انڈیا پارلیمانی انتخابات: مودی کو چیلنج کرنے والا نوجوان کنہیا کمار کون ہیں؟

انڈیا پارلیمانی انتخابات: مودی کو چیلنج کرنے والا نوجوان کنہیا کمار کون ہیں؟

انڈیا کی دیگر جامعات کے ساتھ ساتھ دہلی کی جواہرلعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) پچھلے چند ماہ سے احتجاج اور مظاہروں کا محور بنی ہوئی ہے۔ جے این یو میں پیش آنے والے حالیے پرتشدد واقعات کے پیشِ نظر یہ درس گاہ اب ایک اہم سیاسی پلیٹ فارم بن کر ابھر رہی ہے اور انڈیا کی ریاست بِہار سے تعلق رکھنے والے بائیں بازو کے سٹوڈنٹ لیڈر کنہیا کمار اس موومنٹ کا چہرہ بن کر ابھرے ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کی ایک تازہ خبر کے مطابق کنہیا کی شہرت سے انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی بھی پریشان ہیں۔

اکیڈمک کمپلیکس اور وائس چانسلر آفس کے باہر طلبہ اور میڈیا کے جم غفیر کے سامنے ایک نوجوان خطاب کر رہا ہے۔ یہ نوجوان کوئی اور نہیں بلکہ یونیورسٹی کی سٹوڈنٹس یونین کا صدر کنہیا کمار ہے جو اسی دن چھ ماہ کے لیے عارضی ضمانت پر رہا ہوکر دلی کی تہاڑ جیل سے کیمپس واپس آیا ہے۔

اس پر غداری کے الزامات ہیں اور وہ طلبہ اور میڈیا کے سامنے اپنی بات رکھ رہا ہے۔ وہ اپنی بات اس اعتماد اور اس سلیقے سے رکھ رہا ہے کہ بہت سے ٹی وی چینل اسے براہ راست نشر کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں اور اتنی بھیڑ میں صرف اسی کی آواز گونج رہی ہے۔ اس کا روئے سخن ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب ہے اور وہ انھیں اور ان کی پارٹی کی پالیسیوں کو قدم قدم پر چیلنج کر رہا ہے۔

اس رات سے قبل تک ملک کے بہت سے لوگ کنہیا کمار کو جان چکے تھے کیونکہ انھیں ملک سے غداری کے الزام میں کئی دوسرے طلبہ کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا جن میں عمر خالد اور انربان اہم ہیں۔ ان پر یہ الزام لگا کہ انھوں نے نو فروری کو کشمیری رہنما افضل گورو کی پھانسی کی برسی کے موقعے پر منعقدہ پروگرام میں ہند مخالف نعرے لگائے۔

کنہیا کمار

جج نے ضمانت دیتے ہوئے جو باتیں کہیں ان یہ بات بھی شامل تھی کہ یہ معاملہ ملک مخالف نعروں کا ہے جس سے قومی سالمیت کو خطرہ ہے۔ ‘نعرے لگانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ یونیورسٹی کے محفوظ ماحول میں اس لیے سانس لے پا رہے ہیں کیونکہ ہندوستانی فوجی دنیا کے سب سے اونچے جنگی علاقے میں ہے، جہاں آکسیجن بھی اتنی مشکل سے ملتی ہے کہ افضل گورو اور مقبول بٹ کے پوسٹر سینے سے لگاکر نعرے لگانے والے ایک گھنٹے بھی نہ رہ پائیں۔’

جج نے یہ بھی کہا کہ ان نعروں سے ‘ان شہیدوں کے اہل خانہ کے حوصلے پست ہو سکتے ہیں جن کی لاشیں ترنگے (انڈین پرچم) میں لپٹی ہوئی گھر پہنچتی ہیں۔’

لیکن اس رات کے بعد کنہیا کمار کی شہرت دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچ چکی تھی۔ لوگ انھیں انڈیا کے نوجوانوں کی اور برسراقتدار حکومت اور ان کی پالیسیوں کے خلاف ایک بلند بانگ آواز ماننے لگے۔ وہ راتوں رات ہزاروں لاکھوں دلوں کی صدا بن گئے۔

