انڈیا اور چین کی فوجوں کے درمیان لداخ میں جس دن بات چیت ہو رہی تھی اسی دن دوسری جانب وہاں کے مقامی لوگ کافی تناؤ کا شکار تھے۔

انھیں اس بات کا خوف ہے کہ اگر فریقوں کے مابین تناؤ بڑھتا ہے تو یہ اس وقت ختم ہو گا جب ان کی چراگاہیں چینی علاقے میں شامل کر لی جائيں گی۔

مبینہ طور پر پانچ مئی کے بعد سے لداخ کے بہت سے علاقوں میں انڈیا اور چین کی سکیورٹی فورسز آمنے سامنے ہیں۔

مشرقی لداخ میں تقریباً ایک ماہ سے جاری تناؤ کو ختم کرنے کے لیے فریقین کے مابین فوجوں میں اعلیٰ سطحی مذاکرات سنیچر کے روز ہوئے۔

اتوار کو انڈین وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کیا ہے کہ دونوں اطراف کے کمانڈر مشرقی لداخ کے موجودہ سرحدی امور کو دو طرفہ معاہدوں کی بنیاد پر پر امن طریقے سے حل کرنے کے لیے تیار ہیں۔

ایکچوئل لائن آف کنٹرول یعنی ایل اے سی

انڈیا کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے ایک ٹی وی چینل کو اپنے حالیہ انٹرویو میں کہا تھا کہ چینی فوجیوں نے علاقے میں بڑی تعمیرات کی ہیں اور انڈیا نے مناسب اقدامات اٹھائے ہیں۔

اس سے قبل ایل اے سی پر دونوں ممالک کے فوجیوں کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات آئی تھیں۔

انڈیا اور چین کے درمیان پینگونگ جھیل اور دریائے گالوان کے علاقوں میں سرحد کا کوئی تعین نہیں ہے۔ یہ جھیل لداخ خطے کے انتہائی سرد علاقے میں 4350 میٹر کی بلندی پر ہے۔

خبر رساں اداروں کے مطابق دونوں ممالک کے فوجیوں نے اس علاقے میں ڈیرہ ڈال رکھا ہے اور دونوں ایک دوسرے پر علاقے میں دراندازی کا الزام لگا رہے ہیں۔

لداخ

اس سب کا مقامی لوگوں کے لیے کیا مطلب ہے؟

انڈیا اور چین کے درمیان انتہائی طویل سرحد مشترک ہے اور دونوں فریق سرحد کے بہت سے علاقوں پر اپنا اپنا دعویٰ کرتے ہیں۔

انڈیا کے وزیر دفاع نے حالیہ انٹرویو میں کہا تھا کہ دونوں ممالک کی سرحد کے بارے میں مختلف خیالات ہیں اور انڈیا اور چین آمنے سامنے آتے رہے ہیں لیکن ان کا پر امن طریقے سے حل نکالا گیا ہے۔

ایل اے سی پر ناقص حد بندی لداخ میں دونوں ممالک کو علیحدہ کرتی ہے۔ دونوں ممالک کی سرحدوں کے درمیان دریا، جھیل اور برف پوش پہاڑ ہیں جو دونوں ممالک کے فوجیوں کو ایک دوسرے سے دور رکھتے ہیں لیکن یہ کہیں کہیں قریب بھی آ جاتے ہیں۔

مختلف ذرائع کے مطابق دونوں ممالک کے مابین موجودہ جھڑپ مشرقی لداخ میں وادی گالوان اور پینگونگ جھیل میں ہوئی ہے جس نے مقامی لوگوں کو اپنے مستقبل کے بارے میں خدشات میں ڈال دیا ہے۔

لداخ خود مختار ہلز ترقیاتی کونسل کے کونسلر اور تعلیم کے ایگزیکٹو کونسلر کونچوک اسٹینزن نے کہا: ’مجھے گاؤں کے بارے میں تشویش ہے کیونکہ ہمارے کچھ گاؤں اس جگہ سے دو تین کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں جہاں انڈیا اور چین کے درمیان تنازع ہوا ہے۔‘

