بھارت ڈھٹائی سے مقبوضہ کشمیر میں اختلاف رائے کو دبانے کیلئے کالے قوانین استعمال کر رہا ہے: الطاف وانی

جنیوا28ستمبر () کل جماعتی حریت کانفرنس کی آزادکشمیر شاخ کے رہنماالطاف حسین وانی نے اقوام متحدہ کی انسانی حقو ق کونسل کی توجہ غیر قانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کے علمبرداروں ، سیاسی کارکنوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کی حالت زار کی جانب مبذول کرائی ہے ۔
الطاف وانی نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے ارکان اور مبصر ممالک کو لکھے گئے ایک مشترکہ خط میں کہا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقوق کے علمبرداروں پرمظالم ، قانونی، سیاسی اوراختلاف رائے کی آوازوں کو دبانے کیلئے کالے قوانین کا وحشیانہ استعمال کر رہاہے ۔ انہوں نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی حکام کی طرف سے غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون یو اے پی اے کے استعمال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی حکام گزشتہ کئی برس سے مقبوضہ علاقے میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں اور سخت پابندیوں کی ایک منظم مہم جاری رکھے ہوئے ہیں اور05اگست 2019کو مقبوضہ علاقے کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں آزادی صحافت پر قدغن عائد اور اختلاف رائے کو بے رحمی سے دبایاجارہا ہے ۔ خط میں مزید کہا کہ انسانی حقوق کے علمبرداروں کو دھمکیاں، ہراساں کرنااوران کے خلاف انتقامی کارروائیاں اور حملے مسلسل جاری ہیں ۔ مقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقوق کے محافظوں، کارکنوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کیلئے کام کرنا مزید مشکل اور خطرناک بنادیا گیا ہے۔ خط میں کہاگیاہے کہ آزاد میڈیا پر قدغن ، انسانی حقوق کے محافظوں اور سیاسی کارکنوں کو ڈرانا اور ہراساں کرنا، پرامن احتجاج پر پابندی اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کی سرگرمیوں پر غیر ضروری پابندیاں نوآبادیاتی دور کے سب سے گھنائونے ہتھکنڈے ہیں جن کا بھارتی قابض حکام مقبوضہ علاقے میں آزادانہ طورپر استعمال کرہے ہیں۔خط میں الطاف وانی نے جموں وکشمیر پر بھارت کے غیر قانونی تسلط کے خلاف آواز بلند کرنے والے سیاسی رہنمائوں ،انسانی حقو ق اور سول سوسائٹی کے کارکنوں کے خلاف کالے قانون کے تحت مقدمات قائم کر کے انہیں گرفتار کرکے دور دراز کی جیلوں میں منتقل کر دیاجاتا ہے ۔ انہوں نے خط میں کشمیری انسانی حقو ق کے کارکن خرم پرویز کا حوالہ دیا جنہیں امریکی ٹائمز میگزین نے ‘جدید دور کا ڈیوڈ’قراردیاتھا، پر گزشتہ سال دہشت گردی کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ انہوں نے کہاکہ خرم پرویز اور انسانی حقوق کے دیگر کارکنوں کو صرف انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اداروں کے ساتھ مل کر مقبوضہ علاقے بھارتی مظالم کو بے نقاب کرنے پر سزا دی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ وادی میں انسانی حقوق کے کارکنوں کے دفاتر اور رہائش گاہوں پر بھارتی تحقیقاتی ادارہ این آئی اے چھاپے مار رہا ہے جو کہ ماہرین کے مطابق کشمیر پر خاموشی کو نافذ کرنے اورتنقیدی آوازو ں کو خاموش کرانے کی بی جے پی حکومت کی سرکاری پالیسی کا حصہ ہیں۔ الطا ف وانی نے خرم پرویز اور دیگر کشمیری سیاسی نظربندوں اور کارکنوں کی سلامتی کے بارے میں شدید تشویش کا اظہار کیا ۔انہوں نے کہا کہ بی جے پی حکومت کشمیریوں پر ظلم و تشدد کیلئے غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے ایکٹ اور دیگر کالے قوانین کا بے دریغ استعمال کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ قوانین بھارتی کے آئین کی دفعہ 14اور 21کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر میں موجود بنیادی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی ہیں۔انہوںنے مقبوضہ علاقے میں انسانیت کے خلاف جرائم پر بھارت کو جوابدہ ٹھہرانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کالے قوانین کو فوری طورپر ختم کیاجانا چاہیے جن نکے تحت کسی بھی شخص کو بغیر کسی مقدمے کے دو سال تک جیل میں قید رکھا جاسکتا ہے ۔ الطاف وانی نے کہاکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور اقوام متحدہ کے مطابق یو اے پی اے انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیار پر پورا نہیں اترتاہے اور اسے فورامنسوخ کیا جانا چاہیے ۔ انہوں نے کہاکہ بھارت پر تشدد، جبری گمشدگیوں کے خلاف کنونشن کی توثیق کرنے اور جموں و کشمیر میں دریافت ہونے والی ہزاروں اجتماعی گمنام قبروں کی تحقیقات کیلئے بھی دبائو بڑھایاجانا چاہیے ۔انہوں نے کہاکہ جموں و کشمیر کے بارے میں عالمی ادارے کے خصوصی ایلچی کی تقرری سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال کو بہتر بنانے اور متنازعہ علاقے میں جاری خونریزی اور ظلم وتشدد کا سلسلہ فوری بند کرانے میں مدد ملے گی ۔