آب وہوا کی تبدیلی، امراض کو مزید شدید بنا سکتی ہیں

منیلا: ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ تیزی سے بدلتی ہوئی آب وہوا (کلائمٹ چینج) سے نہ صرف دنیا بھر میں انفیکشن بڑھ رہے ہیں بلکہ ہم انسان ان سے لڑنے کی صلاحیت بھی کھوتے جا رہے ہیں۔

جامعہ ہوائی کے ڈیٹا سائنٹسٹ کیمیلو مورا نے بتایا ہے کہ کلائمٹ چینج سے خود امراض کی شدت اور انسانوں پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

ان کا اصرار ہے کہ کئی ایک موسمیاتی شدتوں سے جراثیم کی سرگرمی بڑھ جاتی ہے اور ان کا انسانی حملہ شدید ہوسکتا ہے بلکہ ہو بھی رہا ہے۔

اس تحقیق میں کل 77 ہزار تحقیقی مقالوں، رپورٹ اور کتابوں کا جائزہ لیا گیا ہے جس میں موسم اور انفیکشن امراض کے درمیان تعلق موجود تھا۔ خلاصہ یہ ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں (جی ایچ جی) کی وجہ سے مرض کی شدت بڑھ رہی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ان تبدیلیوں سے نصف سے زائد امراض انسانوں کو قدرے شدت سے بیمار کرسکتے ہیں۔

ماہرین نے بڑی موسمیاتی تبدیلیوں میں تپش، ہوا میں نمی، سیلاب، خشک سالی، طوفان، جنگلات کی آگ، گرمی کی لہر اور دیگر محرکات شامل کئے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ تمام کیفیات جراثیم اور انسان کے درمیان رابطہ بڑھا رہی ہیں اور انسان بیمار ہو رہا ہے۔

ماہرین نے کہا ہے کہ خود انسان کے پاس بھی اس فوری تبدیلی سے نمٹنے کا کوئی مناسب انتظام نہیں۔ گہرائی میں دیکھنے پر ایک تو موسم جراثیم یعنی بیکٹیریا اور وائرس وغیرہ کے لیے طویل عرصے کے لیے موافق ہوتا جا رہا ہے جبکہ ان کی افزائش کی رفتار بھی بڑھ رہی ہے۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ وائرس اور جراثیم کا وار سخت و شدید ہوتا جا رہا ہے۔

مثلاً گرمی بڑھنے سے مچھروں کی آبادی بڑھ رہی ہے اور نتیجے میں ڈینگی، ملیریا اور دیگر امراض میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پھر بارش اور طوفان کا پانی ہفتوں ایک جگہ موجود رہتا ہے جو جراثیم کے لیے ایک موزوں جگہ بن جاتا ہے اور اس طرح کئی طرح کے بخار، ویسٹ نائل فیور اور لیشمینیا جیسی بیماریاں شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق فصل اور اجناس میں غذائیت کم ہونے سے خود انسان کا امنیاتی نظام بھی کمزور ہورہا ہے جس سے ہم طرح طرح کی بیماریوں کا ترنوالہ بن سکتے ہیں۔

اس طویل مطالعے کا خلاصہ یہ ہے کہ کلائمٹ چینج کے تناظر میں انسانی صحت کا خیال رکھنا ضروری ہے۔