چین: انسانیت کے مشترکہ روشن مستقبل کیلئے کوشاں

تقریباًایک دہائی قبل، جب کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ (سی پی سی)کی نومنتخب قیادت نے سی پی سی کی اٹھارویں مرکزی کمیٹی کے پہلے مکمل اجلاس کے بعد عظیم عوامی ہال میں اپنے اقتدار کا باقاعدہ آغاز کیا تو ہر جانب یہ قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں کہ شی جن پھنگ کی قیادت میں دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والی قوم اور دوسری سب سے بڑی معیشت کا عالمی برادری سے برتائو کیسا ہو گا اور چین عالمی سطح پر تیزی سے رونما ہوتی تبدیلیوں اور چیلنجز کے دورمیں کیا کردار ادا کرے گا۔

مارچ 2013 میں، سی پی سی کی مرکزی کمیٹی کے جنرل سیکرٹری ، شی نے بطور چینی صدر اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے دوران واضح کیا کہ سب کیلئے فائدہ مند تعاون کی بنیاد پردنیا سے نئی قسم کے تعلقات کو فروغ دینا اور عالمی سطح پر بنی نوع انسان کے مشترکہ روشن مستقبل کے لئے بہترین برادری کی تعمیر چین کے بنیادی مقاصد ہیں۔

12 ستمبر 2022، سمرقند، ازبکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم(ایس سی او)کے سربراہان مملکت کی کونسل کے

22ویں اجلاس کے لوگو کے پاس سے ایک سائیکل سوار شہری گزر رہا ہے۔ (شِنہوا)

گزشتہ دہائی کے دوران، شی کی قیادت میں چین اپنی بھرپور صلاحیتوں کے ساتھ پرامن ترقی کی راہ پر گامزن رہا ہے، اور عالمی چیلنجز سے نمٹنے، مشترکہ کامیابی کی راہوں کو تعاون کے ساتھ آسان بنانے جبکہ عالمی نظام حکومت کو زیادہ سے زیادہ منصفانہ اور غیر جانبدارنہ رکھنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی گئی۔

جیسا کہ ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ چین کا نقطہ نظر آج کے حالات، ضروریات اور سوچ کے عین مطابق ہے، اور یہ امن و استحکام کے قیام کے لئے سازگار ماحول کی فراہمی، عالمی اقتصادی ترقی کو تقویت دینے، اور سب کیلئے خوشحالی اورمشترکہ مستقبل سے بھرپور دنیا کی تعمیرپر مبنی ہے۔

سب کی ترقی کا مشترکہ تعاون

2013 میں ہی، چینی صدر نے یکے بعد دیگرے قازقستان اور انڈونیشیا کے اپنے دوروں کے دوران سلک روڈ اکنامک بیلٹ اور اکیسویں صدی کی میری ٹائم سلک روڈ کی تجویز پیش کی، جو کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو(بی آر آئی)کی شکل میں عملی طور پر سامنے آئی۔

9سال گزرنے کے بعد یہ ثابت ہو چکا ہے کہ، بی آر آئی نے شراکت داریوں کو نمایاں طور پر مضبوط کیا ہے اور آپسی رابطوں کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں مشترکہ ترقی کا سبب بنا ہے۔

چین اور بی آر آئی میں شریک تقریباً 150ممالک کے درمیان سالانہ تجارتی حجم جو 2013ء میں 10.4کھرب امریکی ڈالر تھا، 2021ء میں بڑھ کر 18کھرب امریکی ڈالر تک پہنچ گیا۔ ان 8سالوں کے دوران اس تجارتی حجم کا 73فیصد تک بڑھنا بہت بڑا اضافہ اور ترقی کی روشن مثال ہے۔

عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق، بی آر آئی عالمی سطح پر 76لاکھ افراد کو انتہائی غربت اور 3.2کروڑ افراد کو درمیانی غربت سے نکالنے میں مدد کرسکتا ہے، جبکہ بی آر آئی کا حصہ بننے والے ممالک کی تجارت میں 2.8سے 9.7فیصد اور پوری دنیا کی تجارت میں 1.7سے 6.2فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔

11 ستمبر 2018،سینیگال کے ایک گائوں میں بچے چین کی امداد سے چلنے والے کنویں کے پاس پانی سے کھیل رہے ہیں۔ (شِنہوا)

قاہرہ میں مصر کے سرکاری الاحرام سینٹر فار پولیٹیکل اینڈ اسٹریٹجک اسٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد فائز فراحت کے مطابق چین کے مجوزہ اقدامات عالمی ترقی میں چین کے بھرپور تعاون جبکہ ترقی پذیر ممالک اور ابھرتی ہوئی معیشتوں کے لئے اس کی حمایت کی عکاسی کرتے ہیں۔

