
بیس حلقوں کے ضمنی انتخابات کی اہمیت بڑھ گئی!
سپریم کورٹ کے حکم سے وزیراعلیٰ پنجاب کے دوبارہ انتخاب کی تاریخ کا تعین ہونے کے بعد پنجاب میں ہونے والے 20 ضمنی انتخابات کی اہمیت بڑھ گئی ہے،اب اصل فیصلہ یہ انتخابات کریں گے کہ پنجاب کا وزیراعلیٰ کون بنتا ہے۔تحریک انصاف اگر 13 نشستیں جیتنے میں کامیاب رہتی ہے تو اس پوزیشن میں آ جائے گی کہ ایک بار پھر پنجاب کی حکومت بنا سکے جبکہ مسلم لیگ (ن) کو11نشستوں کی ضرورت ہے گویا مقابلہ کانٹے دار ہے۔ اب ایک طرف کی کمان عمران خان نے سنبھالی ہوئی ہے اور دوسری طرف مریم نواز میدان میں اتری ہیں۔شہباز شریف اور حمزہ شہباز حکومتی عہدے رکھنے کی وجہ سے انتخابی مہم نہیں چلا سکتے۔اگرچہ پاکستان میں انتخابات شخصی بنیادوں پر لڑے جاتے ہیں تاہم یہ بیس ضمنی انتخابات اب شدید جماعتی مقابلے میں تبدیل ہو چکے ہیں اب ووٹ اس بنیاد پر پڑیں گے کہ عوام کس جماعت سے خوش یا مطمئن ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کو اب پتہ چلے گا کہ حالیہ مہنگائی نے اْسے کتنا نقصان پہنچایا ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کا ایک اپنا ووٹ بنک بھی موجود ہے جو چھوٹ موٹے واقعات کی وجہ سے متاثر نہیں ہوتا،پنجاب میں پیپلزپارٹی بھی مسلم لیگ(ن) کے امیدواروں کو جتوانے کے لیے پورا زور لگا رہی ہے خاص طور پر ملتان کے دو مخدوم سید یوسف رضا گیلانی اور شاہ محمود قریشی آج کل باہم برسرپیکار نظر آتے ہیں،ان کے درمیان سیاسی دوریاں ایک بڑی حقیقت رہی ہیں تاہم یہ حیرت زدہ منظر چشم فلک دیکھ رہی ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی کے خلاف انتخابی مہم چلا رہے ہیں مہم اس لیے بھی چلا رہے ہیں کہ پنجاب میں اتحادی حکومت قائم ہے تو اْن کے بیٹے علی حیدر گیلانی بھی وزیر ہیں،وگرنہ سات سیٹوں والی جماعت کو پنجاب میں کون پوچھتا
ان ضمنی انتخابات کی کتنی اہمیت ہے اس کا اندازہ اِس امر سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ ان کی وجہ سے وزیراعلیٰ کے انتخاب کی تاریخ آگے بڑھائی گئی ہے،ان کا ذکر سپریم کورٹ میں ہوتا رہا ہے اور جب تحریک انصاف نے یہ کہا کہ حمزہ شہباز کو حکم دیا جائے کہ وہ انتخابات میں دھاندلی نہ کرائیں تو سپریم کورٹ نے حمزہ شہباز سے استفسار کیا کہ کیا وہ دھاندلی کرانا چاہتے ہیں؟ حمزہ شہباز نے اس سے صریحاً انکار کیا اور پنجاب حکومت کے غیر جانبدار رہنے کی یقین دہانی کرائی،سپریم کورٹ نے اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ جن حلقوں میں انتخابات ہو رہے ہیں،اْن میں ترقیاتی فنڈز جاری نہیں ہونے چاہئیں چیف جسٹس نے کہا یہ تو انتخابی ضابطہ اخلاق کا معاملہ ہے ہم الیکشن کمشن کو حکم جاری کر دیتے ہیں۔گویا اب یہ بھی الیکشن کمشن اور پنجاب انتظامیہ کی یہ گہری ذمہ داری بن گئی ہے کہ وہ ان انتخابات میں دھاندلی کا شائبہ تک نہ ابھرنے دیں۔حمزہ شہباز پنجاب کے وزیراعلیٰ ضرور ہیں تاہم22جولائی کے انتخابات کی وجہ سے اب اْن کے لیے بھی ایک خطرہ موجود ہے کہ کہیں بازی پلٹ ہی نہ جائے، انتظامیہ اور پولیس کو بھی اس صورت حال کا اندازہ ہے اس لیے سپریم کورٹ فیصلے کے بعد حمزہ شہباز کی اب وہ پوزیشن نہیں،جو اْس وقت ہوتی جب وہ ہائی کورٹ کے حکم سے ہونے والی گنتی میں دوبارہ منتخب ہو جاتے۔اب اْن کی حیثیت ایک عبوری وزیراعلیٰ کی ہے، جو رہ بھی سکتا ہے اور جا بھی سکتا ہے۔