گذشتہ ماہ میں ایل اے سی سے منسلک پورے علاقے میں انڈین سکیورٹی فورسز کی شدید نقل و حرکت دیکھی جا رہی ہے۔ ایل اے سی پر بیشتر مقامات پر سکیورٹی کے لیے صرف آئی ٹی بی پی کے اہلکار تعینات کیے جاتے ہیں۔

لیکن حالیہ تناؤ کے درمیان مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ انڈین فوج کو بھی وہاں تعینات کیا گیا ہے۔

لداخ

مقامی لوگوں میں خوف

کونچوک اسٹینزن کہتے ہیں: ’اس علاقے میں فوج کی بڑی نقل و حرکت سے مقامی لوگوں میں خوف کا ماحول ہے۔ سنہ 1962 کی جنگ کے بعد ہم نے ایسی صورتحال کبھی نہیں دیکھی تھی۔‘

اس علاقے کی سرپنچ سونم آنگچوک نے کہا: ’ہم اپنے گاؤں سے روزانہ سو سے دو سو گاڑیاں آتے جاتے دیکھ رہے ہیں۔ ہم فوجی گاڑیوں کی اس غیر معمولی نقل و حرکت کو دیکھ کر خوفزدہ ہیں۔‘

‘ہماری فوج اور چینی فوج کے مابین پہلے بھی تصادم ہوئے ہیں لیکن موجودہ صورتحال غیر معمولی معلوم ہوتی ہے۔‘

آنگچوک مان، پینگونگ اور فوبرانگ گاؤں کے سرپنچ ہیں۔ یہ گاؤں ایل اے سی کے بہت قریب ہیں۔

حال ہی میں مشرقی لداخ کے سرحدی گاؤں میں مقامی رکن پارلیمان جم یانگ سیرنگ نامگیال کے ہمراہ کونسلر کی ٹیم پہنچی تھی۔

تانگستے انتخابی حلقہ کے کونسلر تاشی یاکزی بھی اس گروپ کے ساتھ تھے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ’منیراک گاؤں پینگونگ جھیل کی فنگر 4 کے دوسری طرف ہے۔ گاؤں والے بہت خوفزدہ ہیں اور سرحد کے قریب ہونے کی وجہ سے انھیں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘

انھوں نے کہا: ’روزانہ کا کام اسی طرح جاری ہے لیکن اس نے لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کیا ہے۔ پہلے کورونا وائرس، اب چینی حملہ اور اس پر بھی کوئی بات چیت نہیں۔ اس سے مقامی لوگوں میں خوف بڑھ رہا ہے۔ روزمرہ کا کام جاری ہے لیکن ذہنی طور پر وہ خوف اور بے چینی کے سائے میں ہیں۔‘

انڈیا چین

جانوروں کی چرا گاہ پر چین کا قبضہ

وادی گالوان میں ایل اے سی کے قریب بسنے والے زیادہ تر مقامی افراد کا تعلق خانہ بدوش طبقوں سے ہے جو اپنے جانوروں پر انحصار کرتے ہیں۔

لداخ کو سرد ریگستان کہا جاتا ہے جہاں عام حالات میں بھی جانوروں کے لیے چارہ تلاش کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ یہ خانہ بدوش ان چراگاہوں پر منحصر ہیں جہاں دونوں ممالک کے مابین تنازع ہے۔

ان لوگوں کو خوف ہے کہ ان کے جانوروں کی چراگاہیں کم ہو رہی ہیں کیونکہ چینی ہر سال اس پر قابض ہوتے جا رہے ہیں۔

کونچوک اسٹینزن نے کہا: ’ہماری چراگاہ کے بیشتر علاقوں پر چینیوں کا قبضہ ہو چکا ہے اور خدشہ ہے کہ وہ دوسرے علاقوں پر قبضہ کرلیں گے۔ اگر جانوروں کی یہ چراگاہیں چلی گئیں تو ہماری تو لائف لائن ہی چلی جائے گی۔ پھر ہمارے یہاں رہنے کی کوئی وجہ نہیں بچتی۔‘

