خواتین میں اینٹی بایوٹکس کا رحجان دماغ کیلیے مضر قرار

ہارورڈ: ایک تحقیق کے بعد بالخصوص خواتین کو خبردار کیا گیا ہے کہ اگر وہ ان کی عمر 50 کے عشرے میں ہیں اور وہ وسط عمر میں ہیں تو اینٹی بایوٹکس سے اجتناب کریں ورنہ آگے چل کر ان کی دماغی صلاحیت میں کمی ہوسکتی ہے اور وہ الزائیمر کی شکار بھی ہوسکتی ہیں۔

ہارورڈ میڈیکل اسکول اور رش میڈیکل کالج نے ایک تحقیق کے بعد کہا ہے کہ 50 کے عشرے کی عمر والی خواتین اس دوران اگر دوماہ تک بھی اینٹی بایوٹکس کھائیں تو سات برس بعد دیگر خواتین کے مقابلے میں ان کے معیاری اکتسابی ٹیسٹ میں نمایاں کمی واقع ہوسکتی ہے۔ اس تحقیق میں ماہرین نے دیگر اہم عوامل کو بھی سامنے رکھا ہے۔

اس ضمن میں 1989 میں 25 سے 42 سال کی 116,430 خواتین نرسوں کو بھرتی کیا گیا ہے۔ تمام خواتین سے ہر سال دو سوالنامے بھروائے گئے تھے۔ ان سے غذا، نیند، ورزش، امراض اور اینٹی بایوٹکس کے استعمال پر سوالات کئے گئے تھے۔ پھر 2009 میں خواتین کی اوسط عمر 57 ہوئی تو ان سے اینٹی بایوٹکس کے استعمال پر سوالات پوچھے گئے۔ اس میں اگلے چار برس تک سات درجوں کی اینٹی بایوٹکس ادویہ کے استعمال کا پوچھا گیا۔

ان میں سے اینٹی بایوٹکس کھانے والے خواتین کو سات برس بعد اکتساب اور دماغ کے کئی معیاراتی (اسٹینڈرڈ) ٹیسٹ سے گزارہ گیا۔ ان میں شارٹ ٹرم میموری، وژول لرننگ، توجہ ، پروسیسنگ اسپیڈ اور دیگر ٹیسٹ شامل تھے۔ ٹیسٹ کے وقت خواتین کی اوسط عمر 61 برس تھی۔

معلوم ہوا کہ جن خواتین نے صرف دو ماہ تک ایںٹی بایوٹکس کھائی ان کے جسم کے مقابلے میں دماغ 3 سے 4 برس زیادہ بوڑھا دیکھا گیا۔ پھر یہ بھی دیکھا گیا کہ جن خواتین نے وسط عمر ( مڈل ایج) میں اینٹی بایوٹکس کا زیادہ استعمال کیا ان میں الزائیمر کا خطرہ بھی بڑھا ہوا تھا۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اس میں ’معدے اور دماغ‘ کا گہرا تعلق ہے کیونکہ اینٹی بایوٹکس پہلے نظامِ ہاضمہ میں جرثوموں کو بدلتی ہیں جس کا آگے چل کر اثر دماغ اور ذہنی صلاحیت پر پڑتا ہے۔

اگرچہ یہ تحقیق شائع ہوچکی ہے لیکن سائنسدانوں نے اس پر مزید تحقیق پر زوردیا ہے۔