بہاولپور کا نور محل: یہ کسی نواب کی محبت کی یادگار نہیں بلکہ مہمان خانہ ہے

بہاولپور کا نور محل: یہ کسی نواب کی محبت کی یادگار نہیں بلکہ مہمان خانہ ہے

سابقہ ریاست بہاولپور کے نوابوں کے پاس بہت دولت تھی۔ انھوں نے اپنے علاقے کی ترقی کے لیے دل کھول کر اسے استعمال کیا اور ساتھ ساتھ اپنے شایانِ شان محلات بھی تعمیر کروائے۔

ریاست تو نہیں رہی مگر اس کی کہانی سنانے کے لیے نوابوں کی تعمیر کردہ عمارتیں ضرور موجود ہیں۔ یہ ایک شاندار کہانی ہے اور سننے سے زیادہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ جب آپ بہاولپور کا رُخ کریں تو آپ کو صرف ’دیکھنے والی آنکھ‘ چاہیے اور کچھ نہیں۔

وکٹوریا ہسپتال، لائبریری، میوزیم، ڈرنگ سٹیڈیم، ایجرٹن کالج جیسی تاریخی عمارتوں سے ہوتے ہوئے اگر آپ نور محل پہنچیں تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ریاست کے دور میں بننے والی سہولیات خطے کے اعتبار سے اپنے وقت میں کافی جدید تھیں۔

اور پھر نور محل۔۔۔وسیع و عریض سبزہ زاروں میں کھڑی یہ عمارت مغربی اور اسلامی طرزِ تعمیر کا ایک خوبصورت امتزاج ہے۔ اس کی آب و تاب اور طمطراق دور ہی سے آپ کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

اسلام آباد میں ایک دن میں کیا کیا دیکھا جا سکتا ہے

لال سہانڑہ پارک: کالے ہرن اور راج ہنس کا مسکن

برف باری چھوڑیں، پوٹھوہار کے قلعے ملاحظہ فرمائیں!

چولستان کا وہ قلعہ جو آپ کو صدیوں پیچھے لے جائے گا

اپنے پہلوؤں میں نور محل سبزے کی چادر بچھائے ہے۔ اس کے عین سامنے دائرے کی شکل میں بنے لان میں بیٹھے ہلکے سرخ اور سفید رنگ کی عمارت کو دیکھتے آپ اس کے سحر میں گرفتار ہونے کے خطرے سے دوچار ہو سکتے ہیں۔

تقریباً ڈیڑھ سو سال پرانا یہ محل ان بہت سے محلات میں سے ایک ہے جو 19ویں صدی کے آواخر اور بیسویں صدی کے آغاز کے دوران بہاولپور میں تعمیر ہوئے۔ باقی محلات شاید اس سے بھی زیادہ خوبصورت ہیں مگر نور محل میں کچھ الگ ضرور ہے۔

نور محل کس نے اور کس کے لیے بنوایا؟
اس سوال کے جواب میں بہت سی کہانیاں اور قصے مشہور ہیں۔ سب سے زیادہ جو ہمیں سننے کو ملا وہ کچھ یوں تھا۔

نور محل نواب صادق محمد خان عباسی چہارم نے سنہ 1872 میں تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ انھوں نے یہ محل اپنی بیگم کے لیے بنوایا تھا جو تین سال کے عرصے میں مکمل ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ان ہی کے نام سے منصوب ہے۔

تاہم ان کی بیگم نے اس محل میں صرف ایک رات قیام کیا کیونکہ انھیں یہ بات پسند نہیں آئی کہ محل کے قرب میں ہی ایک قبرستان موجود تھا۔ نور محل کے حوالے سے یہی کہانی آپ کو انٹرنیٹ پر بھی بیشمار جگہ ملے گی۔ مگر کیا یہ حقیقیت ہے؟

’کوئی بیگم یہاں نہیں رہی‘
سابق ریاست بہاولپور کے آخری امیر نواب سر صادق محمد خان پنجم کے نواسے صاحبزادہ قمرالزمان عباسی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سوائے سنِ تعمیر کے، اس کہانی میں کچھ بھی درست نہیں۔