لیہ میں لداخ خودمختار پہاڑی ترقیاتی کونسل کے کورزوک علاقے کے کونسلر گرمیٹ ڈورجی کا کہنا ہے کہ ’پہلے یہ قبضہ انچ یا فٹ میں ہوتا تھا لیکن اب یہ کلومیٹر میں ہونے لگا ہے۔ ہمارے لیے یہاں رہنا مشکل ہو جائے گا۔‘

چومور گاؤں کے سربراہ پدم ایشے نے کہا: ’پہلے ہم اپنے یاک اور گھوڑوں کو گھاس کے میدان میں بھیجتے تھے لیکن اب وہ واپس نہیں آتے ہیں۔ ہمیں انھیں تلاش کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ سنہ 2014 میں تقریبا 15 گھوڑے غائب ہو گئے تھے۔‘

مقامی لوگوں کے دعوؤں پر انڈین وزارت کے ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ ابھی تک وہاں زمین پر کوئی تجاوز نہیں ہوا کیونکہ ابھی تک انڈیا اور چین کے مابین کوئی طے شدہ سرحد موجود نہیں ہے۔

وزارت کے ذرائع نے بتایا: ’اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ روایتی چراگاہوں کے علاقے سکڑ چکے ہیں لیکن جیسے جیسے آبادی بڑھ رہی ہے انڈیا اور چین اپنے علاقوں کی حفاظت کر رہے ہیں۔‘

سرحد

ایک فون کال کے لیے 70 کلومیٹر کا سفر

اس خطے کے بہت سے دیہات میں رابطے کے ذرائع بہت مشکل ہیں لیکن اس دور دراز علاقے کے کچھ دیہات میں سرکاری ٹیلیفون سروس بی ایس این ایل کام کرتی ہے جن کی خدمات گذشتہ ایک ہفتہ سے منسوخ کر دی گئیں ہیں جس سے مقامی لوگوں میں خوف و ہراس پھیل رہا ہے۔

سونم آنگچوک کا کہنا ہے کہ ’جب بھی سرحدی علاقوں میں کوئی پریشانی ہوتی ہے تو پہلے مواصلات کے ذرائع کاٹ ڈالے جاتے ہیں جو ہمارے لیے ایک مسئلہ ہے۔ ہمارے علاقے میں صرف بی ایس این ایل سروس کام کرتی ہے جو چھ سال پہلے شروع ہوئی تھی۔‘

مقامی کونسلر تاشی یکزی کا کہنا ہے ’مشرقی لداخ میں 12 مئی کو نیوما اور ڈربوک بلاکس میں مواصلات کو بند کیا گیا۔ پھر میں یہ معاملہ انتظامیہ کے پاس لے گیا اور اس کے بعد اسے 15 مئی کو بحال کردیا گیا لیکن تین جون کو دوبارہ بند کردیا گیا اور آج (7 جون) تک بحال نہیں کیا گیا ہے۔‘

لداخ کے سرحدی دیہاتوں میں بہت کم موبائل سروسز پہنچی ہیں۔ پچھلے کچھ برسوں سے سرکاری بی ایس این ایل سروس بہت سارے دیہاتوں میں موبائل خدمات مہیا کر رہی ہے لیکن یہ دنیا سے رابطہ رکھنے کے لیے ناکافی ہے۔

پدم کا کہنا ہے کہ ’ہمارے پاس مواصلات کا کوئی ذریعہ نہیں ہے اور اگر کچھ ہوتا ہے تو ہم کیسے رابطہ کرسکیں گے؟ یہ بڑا سوال ہے۔ ہمیں فون کرنے کے لیے 70 کلو میٹر دور کورزوک (سوموریری) جانا پڑتا ہے اور بعض اوقات اس سے بھی کام نہیں ہوتا ہے۔‘

انھوں نے کہا: ’پچھلے سال تک ہمارے پاس ڈی ایس پی ٹی (ڈیجیٹل سیٹلائٹ فون ٹرمینلز) موجود تھے جو اب بند ہیں۔ اور سردیوں میں ہم سیٹلائٹ فون استعمال کرتے تھے لیکن ان کے مہنگے ہونے کی وجہ سے اسے بند کردیا گیا ہے لہذا اب کچھ بھی نہیں ہے۔‘