یہاں سے ایک سفر شروع ہوتا ہے جو اب بائیں بازو کی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے امیدوار کے طور پر اپنے آبائی انتخابی علاقے سے پارلمیانی انتخابات میں میدان میں ہے۔

کنہیا کمار نے جس دن پرچۂ نامزدگی داخل کیا اس دن ان کے ساتھ ایک جمع غفیر تھا جس نے یہ بتا دیا کہ رواں انتخابات میں انھیں کس قدر عوام کی حمایت حاصل ہے۔

کنہیا کمار

کنہیا کمار کون ہیں؟

کنہیا کمار انڈیا کی شمال مشرقی ریاست بہار کے بیگوسرائے ضلعے کے ایک گاؤں سے آتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ ہندوؤں میں اونچی ذات کہے جانے والے بھومیہار خاندان میں پیدا ہوئے جس پر ان کا کوئی کنٹرول نہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ لڑکا پیدا ہوئے جس پر بھی ان کا کوئی کنٹرول نہیں۔

اونچی ذات میں پیدا ہونے کے باوجود وہ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جس کے پاس محض ایک ایکڑ زمین ہے۔ والد کا انتقال ہو چکا ہے اور والدہ ایک سرکاری پروگرام ‘آنگن باڑی’ میں تین ہزار روپے ماہانہ اجرت پر کام کرتی ہیں۔ بڑے بھائی آسام میں ایک کمپنی میں گارڈ کی نوکری کرتے تھے لیکن انتخابات کے لیے وہ وہاں سے چلے آئے ہیں۔

کنہیا نے پرائمری تعلیم مسند پور سے حاصل کی جبکہ ہائی سکول انھوں نے پاس کے شہر برونی سے کیا جبکہ گریجوایشن کامرس کالج پٹنہ سے۔ نالندہ اوپن یونیورسٹی سے علم سماجیات میں ایم اے کیا اور اس کے بعد وہ مقابلے کے امتحانات کی تیاری کے سلسلے میں دہلی آگئے۔

انھوں نے اپنا خرچ چلانے کے لیے چھوٹا موٹا میکنک کا کام بھی کیا لیکن پھر انھوں نے جے این یو کا ٹیسٹ دیا جہاں ان کا داخلہ ہو گیا۔ انھوں نے جے این یو سے افریقن سٹڈیز میں حال ہی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔

ان کے گائیڈ اور پروفیسر ایس این مالاکار کا کہنا ہے کہ ‘کنہیا بہترین قسم کے وطن پرست ہیں۔۔۔ اور ان کی وطن پرستی ملک کے لوگوں کی محبت پر مبنی ہے نہ کہ خطے پر۔’

کنہیا کمار

کنہیا پر الزام

کنہیا کمار کو 12 فروری سنہ 2016 کو جے این یو کیمپس سے کئی دوسرے طلبہ کے ساتھ گرفتار کیا گيا اور 13 فروری کو ان پر تعزیرات ہند کی دفعہ 124-اے (بغاوت) اور 120-بی (مجرمانہ سازش) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

ان پر یہ مقدمہ بی جے پی کے رکن پارلیمان مہیش گیری اور ان ہی کی پارٹی کی سٹوڈنٹ ونگ اے بی وی پی کی شکایت پر درج کیا گيا۔ ان پر انڈین پارلیمنٹ پر حملہ کرنے والے افضل گورو کی پھانسی کے خلاف بعض طلبہ کی جانب سے منعقدہ پروگرم کے معاملے میں الزام لگایا گیا۔ کنہیا کمار ان الزامات کی تردید کرتے ہیں کہ نہ تو وہ نعرہ لگانے میں شریک تھے اور نہ ہی انھوں نے ملک کی سالمیت کے خلاف ایک لفظ بھی کہا ہے۔