’لوگ ڈائیلاگ بازی کرتے ہیں۔ اپنی طرف سے کہانیاں بنا لیتے ہیں کہ جی بیگم کا نام نور جہاں تھا۔ جب نہیں پتا تو نہ بولو۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’کوئی بیگم کبھی یہاں نہیں رہیں‘ اور یہ محل کسی بھی بیگم کے لیے نہ تو تعمیر ہوا اور نہ ہی اس کے نام میں موجود نور کسی بیگم کے نام سے منصوب ہے۔ اُس زمانے میں کسی بیگم کا نام لینا بھی برا سمجھا جاتا تھا۔‘

پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر بہاولپور کے تاریخی صادق ایجرٹن کالج کے شعبہ تاریخ کے سابق صدر ہیں اور سابق ریاست کی تاریخ پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کا استدلال ہے کہ نور محل کی تعمیر کو کسی بیگم سے منصوب کرنا غلط ہے۔

’اس زمانے میں اس علاقے میں کھلے عام بیگم کا نام لینا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا۔ وہ کہتے تھے نواب صاحب کی دیوھڑی یعنی نواب صاحب کی گھر والی کا نام لینے کی ممانعت تھی۔ یہ محل کسی بیگم کے نام پر نہیں ہے۔‘

آئیے آپ کو ’نور محل‘ کی سیر کروائیں!
پاکستان بننے کے بعد نور محل کچھ عرصہ اوقاف کے پاس رہا اور پھر پاکستانی فوج کو لیز پر دے دیا گیا جس نے بعد ازاں اس کو خرید لیا۔ ان دنوں یہ فوج کے زیرِ انتظام ہے۔

اس کی عمارت میں ریاست کی تاریخ اور خصوصاً نواب سر صادق محمد خان پنجم کے حوالے سے چیزیں رکھی گئی ہیں۔ آپ ایک معمولی سے رقم کا ٹکٹ خرید کر اس کی سیر کر سکتے ہیں۔

نور محل میں ’نور‘ کیا ہے؟
صاحبزادہ قمرالزماں عباسی کے مطابق ’جیسے اللہ کا نور ہے ویسے ہی اس محل کو نور یعنی روشنی کی نسبت دی گئی ہے۔‘

آفتاب حسین گیلانی بہاولپور کی اسلامیہ یونیورسٹی کے شعبہ مطالعہ پاکستان کے سربراہ ہیں۔ وہ بہاولپور اور اس کی تاریخ کے حوالے سے کتابیں اور کئی مکالے لکھ چکے ہیں۔ وہ بھی صاحبزادہ قمرالزماں سے اتفاق کرتے ہیں۔

’نور محل میں نور کا مطلب روشنی ہے۔ اس محل میں کوئی بیگم نہیں ٹھہریں۔ نوابین یہاں آتے تھے اور چلے جاتے تھے، وہ بھی یہاں ٹھہرے نہیں۔‘

روشنی کا انتظام
محل کی تعمیر اس طرح کی گئی ہے کہ اس میں سورج کی روشنی کے داخل ہونے کے لیے خاص طور پر راستے رکھے گئے ہیں۔ محل کے مرکزی ہال میں نواب کے بیٹھنے کے دربار کے عین اوپر شیشوں کی دیوار نظر آتی ہے۔

اس میں شیشوں کا استعمال اس طرح کیا گیا ہے کہ عمارت کے ہر کونے میں قدرتی روشنی رہتی ہو گی۔ اس کا اندازہ اس شیشے سے لگایا جا سکتا ہے جو نواب کے دربار کے عقب میں نصب ہے۔

ان دنوں یہاں ہفتے کے آخری دو دن لائٹ شو منعقد کیا جاتا ہے۔ یہ منظر قابلِ دید ہوتا ہے جو نور محل کے حقیقی معنی کی عکاسی کرتا ہے۔ اس میں محل کو باہر سے لائٹوں سے روشن کیا جاتا ہے۔ اس کے گنبدوں پر نوابین کی تصاویر بھی دکھائی جاتی ہیں۔