لوگ انڈین فوج کو کس طرح دیکھ رہے ہیں؟

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ جب بھی علاقے میں تناؤ پیدا ہوتا ہے وہ انڈین فوج کی حمایت میں پیش پیش ہوتے ہیں۔

کونچوک نے کہا: ’ہم 1962 کی انڈیا چین جنگ میں خانہ بدوش دوسری راہ نما قوت تھے۔‘

سونم آنگچوک کا کہنا ہے ’جب بھی ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو ہم نے فوج کی بڑی مدد کی ہے۔ ہم نے قلیوں، زخمی فوجیوں کو راشن پہنچانے میں مدد کی تھی۔‘

کونچوک کا کہنا ہے کہ حالیہ کشیدگی کے بعد مقامی لوگ ضرورت کے وقت دوبارہ کھڑے ہوں گے۔

وہ کہتے ہیں: ’ہماری فوج، گاؤں کے سرپنچ اور پردھان کے ساتھ میٹنگ ہوئی تھی۔ ہم نے فوج کو بتایا کہ ہم ان کی مدد کے لیے تیار ہیں چاہے وہ لوگوں سے ہو، گاڑیوں یا دیگر چیزوں سے ہو۔‘

لداخ جیسے علاقوں میں فوجی آپریشن انتہائی مشکل ہے۔ 14 سے 18 ہزار فٹ کی بلندی پر اس علاقے میں بہت ساری ایسی جگہیں ہیں جہاں گاڑیاں نہیں جاسکتی ہیں لیکن مقامی لوگ کئی طریقوں سے مدد کر سکتے ہیں۔ لیکن اس بار وہ بہت خوفزدہ ہیں کیونکہ انتظامیہ کی طرف سے مواصلات کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔

کونچوک کہتے ہیں: ’گاؤں کے لوگوں کو نہیں معلوم کہ سرحد پر کیا ہو رہا ہے اس لیے انتظامیہ کو آگاہ کرنا چاہیے تاکہ مقامی لوگ خوفزدہ نہ ہوں۔‘

انڈیا اور چین کے مابین کشیدگی کے بعد دونوں ممالک نے باضابطہ طور پر مذاکرات کے بارے میں کوئی تفصیلی معلومات شیئر نہیں کی ہے۔

اس سے قبل سنہ 2017 میں بھی دونوں ممالک کے مابین ایک محاذ آرائی ہوئی تھی۔ ڈوکلام میں انڈیا اور چین کے مابین یہ تناؤ کئی مہینوں تک جاری رہا تھا۔

حالیہ واقعہ نے انڈیا میں بہت سارے تجزیہ کاروں کو فکر مند کر دیا ہے۔

لداخ میں لیہ شہر سے تعلق رکھنے والے مصنف اور سفارتکار فونچک استوپدان کا نے کہا: ’ہمیں 1962 کی جنگ کے بعد ایسی صورتحال نظر نہیں آئی تھی۔ بہت ساری جگہوں پر معمولی واقعات ہوتے تھے لیکن وہ اس کی وجوہات پیش کرتے تھے۔ جیسے کہ انڈیا کسی علاقے میں کچھ تعمیر کر رہا ہے اس کے بعد آپ کو اس جگہ کو ہٹانا ہوتا تھا جس کے بعد مزید بات چیت ہوتی تھی لیکن اس بار مجھے لگتا ہے کہ بات چیت انھیں جھکانے والی ہے۔ تاہم میرا خیال ہے انڈین حکومت اس سے نمٹنے کے لیے اچھی طرح تیار ہے۔‘

دوسری جانب چین نے بھی کہا ہے کہ خطے میں صورتحال ’مستحکم اور قابو میں ہے‘ اور انڈیا کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔

عالمی بحران کی وجہ سے چین کے خلاف غم و غصہ ہے لیکن یہاں پر جانوروں پر انحصار کرنے والے مقامی لوگوں کے لیے یہ گزربسر کا معاملہ ہے۔

via bbc urdu