اس سلسلے میں جے این یو نے بھی ایک جانچ کیمٹی قائم کی اور اس میں کنہیا کمار پر دس ہزار روپے کا جرمانہ کیا گیا کہ منتظمین سے دھوکے سے پروگرام کی اجازت لی گئی تھی۔ بہر حال ہائی کورٹ نے اس جرمانے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کمیٹی کے فیصلے کو ‘غیرقانونی اور کنہیا کمار کے خلاف غیر منصفانہ قرار دیا۔’

اس کے بعد تین سال تک کنہیا کمار یا اس مقدمے کے دوسرے ملزمان کے خلاف چارج شیٹ داخل نہیں کی گئی۔ اور جہاں کہیں بھی کنہیا سے اس بارے میں سوال کیا جاتا وہ یہی کہتے کہ اگر وہ غدار ہیں تو ‘حکومت اور دہلی پولیس کو ان کے خلاف چارج شیٹ دائر کرنا چاہیے نہ کہ انھیں الٹے سکیورٹی دی جانی چاہیے۔’

کنہیا پر حملہ

کنہیا کمار کو جب 15 فروری سنہ 2016 کو دہلی کے پٹیالہ ہاؤس کورٹ میں پیش کیا گیا۔ وہاں جے این یو کے طلبہ، پروفیسر اور صحافی وہاں موجود تھے تاہم وکیلوں کے ایک گروپ نے ان پر حملہ کر دیا اور انھیں زدوکوب کیا جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور کئی لوگوں نے میڈیا پر کنہیا کو مارنے کا اعتراف بھی کیا۔

جیل سے رہائی کے بعد کنہیا کمار کو موت کی دھمکیاں دی جانے لگیں۔ کنہیا کمار کو ہلاک کرنے پر انعامات کے اعلان کیے گئے۔ کسی نے پانچ لاکھ کا انعام رکھا تو کسی نے 11 لاکھ کا۔ کنہیا کے پروفیسر اور گائیڈ ایس این مالاکار نے بتایا کہ نہ صرف کنہیا کو دھمکیاں دی گئیں بلکہ ان سے منسلک لوگوں کو بھی دھمکیاں ملیں جن میں وہ خود بھی شامل ہیں۔

انتخابات میں شامل ہونے سے قبل ان کی سکیورٹی ہٹا لی گئی ہے لیکن کنہیا کو اس کی کوئی پروا نہیں کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ جس کے ساتھ عوام ہو اسے کسی کا ڈر نہیں۔

اخبار

تین مارچ کی یادگار تقریر کے بعد کنہیا

جہاں کئی ٹی وی نیوز چینل نے کنہیا کی تقریر کو براہ راست نشر کیا وہیں سوشل میڈیا پر اس کے مختلف حصے آج تک گردش کر رہے ہیں۔ انھوں نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ انھیں آزادی چاہیے۔ ہندوستان سے نہیں بلکہ ہندوستان میں آزادی چاہیے۔ بے روزگاری سے آزادی چاہیے، عدم مساوات سے آزادی چاہیے اور اس طرح انھوں نے بہت سے چیزیں گنوائیں جن سے ملک کے لوگوں کو آزادی چاہیے۔

دوسرے دن کے اخبار میں ان کی تقریر عام طور پر بڑے اخباروں کی پہلی خبر بنی۔ ہندی اخبار امر اجالا اور ہندوستان نے لکھا: ‘رہا ہوتے ہی بولا کنہیا، ‘انڈیا سے نہیں انڈیا میں آزادی چاہیے۔’

نئی دنیا نے خبر دی: ‘رہا ہوتے ہی پھر گرجا کنہیا- مودی، سنگھ، اے بی وی پی نشانے پر۔’

انگریزی اخبار دی ہندو نے پہلے صفحے پر کنہیا کی تصویر کے ساتھ لکھا ‘وی وانٹ آزادی ان انڈیا، ناٹ فرام انڈیا’ جبکہ انڈین ایکسپریس نے کنہیا کی تصویر اور انڈین پرچم کے ساتھ ‘فریڈم آف سپیچ’ کے عنوان سے خبر شائع کی۔ اخبار نے لکھا کہ کنہیا نے وزیر اعظم مودی کو اپنے نشانے پر لیا، ماں کے آنسوؤں کو یاد کیا اور کسانوں اور جوانوں کو سلام کیا۔

