ایک قتل کی تفتیش: شام کی کرد سیاسی رہنما کارکن ہفرین خلف کو کس نے قتل کیا؟

ایک قتل کی تفتیش: شام کی کرد سیاسی رہنما کارکن ہفرین خلف کو کس نے قتل کیا؟

بی بی سی عریبک کی تحقیقات میں ناقابل تردید شواہد سامنے آئے ہیں جس سے پتا چلتا ہے کہ شام کی کرد سیاسی رہنما ہفرین خلف کو سیرین نیشنل آرمی نامی ترکی نواز باغیوں کے ایک گروہ نے پھانسی دے دی ہے۔

احرار الشرقیہ نامی اس گروہ نے کہا ہے کہ وہ اس کی موت کے ذمہ دار نہیں ہیں۔

لیکن شواہد یکسر مختلف کہانی بیان کرتے ہیں۔

34 سالہ ہفرین خلف شام کی تمام نسلی برادریوں اور قبائل میں مساوات کی مہم چلا رہی تھیں اور انھوں نے شام میں کرد کے زیر انتظام علاقے روجاوا پر ترکی کے حملے کے خلاف مضبوط موقف اختیار کیا تھا۔

نسلوں کے درمیان مساوات
نوجوان سیاست داں خلف نے فیوچر سیریا پارٹی یعنی شامی قومی پارٹی کے قیام میں تعاون کیا تھا جو یہ چاہتی تھی کہ شام کے مسیحی، کرد اور عرب خطے کی تعمیر نو میں شانہ بہ شانہ کام کریں۔

یہ بھی پڑھیے

دولتِ اسلامیہ سے وابستہ جنگجوؤں کے متعدد رشتہ دار فرار

شام: موبائل فوٹیج میں سامنے آنے والے ’جنگی جرائم‘

ان کی ساتھی، دوست اور سابق روم میٹ نوبہار مصطفی نے ان کی موت پر کہا: ‘میں نے اپنی بہن، اپنی ساتھی اور میرے لیے میں نے اپنی ایک لیڈر بھی کھودیا ہے جو کہ کام میں میری ساتھی تھی۔

‘ہم نے ایک ایسی خاتون کو کھو دیا ہے جو دوسری خواتین کی آواز اٹھانا چاہتی تھی، جو لوگوں کو بااختیار بنانا چاہتی تھی اور جو امن کے لیے کام کر رہی تھی۔’

ہفرین خلف (درمیان میں) نے فیوچر شامی پارٹی کے قیام میں تعاون کیا تھا
12 اکتوبر کی صبح تقریباً ساڑھے پانچ بجے ہفرین خلف شمالی شامی شہر الحسکہ سے مغرب کی جانب ایم 4 موٹروے سے رقہ میں اپنی پارٹی کے ہیڈکوارٹر کے لیے روانہ ہوئیں جو کہ ان کے یہاں سے تین گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔

ابھی صرف تین ہی دن ہوئے تھے کہ امریکی افواج نے اس علاقے کو خالی کیا تھا جو کہ ترکی کے صدر اردوغان کو شام کی سرحد کے اندر ترکی فوج کو آپریشن کی اجازت دینے کے لیے کیا جانے والا عمل تھا۔

ایم 4 سڑک کہیں بھی محاذ کے آس پاس سے نہیں گزرتی لیکن اس دن عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ترکی سے ایک فوجی کانوائے شام کے اندر داخل ہوا اور وہ ایم 4 موٹر وے کی جانب جا رہا تھا۔

ٹیلیگرام پر ویڈیو
یہ کانوائے ترکی نواز شامی نیشنل آرمی (ایس این اے) کا حصہ تھا اور اس کے نام سے شامی صدر بشار الاسد کی مرکزی حکومت کی فوج سے ابہام پیدا نہیں ہونا چاہیے۔

ایس این اے 41 مختلف گروہوں کا ایک امبریلا گروپ ہے جس میں 70 ہزار سے زیادہ فوجی ہیں۔ اسے ترکی نے سنہ 2019 میں قائم کیا تھا۔

ترکی ان دھڑوں کو تربیت اور اسلحہ فراہم کرتا ہے۔ وہ شمال مشرقی شام میں امریکی افواج کے انخلا کے بعد سے کرد فورسز کے خلاف برسر پیکار ہیں۔

ان دھڑوں میں سے ایک احرار الشرقیہ نے 12 اکتوبر سنہ 2019 کو انکرپٹڈ میسیجنگ ایپ ٹیلیگرام پر ویڈیوز پوسٹ کیے۔

