طیبہ تشدد کیس: مجرمان کی سزا میں اضافے کا فیصلہ کالعدم

طیبہ تشدد کیس: مجرمان کی سزا میں اضافے کا فیصلہ کالعدم

پاکستان کی سپریم کورٹ نے اپنی کمسن گھریلو ملازمہ پر تشدد کے الزام میں اسلام آباد کے سابق ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی اور ان کی اہلیہ ماہین علی کو دی گئی سزا میں اضافے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے متعلقہ عدالت کی طرف سے دی گئی ایک برس کی سزا کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔

مجرمان کی طرف سے ریاست کی جانب سے ان کی سزا کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کے اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا اور یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ سزا کے خلاف اپیل دائر کرنے کا اختیار مجرمان کے پاس ہوتا ہے ریاست کے پاس نہیں۔

یہ بھی پڑھیے
استحصال کی کہانیاں، کم سن ملازماؤں پر تشدد

طیبہ کیس: ’انگوٹھا لگاؤ اور بچی لے جاؤ‘

طیبہ تشدد کیس میں سابق جج اور اہلیہ کو ایک برس قید

طیبہ کیس: ملزم جج اور ان کی بیوی پر فرد جرم عائد

نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جمعے کو اس درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کا سزا بڑھانے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ میں شامل جسٹس یحییٰ آفریدی نے اس درخواست پر فیصلہ تحریر کیا ہے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ چونکہ مجرمان کی سزا بڑھانے کے لیے ریاست کی طرف سے درخواست دائر کرنے کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ مناسب فورم نہیں تھا تاہم عدالت کا یہ بھی کہنا ہے کہ ریاست کی طرف سے اس ضمن میں سپریم کورٹ میں بھی درخواست دائر کی گئی ہے اس لیے اس ضمن میں ریاست کا موقف بھی سنا جانا چاہیے۔

عدالت نے ریاست کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواست پر آئین کے آرٹیکل 187 کے تحت فریقین کو نوٹس بھی جاری کیے ہیں اور ان نوٹسز کی سماعت جلد مقرر کرنے کے بارے میں بھی کہا گیا ہے۔

تصویر کے کاپی رائٹAFP
واقعے کا پس منظر
صوبہ پنجاب کے وسطی شہر فیصل آباد کے قریبی گاؤں سے تعلق رکھنے والی طیبہ کئی برس سے ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی خان کے مکان پر ملازمہ تھی اور ان کی اہلیہ کی جانب سے بچی کو تشدد کا نشانہ بنانے کا واقعہ دسمبر 2016 میں سامنے آیا تھا۔

ذرائع ابلاغ میں شور مچنے کے بعد اسلام آباد کے تھانے آئی نائن میں اس واقع کی ایف آئی آر 29 دسمبر 2016 کو درج کی گئی تھی جبکہ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اس واقعے کا نوٹس لیا تھا۔

سپریم کورٹ میں طیبہ تشدد کیس میں متاثرہ لڑکی کے والدین نے ملزمان کو معاف کرنے سے متعلق عدالت میں بیان حلفی بھی جمع کروایا تھا تاہم عدالت نے اس کو تسلیم نہیں کیا تھا اور عدالتی حکم پر طیبہ کو والدین کے ساتھ بھیجنے کی بجائے سویٹ ہوم منتقل کر دیا گیا تھا۔

اس مقدمے میں مجرمان راجہ خرم علی اور ان کی اہلیہ ماہین علی پر جرم ثابت ہونے پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج عامر فاروق کی سربراہی میں سنگل بینچ نے انھیں مارچ سنہ 2018 میں ایک سال قید کی سزا سنائی تھی۔

مجرمان نے اس فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی جبکہ ریاست کی طرف سے بھی اس سزا کو بڑھانے کی ایک درخواست دائر کی گئی تھی جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے جون 2018 میں مجرمان کی ایک سال قید کی سزا کو بڑھا کر تین سال کر دیا تھا۔

مجرمان گذشتہ دو برس سے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں وہ اب اپنی سزا مکمل کر چکے ہیں اور اُنھیں مزید جیل میں نہیں رکھا جا سکتا۔

خیال رہے کہ عدلیہ کی تاریخ میں راجہ خرم علی کا دوسرا مقدمہ ہے جس کی سماعت ٹرائیل کورٹ میں ہونے کی بجائے ہائی کورٹ میں ہوئی۔ اس سے پہلہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قتل کا مقدمے کی سماعت بھی ہائی کورٹ میں ہوئی تھی۔

مقدمہ درج ہونے کے بعد اس کیس کی عدالتی کارروائی کے دوران پیش آنے والے اہم واقعات
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
مقدمے کا از خود نوٹس
پاکستان کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کمسن طیبہ پر تشدد کے واقع کا از خود نوٹس لیتے ہوئے پولیس کو حکم دیا کہ وہ بچی، اس کے والد اور ملزمہ کو چھ جنوری 2017 کو عدالت کے سامنے پیش کرے۔

چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے کے بعد از خود نوٹس کی بنیاد پر پہلی عدالتی کارروائی کے لیے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے دو رکنی بینچ بھی تشکیل دیا تھا۔

ماں ہونے کی دو دعویدار عدالت پہنچ گئیں
چھ جنوری 2017 کو ہی جب سپریم کورٹ میں از خود نوٹس کی سماعت کا آغاز ہوا تو دس سالہ طیبہ کی ماں ہونے کی دعویدار دو خواتین سپریم کورٹ میں پہنچ گئیں۔

یہ دونوں خواتین فیصل آباد کی رہائشی تھیں جن میں سے ایک کا نام فرزانہ اور دوسری کا نام کوثر تھا۔

پولیس نے دس سالہ طیبہ کے والدین ہونے کے دعویداروں کا ڈی این اے ٹیسٹ لیا تاکہ معلوم ہوسکے کہ ان کے اصل والدین کون ہیں۔

طیبہ اسلام آباد سے بازیاب
عدالت نے متاثرہ بچی اور اس کے والدین کو عدالت میں پیش نہ کیے جانے پر برہمی کا اظہار کیا اور ریمارکس دیے کہ بچی، اس کے والدین اور تمام تفتیشی ریکارڈ عدالت میں 11 جنوری کو ہونے والی سماعت میں پیش کیا جائے۔

جس کے بعد اسلام آباد پولیس کی خصوصی تفتیشی ٹیم نے مضافاتی علاقے برما ٹاؤن سے طیبہ کو بازیاب کرایا۔

طیبہ کے جسم پر تشدد کے نشانات
دس جنوری 2017 کو تشدد کا شکار ہونے والی دس سالہ کمسن گھریلو ملازمہ طیبہ کے طبی معائنے کی ابتدائی رپورٹ جاری کی گئی۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے چار ڈاکٹروں پر مشتمل بورڈ نے طیبہ کے طبی معائنے کے بعد رپورٹ اسلام آباد پولیس کے حوالے کی۔

میڈیکل لیگل رپورٹ (ایم ایل آر) کے مطابق طیبہ کے جسم کے مختلف حصوں پر زخموں کے گیارہ نشانات تھے، جس میں کنپٹی کے دائیں حصے اور ہاتھ پر زخموں کے نشانات واضح تھے۔ اس کے علاوہ بازو، ٹانگوں اور کمر پر بھی تشدد کے نشانات پائے گئے تھے۔

والد نے ملزمان کو معاف کر دیا
دس جنوری ہی کو طیبہ کے والد کی جانب سے ملزمان کو معاف کرنے کے بعد عدالت نے اس وقت کے دونوں ملزمان کی ضمانت منظور کر لی تھی۔

‘انگوٹھا لگاؤ اور بچی لے جاؤ’
11 جنوری کو جب اس مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے طیبہ کے والد سے چند سوالات کیے تھے جس میں طیبہ کے والد نے بتایا کہ ایک وکیل ایک کاغد (صلح نامہ) لے کر ان کے پاس آیا تھا اور ان سے کہا تھا کہ وہ اس پر انگوٹھا لگا دیں تو انھیں بچی مل جائے گی۔

عدالت نے طیبہ کو سویٹ ہوم بھجوا دیا
اسی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے طیبہ کو سویٹ ہوم بھجوایا اور اسلام آباد پولیس کو اس کی سکیورٹی کے مناسب اقدامات کرنے کا حکم دیا۔

عدالت نے اسلام آباد پولیس کے حکام کو کہا کہ وہ اس واقعے سے متعلق دس روز میں رپورٹ دیں تاکہ ذمہ داروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جا سکے۔

سیشن جج کو کام سے روک دیا گیا
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے 12 جنوری 2017 کو اس وقت کے ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی کو کام کرنے سے روک دیا تھا۔

عدالت نے راجہ خرم علی خان کو آفیسر آن سپیشل ڈیوٹی مقرر کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں رپورٹ کرنے کا حکم دیا تھا کیونکہ پولیس حکام نے متعلقہ ہائی کورٹ کو اپنے خدشات سے آگاہ کیا تھا کہ اس مقدمے کی تفتیش میں ملزمہ کے خاوند راجہ خرم علی خان جو اسلام آباد میں اس وقت ایڈیشنل سیشن جج تھے اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

جج اور ان کی بیوی پر فرد جرم عائد
اسلام آباد ہائی کورٹ نے 16 مئی 2017 کو سابق ایڈشنل سیشن جج راجہ خرم علی اور اُن کی بیوی پر فرد جرم عائد کی۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ملزمان کی موجودگی میں ان پر فرد جرم عائد کی جس سے انھوں نے انکار کیا۔

فیصلہ محفوظ
حتمی دلائل مکمل ہونے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے 27 مارچ 2018 کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ اس مقدمے میں 19 گواہان تھے جن میں 11 سرکاری جبکہ آٹھ غیر سرکاری افراد تھے۔

محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی اور ان کی اہلیہ ماہین ظفر کو ایک، ایک سال قید اور پچاس پچاس ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