محمد فائز نے مزید کہا کہ چین بین الاقوامی سطح پر ترقی پذیر ممالک کے لئے مشکلات یا پریشانی کا باعث بننے والے اسباب کے خاتمے میں ان کا مددگار بنتا ہے اور اہم عالمی اداروں میں بھی اپنا فعال کردار ادا کرتا ہے۔

بہتر طرز حکمرانی کے لئے اقدامات

تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں، عالمی طرز حکمرانی کو بہتر بنانا دنیا کی ترجیحات میں سب سے اہم جزو بن چکا ہے۔ طویل عرصے سے درپیش کووڈ 19 کا وبائی مرض، علاقائی تنازعات، عالمگیریت کے خلاف ردعمل اور دیگر پیچیدہ عوامل، یہ سب ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، ایسی صورت حال میں امن، سلامتی اور اعتماد میں کمی کے ساتھ ساتھ حکومتوں کے خسارے بڑھ رہے ہیں۔

گزشتہ دہائی کے دوران، مختلف مواقع پر چینی صدر نے اس بات پر زور دیا ہے کہ مسائل کا حل حقیقی کثیرالجہتی اور اقوام متحدہ کے مرکزی عالمی نظام میں مضمر ہے،اور اس کے ساتھ ساتھ ایک نئی قسم کے بین الاقوامی تعلقات قائم کرنے کے لئے مشترکہ کوششیں ناگزیر ہیں، جن میں باہمی احترام، غیر جانبداری، انصاف اور مساوات کو یقینی بنایا جائے، جبکہ سب کی ترقی کے لئے بھرپور تعاون اور انسانیت کے روشن مستقبل کی خاطر ایک برادری کے طور پر آگے بڑھنے سے ہی یہ سب ممکن ہو سکتا ہے۔

18 مارچ 2020،چینی طبی ماہرین کی ٹیم اور اطالوی ڈاکٹر کا پاڈووا، اٹلی میں گروپ فوٹو۔ (شِنہوا)

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 75ویں اجلاس کے عام مباحثے میں اپنے  خطاب میں، شی نے کثیرالجہتی پر قائم رہنے اور اقوام متحدہ کے ساتھ بین الاقوامی نظام کی حفاظت کو لازمی قرار دیا۔

شی نے کہا کہ “عالمی حکمرانی وسیع مشاورت، مشترکہ شراکت اور فوائد کے اصولوں پر مبنی ہونی چاہیے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ تمام ممالک مساوی حقوق اور مواقع سے لطف اندوز ہوں اور یکساں اصولوں پر کاربند رہیں”۔

کئی سالوں سے چین وبائی امراض سے نبرد آزما ہونے، غربت میں کمی، موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق اقدامات، قیام امن اور دنیا بھر کی معیشت کی تعمیر جیسے عالمی امور میں فعال کردار ادا کر رہا ہے۔ چین نے خود کو عالمی امن کا معمار، ترقی میں معاون، بین الاقوامی نظام کا محافظ اور عوامی اشیا فراہم کرنے والا ملک ثابت کیا ہے۔

زیادہ منصفانہ اور موثر عالمی حکمرانی کی تشکیل کے لئے اجتماعی کاوشوں اور اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین اس مقصد کے حصول کے لئے دیگر ممالک بالخصوص ترقی پذیر دنیا کے ساتھ بھرپور تعاون کر رہا ہے۔ اس حوالے سے دنیا کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ آبادی والا علاقائی ادارہ، شنگھائی تعاون تنظیم(ایس سی او)ایک بہترین مثال کے طور پر موجود ہے جس کے اقدامات سے واضح ہوتا ہے کہ چین کس طرح نئے قسم کے عالمی تعلقات کو فروغ دینے کے لئے اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔

اپنی 21سالہ تاریخ میں شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک سلامتی، معیشت، تجارت، صحت عامہ اور ثقافت سمیت مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے کیلئے مل کر کام کر رہے ہیں۔ یہ ادارہ عالمی طرز حکمرانی کو بہتر بنانے، استحکام اور ترقی کو فروغ دینے کیلئے ایک تعمیری قوت کے طور پر بے مثال کردار ادا کر رہا ہے۔

نائیجیریا کی جامعہ ابوجا کے شعبہ سیاسیات اور تعلقات عامہ کے سربراہ شریف غالی ابراہیم کہتے ہیں کہ ابھرتی ہوئی معیشتوں کے عروج کے ساتھ، ترقی پذیر ممالک عالمی نظم و نسق کے علاوہ بہتر عالمی طرز حکمرانی کے لئے آواز بلند کر رہے ہیں، جبکہ مختلف کثیر الجہتی تعاون کے میکانزم اور پلیٹ فارمز کے ذریعے عالمگیریت کے عمل کے لئے ایک منصفانہ اور زیادہ جامع سمت کے تعین پر بھی زور دے رہے ہیں۔ شریف نے مزید کہا کہ ایسے میں چین ایک رہبر ثابت ہوا ہے، کیونکہ اس کا عالمگیریت کا تصور بلاامتیاز، کسی سے علیحدگی یا اخراج کے بغیر بڑے پیمانے پرانسانیت کے ایک مشترکہ مستقبل کو فروغ دینے پر مبنی ہے۔