ایک ویڈیو میں باغی گروپ ایم 4 موٹر وے پر اپنی آمد کا اعلان کرتا ہے۔

ہفرین خلف کی کار کو گولیوں سے چھلنی دیکھا گیا
ویڈیو میں سورج طلوع ہوتا نظر آ رہا ہے اور ان کی آمد کا وقت صبح ساڑھے چھے سے سات کے درمیان ہے۔

ایک ویڈیو کے پس منظر میں ایک کنکریٹ کی رکاوٹ، ایک ٹیلیفون کا کھمبا اور ایک دھول مٹی کی سڑک دیکھی جا سکتی ہے۔

ویڈیو کے پس منظر کو اس علاقے کی سیٹلائٹ سے لی جانے والی تصاویر سے ملانے پر بی بی سی نے پایا کہ اس کا محل وقوع تروازیہ چیک پوائنٹ تھا۔

یہی وہ چیک پوائنٹ تھا جس کی جانب ہفرین خلف کی کار 12 اکتوبر کی صبح جا رہی تھی۔

غیر عدالتی پھانسی
اس کے بعد ویڈیو میں ایک خوفناک موڑ آتا ہے جس میں تین افراد کی گرفتاری کو دکھایا گیا اور ان کے بارے میں بتایا گيا ہے کہ وہ ‘پی کے کے’ کے جنگجو ہیں۔ پی کے کے کردوں کا ایک مسلح گروپ ہے (جو کہ ترکی کی فوج کے خلاف دہائیوں سے برسرپیکار ہے)۔

ایک ویڈیو میں احرار الشرقیہ کا ایک شخص اپنے ایک ساتھی سے کہتا ہے کہ وہ زمین پر گرے ہوئے آدمی کو گولی مارتے ہوئے اس کی فلم بنائے۔ اس پھانسی کو تروازیہ کے چیک پوائنٹ پر فلمایا گیا ہے۔

احرار الشرقیہ نے پہلے تو مکمل طور پر وہاں اپنی موجودگی سے انکار کیا لیکن بعد میں گروپ نے بی بی سی کو دیے اپنے ایک بیان میں کہا کہ جس شخص نے اس دن ایم 4 پر سڑک کو روکا تھا اس نے بغیر اجازت ایسا کیا۔۔۔ جنھوں نے قیادت کی خلاف ورزی کی ہے انھیں ٹرائل کے لیے بھیج دیا گيا ہے۔

ٹیلیگرام پر جو ویڈیو پوسٹ کی گئی ہے اس میں احرار الشرقیہ کے جنگجو کو ہفرین خلف کی کار کو گھیرے دیکھا جا سکتا ہے
احرار الشرقیہ نے یہ بھی کہا کہ انھوں نے ایک کار پر گولیاں چلائیں جس نے رکنے سے انکار کیا تھا لیکن گروپ کا زور دے کر کہنا ہے کہ انھوں نے ہفرین خلف کو نشانہ نہیں بنایا اور انھیں پتہ نہیں کہ وہ کیسے ہلاک ہوئیں۔

بہر حال سوشل میڈیا پر ان کے اپنے پوسٹ کیے جانے والے ویڈیوز اور ایک عینی شاہد جنھوں نے بی بی سی عربی کے ساتھ خصوصی بات چیت کی دونوں سے پتہ چلتا ہے کہ کرد سیاست داں کی ہلاکت اس گروپ کے ہاتھوں ہوئی ہے۔

بی بی سی کے جیولوکیشن تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ ہفرین خلف کی کار تروازیہ چیک پوائنٹ کے پاس سڑک سے نیچے اتری ہوئی تھی۔

اس دن پوسٹ کیے جانے والے اپنے آخری ویڈیو میں احرار الشرقیہ کے جنگجوؤں کو ہفرین کی کار کو گھیرے دیکھا جا سکتا ہے۔ کار کے فرش پر ایک لاش پڑی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ان کے ڈرائیور فرہاد رمضان کی لاش ہوگی۔

اسی وقت ویڈیو میں کار سے ایک پژمردہ سے خاتون کی آواز آتی سنائی دیتی ہے۔

‘اس دنیا میں انسانیت نہیں رہی’
ہفرین کی ماں سعود محمد نے کہا کہ ‘یہ ہفرین کی آواز ہے۔’ میں پانچ ہزار آوازوں میں سے اس کی آواز پہچان سکتی ہوں۔