ہندی اخبار روزنامہ بھاسکر نے ‘بولنے کی آزادی’ کے عنوان کے تحت اس تقریر کے اہم نکات شائع کیے۔

کنہیا کمار

مودی کو چیلنج دینے والا طالب علم

کنہیا نے اپنی پہلی تقریر میں جیل کے جن دو علامتی نیلے اور سرخ کٹوروں کی بات کہی تھی وہ آج بھی اسی کے ساتھ چل رہے ہیں۔ نیلا رنگ دلتوں کا نشان ہے جبکہ سرخ کمیونسٹوں کا اور اسی دن سے وہ ان دونوں سے خود کو جوڑ کر پیش کر رہے ہیں۔

لیکن کنہیا کو انڈیا میں وزیر اعظم نریندر مودی کے سب سے بڑے ناقد کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ وہ برملا تقریباً ہر سٹیج سے انھیں چیلنج کرتے نظر آتے ہیں۔ بی بی سی کے ساتھ بات کرتے ہوئے بھی بار ہا انھوں نے وزیر اعظم کو آمنے سامنے بحث و مباحثے کے لیے چیلنج کیا ہے۔

ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ وہ سیاست میں آئے نہیں بلکہ لائے گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر انھیں ‘جھوٹے الزام’ میں جیل نہ بھیجا گیا ہوتا تو وہ آج اس قابل نہیں ہوتے۔

کنہیا کمار اور بی بی سی انڈیا ایڈیٹر روپا جھا

وہ کہتے ہیں کہ ان کی لڑائی آئین کو بچانے کی لڑائی ہے۔ ان کی لڑائی ہر دبے کچلے طبقے کی لڑائی ہے۔ ان کے مطابق اپنے کام کو ایمانداری کے ساتھ کرنا ہی سب سے بڑی وطن پرستی ہے۔

بی بی سی کی روپا جھا نے ان سے سوال کیا کہ آپ کی سوشل میڈیا کی ٹائم لائن مودی کی مخالفت سے بھری پڑی ہے۔ آخر آپ کو ان سے کیا دقت ہے؟

اس کے جواب میں انھوں نے کہا: مجھے نریندر مودی سے کوئی دقت نہیں۔ جس عہدے پر وہ بیٹھے ہیں مجھے اس کے وقار کا خیال ہے۔ میری لڑائی کسی شخص سے نہیں۔ میری لڑائی آئین کے اقدار کو نافذ کرنے کے متعلق ہے۔’

انھوں نے بی بی سی کے پروگرام کے علاوہ کئی جگہ یہ بھی کہا کہ وہ نریندر مودی سے اس لیے سوال کرتے ہیں کیونکہ وہ آج ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ ایسے میں سوال انڈیا کے پہلے وزیر اعظم سے تو نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے میں مودی کی مخالفت کرنا ملک کی مخالفت کرنا کیونکر ہو سکتا ہے۔

کنہیا کمار

کراؤڈ سورسنگ سے انتخاب لڑنا

کنہیا کمار غریب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور انھوں نے اپنے انتخاب لڑنے کے لیے انٹرنیٹ پر اپیل کی تھی۔ الیکشن کمیشن نے انتخابات کے لیے ایک امیدوار کے خرچ کرنے کی حد 70 لاکھ روپے مقرر کی ہے۔ کنہیا کمار نے ایک ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انھیں مطلوبہ رقم پانچ دنوں میں ہی حاصل ہو گئی اور اب انھوں نے اسے بند کر دیا ہے۔

پروفیسر مالاکار نے ایک انٹرویو میں کنہیا کی مقبولیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر کنہیا لوگوں سے مدد کی اپیل کرے تو وہ راتوں رات کروڑ پتی بن جائے۔