مشترکہ روشن مستقبل

اب بھی تباہی پھیلاتی وبائی بیماری مسلسل یہ یاد دہانی کراتی ہے کہ لوگ ایک گلوبل ولیج  یعنی عالمی گاؤں میں رہ رہے ہیں، جہاں تمام قوموں کی تقدیر پہلے کبھی بھی اتنے قریب سے ایک دوسرے کے ساتھ نہیں جڑی تھی۔ مستقبل میں زمین پر درپیش پریشانیوں کا بھرپور انداز میں مقابلہ کرنے کیلئے، عالمی برادری سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ یکجہتی کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور ایک عزم و ہم آہنگی کے ساتھ کام کریں گے۔

دنیا کی مشترکہ خواہشات کے بارے میں اپنے گہرے مشاہدے کی بنا پر، چینی صدر نے عالمی ترقی اور سلامتی کے اقدام کی تجویز پیش کی ہے، جس سے امن، سلامتی، اعتماد اور عالمی طرز حکمرانی میں خامیوں پر قابو پانے کے لئے چین کا دانشمندانہ کردار ظاہر ہوتا ہے جبکہ یہ تیزی سے بدلتے عالمی منظر نامے میں مشترکہ ترقی اور اجتماعی سلامتی کے ساتھ دنیا کی تعمیر کی ضرورت اور اہمیت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔

ہندوستانی تھنک ٹینک آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے سابق چیئرمین سدھیندرا کلکرنی کے مطابق، ترقی اور سلامتی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور دونوں ناقابل تقسیم ہیں۔ کلکرنی کا کہنا تھا کہ کسی بھی ملک میں امن و سلامتی کا قیام ممکن نہیں، اگر دوسرے ملک غیر محفوط ہیں، اسی طرح کوئی بھی ملک ترقی حاصل نہیں کر سکتا اگر دوسرے ممالک کی ترقی خطرے میں ہو۔ تاہم ہمیں عالمی تناظر میں سلامتی اور ترقی پر ضرور غور کرنا چاہیے۔

7 اگست 2022،مشرقی چین کے صوبہ شانڈونگ کے شہر چھنگ ڈا ؤمیں بندرگاہ پر افریقہ کے لیے روانہ ہونے والے

مال بردار جہاز کا فضائی منظر۔(شِنہوا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مشترکہ روشن مستقبل والی برادری کی تعمیر کے تصور پر قائم رہتے ہوئے، چین حقیقی کثیرالجہتی کے تحفظ، مستحکم خدمات کی فراہمی کو برقرار رکھنے، آزاد تجارت، سرمایہ کاری کو آسان بنانے، سرسبز اور فضائی آلودگی سے پاک ترقی کو آگے بڑھانے کیلئے باقی دنیا کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ عالمی معیشت کیلئے اپنی مضبوط حمایت سے لے کر آلودگی میں کمی اور غیرجانبداری کیلئے اپنے مصمم ارادے اور پختہ عزم کے ساتھ ساتھ چین نے بھرپورعملی اقدامات بھی اٹھائے ہیں۔

بیجنگ سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے وقت، کرغزستان کے صدر سیدر زاپروف ’’مشترکہ مستقبل کے لیے ایک ساتھ‘‘ کے منشور سے بہت متاثر ہوئے۔ شنہوا نیوز ایجنسی کو ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا ہے کہ یہ عالمی برادری سے انسانیت کے مشترکہ مستقبل والی برادری کے قیام کا مطالبہ ہے، چاہے کوئی چھوٹا ملک ہو یا بڑا ملک، عالمگیریت کے تناظر میں، ہم سب کا ایک ہی مستقبل اور ایک ہی مقدر ہے۔

جاپان کے سابق وزیر اعظم یوکیو ہاتویاما کی نظر میں، شی جن پھنگ کی طرف سے بنی نوع انسان کے مشترکہ مستقبل والی ایک برادری کی تعمیر کا مطالبہ موجودہ دور میں انتہائی متعلقہ اور ضروری ہے۔

ہاتویاما نے کہا کہ دنیا کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے بچانے، درپیش چیلنجز سے نمٹنے، ایشیا میں امن کی حفاظت اور مشترکہ ترقی کو فروغ دینے کے لئے مشترکہ مستقبل کا احساس اور شعور بیدار کرنا اہم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زمین پر ہم رہتے ہیں، نہ صرف اچھا ماحول مجموعی طور پر اہم ہے بلکہ لوگوں کے درمیان روابط بھی ضروری ہیں۔