھی سوئنگ کر سکتی ہے۔

اس تحقیق میں یہ بھی کہا گیا کہ گیند اپنی اصل حالت میں تھوڑی بہت سوئنگ تو کرے گی لیکن ریورس سوئنگ صرف تب ہی کرے گی جب گیند کی رفتار 95 میل فی گھنٹہ یا اس سے اوپر ہو۔ یہی وجہ ہے کہ شعیب اختر، بریٹ لی اور ڈیل سٹین جیسے ایکسپریس پیس کی صلاحیت رکھنے والے کھلاڑی ابتدائی اوورز میں بلے بازوں کے لیے زیادہ خطرناک ہوتے تھے۔

لیکن کرکٹ کی بدلتی دنیا میں جہاں زیادہ سے زیادہ بولر سوئنگ بالنگ کر رہے ہیں وہیں اسے اب ایک ایسی صورتحال کا سامنا ہے جہاں یہ فن صرف ماضی کی ویڈیوز میں دیکھنے تک محدود ہو سکتا ہے۔

ٹی ٹوئنٹی کے بعد اب دی ہنڈرڈ بھی متعارف کروایا گیا ہے جس میں 10 اوورز کا میچ ہو گا اور ہر اوور میں 10 گیندیں۔ ایسے میں، مستقبل قریب میں بولرز کے لیے ریورس سوئنگ کرنا بہت زیادہ مشکل ہوتا جائے گا۔

گیند کے حوالے سے کرکٹ قوانین میں تبدیلی تو ممکن نہیں لیکن تیزی سے جدید کھیلوں کی صف میں اپنا نام لکھوانے کی کوشش میں شاید کرکٹ اپنی خوبصورتی اور بولنگ کے ایک آرٹ کو تاریخ کے پنوں میں ہی چھوڑ دے۔