کنہیا کمار نے کہا کہ انھیں پیسے دینے والوں میں سب سے زیادہ 100-100 روپے دینے والے لوگوں کی تعداد ہے جبکہ سب سے زیادہ پانچ لاکھ ایک تعلیمی ادارے نے دیا ہے۔

انڈیا کے سینیئر صحافی دلیپ منڈل نے لکھا کہ کنہیا کو 70 لاکھ روپے آسانی سے حاصل ہوگئے لیکن ان ہی کی پارٹی کے آرہ انتخابی حلقے سے امیدوار راجو یادو کو دو لاکھ بھی نہ مل سکے۔ کنہیا کمار سوشل میڈیا پر بہت مقبول ہیں۔ ٹوئٹر، فیس بک اور یوٹیوب پر ان کے لاکھوں فالوورز ہیں۔

انڈیا میں کراؤڈ سورسنگ کے ذریعے انتخابات نئی بات نہیں ہے۔ اس سے قبل عام آدمی پارٹی نے بھی لوگوں سے چندے کی اپیل کی تھی اور رواں انتخابات میں دہلی کی ان کی ایک امیدوار نے بھی آن لائن چندے کی اپیل کی ہے۔

کنہیا کی عوام میں مقبولیت

کانگریس کے سینیئر رہنما ششی تھرور نے کہا کہ کہنیا ملکی سطح کے سٹار بن گئے ہیں اور انھوں نے بی جے پی کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے اس طرح کا سٹار پیدا کر دیا۔

انتخابات سے قبل بھی کہنیا کمار کو ملک کے طول و عرض میں جگہ جگہ مدعو کیا گیا۔ لیکن اب جبکہ وہ انتخابات میں مشغول ہیں ان کے پرچار کے لیے پرکاش راج جیسے اداکار بیگو سرائے میں موجود ہیں۔

کنہیا کا گذشتہ تین برسوں سے کام دیکھنے والے دھننجے کمار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پرکاش راج سات دنوں تک لگاتار کہنیا کمار کے ساتھ ان کی انتخابی مم میں شریک رہیں گے۔ جبکہ نغمہ نگار اور سکرپٹ رائٹر جاوید اختر ان کے ساتھ 23 اپریل کو ہوں گے اور اداکارہ شبانہ اعظمی ان کے ساتھ 25 مئی کو ہوں گی۔

انھوں نے یہ بھی بتایا کہ معروف سٹینڈ اپ کامیڈین کنال کامرا بھی وہاں موجود ہیں اور انتخابی مہم میں زور شور سے شرکت کر رہے ہیں۔

بیگو سرائے سے کنہیا کمار کے مخالف بی جے پی کے امیدوار گری راج سنگھ ہیں اور وہ بھی کنہیا کی طرح بھومیہار ذات سے آتے ہیں۔ کانگریس اور راشٹریہ جنتادل کے بڑے اتحاد کے امیدوار تنویر حسن ہیں جنھیں گذشتہ انتخابات میں خاطر خواہ ووٹ آئے تھے اور وہ دوسرے نمبر پر رہے تھے۔

اردو کے سینیئر صحافی اور مسلم دنیا کے ایڈیٹر زین شمسی نے بتایا کہ سوشل میڈیا کی حقیقت اور زمینی حقیقت مختلف ہوتی ہے۔ کہنیا کا جیتنا مشکل ہے کیونکہ بھومیہار ووٹ زیادہ تر گریراج سنگھ کو جائیں گے جبکہ مسلمانوں کا ایک طبقہ تنویر حسن کے ہی ساتھ رہے گا۔

کنہیا سے ایک صحافی نے جب یہ سوال پوچھا کہ جب وہ جیت کر پارلیمان جائیں گے تو وزیر اعظم مودی کے سامنے وہ کس طرح سوال کریں گے تو کہنیا نے کہا کہ اگر وہ جیت کر جائیں گے تو مودی وزیر اعظم نہیں ہوں گے۔ ان کا اشارہ انڈیا کے بدلے ہوئے موڈ کی طرف تھا لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ بہ فرض محال اگر ایسا ہوتا ہے تو کیا ہوگا۔