جب میں نے اس کی آواز سنی تو میں نے دنیا کی بربریت دیکھی کہ اب دنیا میں انسانیت نام کی چیز نہیں بچی ہے۔’

شمالی شام کے دیرک میں 34 سالہ خلف کی تدفین ہوئی
بظاہر یہ پتا چلتا ہے کہ جب جنگجو نے ان کی کار کو روکا اس وقت تک ہفرین خلف زندہ تھیں۔ اس کے علاوہ اس بات کے مزید شواہد ہیں کہ ان کی موت کار کے اندر نہیں ہوئی۔

ایک کسان جس نے بی بی سی سے خصوصی بات چیت کی اور کہا کہ ان کی شناخت ظاہر نہ کی جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب احرار الشرقیہ کے باغی وہاں پہنچے تو وہ چیک پوائنٹ سے گزر رہے تھے۔

جب ساڑھے سات بجے جنگجو چلے گئے تو وہ وہاں پہنچے۔ کسان نے کہا کہ ‘وہاں کا منظر خوفناک تھا۔ جس پہلے شخص کو میں نے دیکھا وہ ایک لڑکی تھی۔ اس کی لاش کار سے صرف پانچ میٹر دور تھی۔۔۔ اس کے چہرے کو بالکل مسخ کر دیا گیا تھا اور اس کے پاؤں کو بری طرح زخمی کر دیا گیا تھا، شاید توڑ دیا گیا تھا۔’

کسان نے تروازیہ چیک پوسٹ پر نو لاشیں دیکھیں۔ انھوں نے بتایا کہ ‘مقامی افراد نے کار میں لاش رکھنے میں ان کی مدد نہیں کی۔ وہ اس بات سے خوفزدہ تھے کہ انھیں بھی مار دیا جائے گا۔’

20 گولیوں کے زخم
12 اکتوبر 2019 کو دوپہر 12 بجے ہفرین کی لاش تین دوسری لاشوں کے ساتھ مالیکیہ فوجی ہسپال کے حوالے کی گئی۔

اس وقت جو طبی رپورٹ فراہم کی گئی اس میں کہا گیا کہ ہفرین خلف کو 20 سے زیادہ گولیاں لگی تھیں۔ ان کے دونوں پاؤں ٹوٹ چکے تھے اور ان کو شدید جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

بی بی سی عربی کا خیال ہے کہ ہفرین کو کار سے زندہ گھسیٹ کر نکالا گیا، اس پر جسمانی تشدد کیا گیا اور پھر اسے احرار الشرقیہ کے جنگجوؤں کے ہاتھوں کار سے باہر ختم کر دیا گيا۔

احرار الشرقیہ نے بی بی سی کو بتایا: ‘ہم کئی بار واضح طور ہفرین خلف کے قتل کی ذمہ داری کو مسترد کر چکے ہیں۔’

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم نے ترکی سے کہا کہ ہفرین خلف کے قتل کے متعلق ایک غیرجانبدار تحقیق کرائے۔

لیکن اب تک اس پر عمل در آمد نہیں ہوا ہے۔

شمالی شام میں ترکی کی فوج کشی کی ابتدا کے بعد سے ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کا یہ موقف رہا ہے کہ دہشت گردی کو روکنے اور امن حاصل کرنے کے لیے فوجی آپریشن ضروری ہے۔

ترکی کی جانب سے کوئی بیان نہیں
اکتوبر سنہ 2019 میں امریکی افواج کے انخلا کے بعد سے سینکڑوں ہلاک ہونے والوں میں سے ہفرین ایک ہیں۔ امریکی فوج کے جانے کے بعد ایک خلا پیدا ہوگیا ہے جس میں ترکی نواز ایس این اے گروپ اور اس کے اندر احرار الشرقیہ جیسے دھڑے سرگرم ہو گئے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بی بی سی کو بتایا کہ ہفرین خلف اور دیگر افراد کی احرار الشرقیہ کے ہاتھوں ہلاکت کی آزانہ جانچ کی جانی چاہیے اور اس کے قصور واروں کو سزا دی جانی چاہیے۔۔۔۔ جب تک کہ ترکی اپنی جانب سے لڑنے والی فورسز پر لگام نہں لگاتا اور جب تک وہ خلاف ورزیوں کی کھلی چھوٹ دیتا رہے گا اس قسم کے مزید مظالم سامنے آتے رہیں گے۔

بی بی سی کی جانب سے درخواست کے باوجود ترکی حکومت نے ابھی تک اس بابت کچھ نہیں کہا ہے۔