تو نور محل کس کے لیے بنایا گیا؟
صاحبزادہ قمرالزماں عباسی کے مطابق یہ مہمان خانہ تھا۔ ’اس وقت کی بڑی بڑی ریاستوں کے نواب اس میں ٹھہرے ہیں۔ بعد میں سابق وزیرِاعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ فاطمہ جناح جیسی شخصیات بھی یہاں ٹھہری ہیں۔‘

پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر کے مطابق اس مہمان خانے میں اس وقت کے شاہِ ایران کے علاوہ راج برطانیہ کے وائسرائے، گورنر پنجاب اور پاکستان کے سابق صدر اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ایوب خان بھی ٹھہر چکے ہیں۔

نوابوں کے دور میں بھی نور محل میں ریاستی اور سرکاری تقریبات منعقد کی جاتی تھیں۔ ’ریاست بہاولپور کے آخری تین نواب اسی ہال کے اندر تخت نشین ہوئے تھے۔ یعنی اس میں ان کی دستاربندی کی گئی تھی۔‘

جرمنی سے آیا پیانو اور حج کی گاڑی
موجودہ نور محل کی عمارت میں ایک پیانو بھی رکھا گیا ہے۔ اس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ نواب صادق محمد خان چہارم جن کو صبحِ صادق کا لقب بھی دیا گیا تھا انھوں نے جرمنی سے سنہ 1875 میں درآمد کیا اور اپنی بیگم کو تحفے میں دیا۔

تاہم پروفیسر طاہر کا کہنا ہے کہ یہ پیانو درحقیقت ’نواب صادق محمد خان پنجم کا تھا۔ وہ پیانو بجانا بھی جانتے تھے۔‘

نواب صادق محمد خان پنجم سنہ 1935 میں حج کے لیے سعودی عرب گئے تھے۔ اس سفر کے دوران انھوں نے جو گاڑی استعمال کی وہ بھی آپ کو محل کے باہر کھڑی ملے گی۔

مغرب اور مشرق کا ملاپ
نور محل کی تعمیر میں مغربی اور اسلامی دونوں طرز کی تعمیرات کا امتزاج ہر جگہ نظر آتا ہے۔ آپ جیسے ہی اس میں داخل ہوں اور نیچے فرش پر دیکھیں اور سر اٹھا کر چھت کو دیکھیں۔ ان میں بنے نقوش ان دونوں طرزِ تعمیر کی عکاسی کرتے نظر آئیں گے۔

مرکزی ہال کے دونوں اطراف رہائشی کمرے تھے ان میں زیادہ تر اب مقفل ہیں۔ ایک کمرہ اور اس میں لگا بیڈ اور دیگر فرنیچر سیاحوں کے لیے کھولا گیا ہے۔ محل کے مختلف دالانوں میں ریاست بہاولپور کے دور کی اشیا، لباس، ہتھیار اور دیگر اشیا رکھی گئی ہیں۔

’فرنیچر یورپی ممالک سے منگوایا گیا‘
آفتاب حسین گیلانی کے مطابق محل کا فرنیچر برطانیہ، اٹلی، فرانس اور جرمنی وغیرہ سے درآمد کیا گیا تھا۔ یہ فرنیچر آپ کو مرکزی ہال میں بھی ملے گا اور بیڈ روم میں بھی۔ آج بھی اس کی چمک دمک قائم ہے۔

دیواروں پر تصویروں کی مدد سے نواب سر صادق محمد خان عباسی پنجم اور ان کے دور کی تاریخ آویزاں ہے۔ محل میں ایک بلیئرڈ روم بھی موجود ہے جس میں سنوکر کا میز اور ضروری لوازمات آج بھی موجود ہیں۔ اس کمرے کا دروازے سامنے برآمدے میں کھلتا ہے۔

شام کو غروب ہوتے سورج کی روشنی برآمدے کی محرابوں سے چھنتی محل میں داخل ہوتی ہے۔ صبح سے لے کر شام اور پھر چاند کی راتوں میں بھی نور محل میں روشنی ضرور رہتی ہے۔