امریکی رپورٹ میں مقبوضہ کشمیرمیں جعلی مقابلوں ، ماورائے عدالت قتل اور انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں پر اظہارتشویش

واشنگٹن21مارچ() عالمی انسانی حقوق کے بارے میں امریکہ کی سالانہ رپورٹ میں غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی طرف سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں بشمول جعلی مقابلوں میں کشمیریوں کے قتل عام ، دوران حراست قتل ، جبری گرفتاریوں اور آزادی صحافت پرقدغن پر تشویش ظاہر کی گئی ہے ۔
امریکی محکمہ خارجہ کی عالمی انسانی حقوق کی 2022کی سالانہ رپورٹ وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے جاری کی ۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ گزشتہ سال بھی مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فورسز کے ہاتھوں کشمیریوں کے قتل عام کاسلسلہ جاری رہا ۔ رپورٹ میں کہاگیاہے کہ پولیس کی طر ف حراست میں لئے گئے افراد کی گرفتاری کو ظاہر نہ کرنے سے مقبوضہ علاقے میں دوران حراست گمشدگیوںکا مسئلہ شدت اختیار کر گیا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق جیل کے عملے کی طرف سے زیر حراست افراد کے رشتہ داروں سے انکے پیاروں کی نظربندی کی تصدیق کیلئے رشوت طلب کرنے ،دوران حراست پولیس کی طرف سے قیدیوں پر تشدد کے نتیجے میں ہلاکتوں اورجیل کے عملے اور دیگر خطرناک مجرموں کی طرف سے کشمیری نظربندوں کے ساتھ بدسلوکی اور ان پر تشدد کی اطلاعات بھی ملی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق پولیس جھوٹے اور من گھڑت الزامات کا اعتراف کرانے کیلئے نظربندوں پر وحشیانہ تشدداور دیگر ظالمانہ ہتھکنڈوںکا استعمال کر تی ہے ۔ بعض واقعات میں پولیس نے مبینہ طور پر مشتبہ افراد کو ان کی گرفتاریوں کوظاہر کئے بغیر حراست میں رکھا ۔ جیل حکام نظربندوں خصوصا کشمیری قیدیوں کے اہلخانہ اور رشتہ داروںکو ان سے ملاقات کی اجازت نہیں دیتی ہے یا محدود اجازت دیتی ہے ۔مارچ 2021میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندوں نے مودی حکومت سے جموں و کشمیر میں جبری حراست، ماورائے عدالت قتل اور گمشدگیوں کے الزامات خصوصا نصیر احمد وانی کے بارے میں تفصیلات طلب کی تھیں ، نصیر 2019میں بھارتی فوج کی طر ف سے پوچھ گچھ کے بعد لاپتہ ہو گئے تھے۔ 29جولائی کوجبری گمشدگیوں کے بارے میں ورکنگ گروپ اور اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندوں نے مقبوضہ کشمیر میںمتعددمقامات پر دریافت ہونے والی اجتماعی گمنام قبروں ،قبروں میں دفن افراد کی باقیات کی مناسب فرانزک تحقیقات ،انکی شناخت ، دوران حراست لاپتہ کشمیریوں کی تلاش کیلئے کوششوں نہ کئے جانے پر تشویش ظاہر کی تھی ۔ رپورٹ میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے واقعات کی تحقیقات اوران میں ملوث اہلکاروں کے احتساب کا مطالبہ کرنے والے انسانی حقوق کے علمبرداروں اور صحافیوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے نمائندوںکو خوف و دہشت کا نشانہ بنانے کی اطلاعات پر بھی تشویش ظاہر کی گئی ہے ۔ امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں5 اگست 2019کومودی حکومت کی طرف سے مسلم اکثریتی مقبوضہ جموںو کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کا حوالہ بھی دیاگیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ گزشتہ برس 2022 میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں تعینات بھارتی افواج کی پر تشددکارروائیاں جاری رہیں ۔ بھارتی فوجیوںکے ہاتھوں مقبوضہ جموں وکشمیرمیں ماورائے عدالت قتل کے واقعات کا سلسلہ بھی جاری رہا،جن میں امشی پورہ شوپیاں میں راجوری کے تین مزدوروں امتیاز احمد،محمد ابرار اور ابرار احمد کاجعلی مقابلے میں ماورائے عدالت قتل بھی شامل ہے،جنہیں راشٹریہ رائفلز کے کیپٹن بھوپندرا سنگھ نے 18جولائی 2020میں قتل کیا تھا۔ بھارتی فوجی کشمیری نوجوانوں کو شہید کرنے کے بعد ان کی میتیں لواحقین کو حوالے کرنے کے بجائے انہیں دور دراز علاقوںمیں موجود قبرستانوں میں دفن کردیتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق 2014میں مودی کے برسر اقتدارآنے کے بعد سے، بھارت ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں 140ویں درجے سے 150ویں نمبر پر آ گیا ہے، جو بھارت کی اب تک کی سب سے کم ترین پوزیشن ہے۔ انٹرنیٹ ایڈوکیسی واچ ڈاگ ایکسیس نائو کا کہنا ہے کہ بھارت 2022سمیت مسلسل پانچ سال سے دنیا میں سب سے زیادہ انٹرنیٹ بند کرنے والے ممالک کی کی فہرست میں پہلے نمبر پر موجود ہے ۔امریکی رپورٹ میںمزید کہا گیا ہے کہ "سول سوسائٹی کی تنظیموں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ مودی حکومت نے انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کو حراست میں لینے کے لیے ان پر غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون یواے پی اے کا غلط استعمال بھی کیا۔رپورٹ میں مقبوضہ علاقے میں نافذ کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کا بھی ذکر کیاگیا جس کے تحت کسی بھی کشمیری کو عدالت پیش کئے بغیر دو سال تک قید رکھا جاسکتا ہے ۔ ماہرین اس رپورٹ کو ایک اہم پیش رفت قراردای ہے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان مضبوط اقتصادی روابط اور حریف چین کے علاقائی اور عالمی طاقت کے طور پر ابھرنے کے دوران امریکہ کے لیے بھارت کی بڑھتی ہوئی اہمیت کی وجہ سے امریکہ شاذ و نادر ہی بھارت پر تنقید کرتا ہے۔