انڈیا میں شہریت کا متنازع قانون: سپریم کورٹ کا حکم امتناعی دینے سے انکار

انڈیا کی سپریم کورٹ نے بدھ کے روز شہریت کے متنازع قانون کے نفاذ کے خلاف دائر مقدمے میں حکم امتناعی دینے سے انکار کر دیا ہے۔

عدالت ‏عظمیٰ نے کہا ہے کہ مرکزی حکومت کا جواب سنے بغیر وہ اس قانون کے نفاذ پر حکم امتناعی جاری کرنے کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی۔ عدالت نے حکومت کے جواب کے لیے چار ہفتے کا وقت دیا ہے۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کی قیادت میں تین رکنی بنچ نے اس معاملے کی سماعت کے لیے ایک پانچ رکنی آئینی بنچ کی تشکیل کا اشارہ بھی دیا ہے۔

انڈیا میں شہریت کے اس نئے ترمیمی قانون کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے انڈیا آنے والے غیر مسلم تارکین وطن کو شہریت دی جائے گی لیکن اس قانون میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔

شہریت کے متنازع ترمیمی قانون سی اے اے کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے کہا کہ شہریت قانون کو چیلنج کرنے والی سبھی درخواستوں کی نقول انھیں موصل نہیں ہوئی ہیں، اس لیے انھیں اپنا جواب دینے کے لیے وقت دیا جائے۔

شہریت کے قانون کو چیلنج کرنے والی درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ یہ قانون آئین کے بنیادی اصولوں کے منافی اور غیر قانونی ہے لہذا اس کے نفاذ پر سٹے آرڈر جاری کیا جائے۔

سینئر وکیل کپل سبل نے درخواست گزاروں کی نمائندگی کرتے ہوئے دلیل دی تھی کہ اس قانون کے نفاذ سے جن باشندوں کو شہریت دی جائے گی ان کی شہریت واپس لینا مشکل ہو جائیگا، اس لیے حتمی فیصلہ آنے تک اس قانون کی عملدرآمد کو روکا جائے۔ تاہم عدالت نے ان کی دلیل نہ مانتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی قدم نا قابل تبدیل نہیں ہے۔

ان مقدمے کے درخوست گزاروں میں حزب اختلاف کی کئی جماعتوں کے رکن پارلیمان اور رہنما بھی شامل ہیں۔

انڈیا میں احتجاج

انڈیا میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف گذشتہ ایک مہینے سے مظاہرے بھی ہو رہے ہیں۔ مظاہرے روکنے کے لیے بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں دفعہ 144 نافذ کی گئی ہے اور ہزاروں مظاہرین کے خلاف مقدمے بھی درج کیے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود احتجاج میں شدت بڑھتی جا رہی ہے۔

شہریت قانون کی محالفت کرنے والوں میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں غیر مسلم بھی شریک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک یہ قانون واپس نہیں ہوتا تب تک ان کی یہ تحریک جاری رہے گی۔

اپوزیشن اور بہت سے قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قانون کے تحت مذہب کی بنیاد پر شہریت کا تعین کیا جائے گا اور مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کے ساتھ تفریق برتی جائے گی۔

ان کا کہنا ہے یہ قانون انڈین آئین کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔

گذشتہ روز وزیر داخلہ امیت شاہ نے لکھنؤ میں اس قانون کی حمایت میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’جن کو احتجاج کرنا ہے وہ کرتے رہیں لیکن حکومت اس قانون کے سلسلے میں ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے گی ۔‘