تحریک انصاف کی توپوں کا رخ آج بھی الیکشن کمشن کی طرف ہے۔ عمران خان تو یہ ماننے کو ہی تیار نہیں کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر کی موجودگی میں شفاف انتخابات ہو سکتے ہیں یہ ایک دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے وگرنہ ابھی تک تحریک انصاف کے پاس ایسا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے کہ الیکشن کمشن جانبداری کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ان انتخابات کے حوالے سے اگلے بارہ دن بہت اہم ہیں۔ 15جولائی کو الیکشن مہم کا اختتام ہو جائے گا،اس لیے جتنا زور لگنا ہے انہی دِنوں میں لگنا ہے۔ابھی تک جو رپورٹیں سامنے آئی ہیں اْن کے مطابق ان بیس حلقوں میں سے کہیں بھی مقابلہ آسان نہیں،سخت مقابلے کی فضا ہے،پہلی بار اِن حلقوں کی صورت حال دیکھ کر لگ رہا ہے کہ انتخابات ہونے جا رہے ہیں وگرنہ سب جانتے ہیں کہ ضمنی انتخابات میں عوام کی دلچسپی کم ہی ہوتی ہے۔ کراچی میں قومی حلقہ240 کے انتخابات میں آٹھ فیصد ٹرن آؤٹ اس کی سب سے اہم مثال ہے لیکن ان حلقوں میں ایسا نہیں ہو گا جس قسم کا جوش و خروش ان حلقوں کے عوام میں نظر آ رہا ہے،اْس سے یہی لگتا ہے کہ ٹرن آؤٹ بہت زیادہ رہے گا۔ووٹروں کو ملکی حالات کا گہرا شعور بھی ہے،وہ دیکھ رہے ہیں کہ اْن کی رائے سے کیا کیا تبدیلیاں آ سکتی ہیں،تحریک انصاف کو ان انتخابات میں الیکشن مہم چلانے کے لیے گرم گرم دلائل میسر ہیں،جنہیں عمران خان بھی بھرپور طریقے سے استعمال کر رہے ہیں۔ مثلاً وہ جس حلقے میں جاتے ہیں،عوام کو دو باتیں کہتے ہیں ایک امریکی سازش کے حوالے سے،دوسری اْس امیدوار کے بارے میں جو ان کے نزدیک لوٹا بن چکا ہے انہوں نے یہ تھیسز بھی بنایا ہے ہے کہ ملک میں رجیم چینج کا عمل لوٹوں کی وجہ سے ہی ممکن ہوا ہے اس لیے ان کے خلاف ووٹ دینا ضروری ہے، اس نعرے کی بنیاد پر تحریک انصاف اگر اپنے ووٹروں کو متحرک کرنے میں کامیاب رہتی ہے تو اْسے کامیابی مل سکتی ہے۔دوسرا فائدہ اْسے یہ بھی ہے کہ موجودہ حکومت نے اپنے اڑھائی ماہ میں عوام پر مہنگائی کے پے در پے بم گرا کے ایسی صورتِ حال پیدا کر دی ہے جس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔دوسری طرف ان انتخابات میں حصہ لینے والے مسلم لیگ(ن) کے دس امیدوار ایسے ہیں جو آزاد حیثیت سے منتخب ہو کر تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے،گویا اْن کا ذاتی ووٹ بنک بھی موجود ہے کیا وہ اسی ووٹ بنک کو مسلم لیگ(ن) کی حمایت سے متحرک کر سکیں گے، کیا ووٹروں کو یہ باور کرا سکیں گے کہ وہ اس حقیقت کے باوجود انہیں ووٹ دیں کہ ایک ماہ میں پٹرول سو روپے لٹر مہنگا کر دیا گیا ہے اور حکومت کی معاشی کارکردگی عوام دشمن فیصلوں پر مبنی ہے۔
ماضی میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی ضمنی انتخاب پر حکومت کے بننے یا گرنے کا انحصار ہویہ پہلا موقع ہے کہ ایک طرف بیک وقت 20حلقوں میں ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں اور دوسری طرف اْس کے نتیجے پر پنجاب حکومت کا دارومدار ہے۔یوں تو ان بیس حلقوں میں ہر حلقہ اہمیت کا حامل ہے، تاہم ملتان کا حلقہ217 کچھ زیادہ ہی اہمیت اختیار کر گیا ہے عمران خان اس حلقے کے لیے 14جولائی کو ملتان آ رہے ہیں شاہ محمود قریشی اور سید یوسف رضا گیلانی نے بھی اس حلقے میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں، مسلم لیگ (ن) نے لندن سے واپس آنے والے سابق وزیر مملکت عابد شیر علی کو بھی ملتان اس مہم کے لیے بھیج رکھا ہے۔سلمان نعیم کا اپنا حلقہ ء احباب بھی موجود ہے۔ یوں مقابلہ بڑا سخت ہے شاہ محمود قریشی ہر صورت یہ انتخاب جیتنا چاہتے ہیں تاکہ یہ ثابت کر سکیں 2018ئ میں انہیں ایک سازش کے تحت ہروایا گیا تھا۔