کیا ٹرمپ مودی کی وجہ سے کشمیر پر ثالث بننے کی پیشکش سے پیچھے ہٹ رہے ہیں؟

کیا ٹرمپ مودی کی وجہ سے کشمیر پر ثالث بننے کی پیشکش سے پیچھے ہٹ رہے ہیں؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک مرتبہ پھر انڈیا اور پاکستان کے درمیان مسئلہِ کشمیر پر ثالثی کی اپنی پیشکش کی تائید کی ہے تاہم اس مرتبہ ان کا کہنا تھا کہ اس پیشکش کو ماننا وزیراعظم مودی کا کام ہے۔

انڈیا کی جانب سے اس پیشکش کو مسترد کیے جانے کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں خان اور مودی بہترین لوگ ہیں۔ میرے خیال میں دونوں کی آپس میں بہت جمے گی۔‘

صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انھوں نے پاکستان سے تو اس بارے میں بات کی ہی ہے اور ساتھ ساتھ انڈیا کے ساتھ بلا تکلف انداز میں بات کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر دونوں ممالک چاہیں کہ کوئی مداخلت کرے یا مدد کرے تو وہ کر سکتے ہیں۔

تاہم کشمیر کا مسئلہ وہ کیسے حل کریں گے، اس سوال کے جواب میں صدر ٹرمپ نے کوئی اشارہ نہیں دیا۔

یاد رہے کہ گذشتہ ماہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے دورہِ امریکہ کے موقعے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے دیرینہ تنازع کو حل کرنے میں کردار ادا کرنے کی پیشکش کی ہے۔

جہاں پاکستان کی جانب سے اس پیشکش کا خیر مقدم کیا گیا وہیں انڈیا نے کشمیر کے مسئلے کے حل میں کسی تیسرے فریق کو شامل کرنے کے امکان کو رد کر دیا گیا۔

اس موقعے پر صدر ٹرمپ نے کہا: ‘میں دو ہفتے قبل انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ تھا اور ہم نے اس موضوع پر بات کی جس پر انھوں نے کہا کہ کیا آپ اس معاملے پر ثالث بننا چاہیں گے؟ جواب میں میں نے پوچھا کہاں؟ تو انھوں نے کہا کشمیر۔ کیونکہ یہ معاملہ کئی سالوں سے چل رہا ہے، میرا خیال ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ یہ حل ہو جائے، کیا آپ بھی چاہتے ہیں کہ معاملہ حل ہو جائے؟ اگر میں مدد کر سکوں تو میں بخوشی ثالث کا کردار نبھانے کے لیے تیار ہوں۔ اگر میں کوئی مدد کر سکتا ہوں تو مجھے ضرور بتائیں۔’

واضح رہے کہ صدر ٹرمپ اور انڈین وزیر اعظم مودی کی ملاقات گذشتہ ماہ جاپان میں جی 20 کے موقع پر اوساکا شہر میں ہوئی تھی۔

صدر ٹرمپ کی جانب سے کی گئی پیشکش پر وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ صدر ٹرمپ مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور انڈیا کے مابین ثالثی کا کردار ادا کریں اور (عمران خان) وہ اپنی جانب سے انڈیا کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کی کوشش کر چکے ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ پاکستانی قوم کی دعائیں صدر ٹرمپ کے ساتھ ہوں گی اگر وہ مسئلہ کشمیر حل کرا سکیں۔

انڈین رد عمل

امریکی صدر کے تازہ ترین بیان پر انڈیا کی وزارت خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر جےشنکر نے ٹویٹ کیا: ’میں نے آج صبح اپنے امریکی ہم منصب مائیک پومپیو کو صاف صاف بتا دیا ہے کہ کشمیر پر جو بھی بات چیت ہوگی وہ پاکستان سے ہوگی اور صرف دوطرفہ ہوگی۔‘

ادھر انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں سیاسی جماعت جموں اینڈ کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب ٹویٹ کے ذریعے صدر ٹرمپ کے بیان کا خیر مقدم کیا گیا ہے اور کہا گیا کہ وہ اس مثبت قدم کو خوش آمدید کرتے ہیں جس کی مدد سے خطے میں مستقل امن قائم ہو سکتا ہے۔ تاحال انڈیا کی جانب سے مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے وزیر اعظم مودی کی جانب سے صدر ٹرمپ کو دخواست کے بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

واضح رہے کہ امریکی صدر کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے حل میں کردار ادا کرنے کی پیشکش کو امریکی پالیسی میں ایک تبدیلی کے طور پر دیکھا جائے گا کیونکہ امریکہ کا اس بارے میں ایک عرصے سے یہ موقف رہا ہے کہ یہ ایک دو طرفہ مسئلہ ہے جو دونوں ملکوں کو باہمی سطح پر حل کرنا چاہیے۔