ایران میں یوکرینی طیارے کی تباہی: ہم اب تک کیا جانتے ہیں؟ایران میں یوکرینی طیارے کی تباہی: ہم اب تک کیا جانتے ہیں؟

ایران میں یوکرینی طیارے کی تباہی: ہم اب تک کیا جانتے ہیں؟

ایران نے امریکہ، کینیڈا اور برطانوی حکام کے ان دعوؤں کی تردید کی ہے کہ ایرانی فضائی حدود میں یوکرین کے طیارے کو حادثہ ایرانی طیارہ شکن میزائل لگنے کے باعث پیش آیا تھا۔

کینیڈا کے وزیراعظم جسٹس ٹروڈو نے کہا ہے کہ انھیں متعدد ذرائع سے ملنے والی معلومات سے اشارہ ملتا ہے کہ یہ طیارہ ایران کے زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل کا نشانہ بنا۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ممکن ہے کہ یہ عمل غیرارادی طور پر ہوا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی جمعرات کو کہا کہ طیارے کے ساتھ کیا ہوا اس بارے میں ان کے ’شکوک و شبہات‘ موجود ہیں۔

تاہم یوکرین کے صدر کی جانب سے کہا گیا ہے کہ تاحال مصدقہ طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ یہ مسافر طیارہ ایرانی میزائل کا نشانہ بنا۔

یوکرین کی بین الاقوامی فضائی کمپنی کی پرواز پی ایس 752 بدھ کو ایران کے دارالحکومت تہران سے پرواز کے چند ہی منٹ بعد گِر کر تباہ ہو گئی تھی۔ اس حادثے میں طیارے پر سوار مسافروں اور عملے کے اراکین سمیت تمام 176 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

یہ طیارہ تہران سے یوکرین کے دارالحکومت کیئو جا رہا تھا اور ایران کے مقامی وقت کے مطابق صبح 6.12 پر روانہ ہوا اور محض آٹھ منٹ کے بعد گر گیا۔

ایران کا موقف کیا ہے؟
ایران کی وزارتِ خارجہ نے طیارے کے حادثے کے بارے میں مغربی ممالک کے ‘مشکوک پروپیگنڈے’ کو مکمل طور پر مسترد کیا ہے۔

ایران کے پریس ٹی وی کے مطابق ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان عباس موسوی نے جمعے کو ایک بیان میں کہا ہے ایران ‘بین الاقوامی معیار’ کے مطابق اس حادثے کی تحقیقات کر رہا ہے اور یوکرین کو ان تحقیقات کا حصہ بننے کی دعوت بھی دی گئی ہے۔

ایران کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے حکومتی ترجمان علی ربیع کا یہ بیان بھی نشر کیا ہے کہ امریکی حکومت ‘جھوٹ بولنے اور نفسیاتی آپریشنز میں ملوث ہونے کے بجائے’ اس حادثے کی تحقیقات کے ‘نتائج کا انتظار’ کرے۔

جمعرات کی شام ایران کی سول ایوی ایشن آرگنائزیشن کے سربراہ علی عابدزادے نے بھی میزائل حملے کے متعلق رپورٹس کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر طیارہ میزائل کا نشانہ بنتا تو یہ فضا ہی میں پھٹ جاتا نہ کہ زمین پر آ کر گرتا۔

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image caption
حادثے کا شکار ہونے والا طیارہ بوئنگ 800-737 تھا جو کہ بین الاقوامی ایئر لائن صنعت میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا بوئنگ ماڈل ہے
یوکرین نے کیا کہا ہے؟

یوکرین کے صدر ولادمیر زیلینسکی نے سوشل میڈیا پر ایک پیغام میں کہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ مسافر طیارہ ایران کے میزائل حملے کا شکار ہوا ہو مگر اب تک اس کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

فیس بک پر اپنی ایک پوسٹ میں انھوں نے کہا ہے کہ ‘میزائل کی بات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا، مگر ابھی تک اس کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ دنیا کے مختلف رہنماؤں کے (اس حوالے سے) بیانات سامنے آنے کے بعد ہم بین الاقوامی برادری بالخصوص امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ فضائی حادثے سے متعلق دستیاب شواہد اور ڈیٹا تفتیش کرنے والے کمیشن کو فراہم کریں۔’

ان کا کہنا تھا کہ جمعے کی سہ پہر وہ اس حوالے سے ہونے والی تفتیش کے بارے میں امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو سے بھی بات کریں گے۔

یوکرین کے صدر کا مزید کہنا ہے کہ ‘ہمارا مقصد ناقابلِ تردید سچ کی وضاحت کرنا ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ پوری بین الاقوامی کمیونٹی پر اس حادثے کا شکار بننے والے افراد اور ان کے خاندانوں کا یہ قرض (سچائی تلاش کرنا) ہے۔ انسانی جان کی قدروقیمت کسی بھی سیاسی محرک سے بالاتر ہے۔’

حادثے کے بارے میں کیا معلومات دستیاب ہیں؟
حادثے کا شکار ہونے والا طیارہ بوئنگ 800-737 تھا جو کہ بین الاقوامی ایئر لائن صنعت میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا بوئنگ ماڈل ہے۔

ایرانی حکام نے الزام عائد کیا ہے کہ یہ حادثہ تیکنیکی وجوہات کی بنا پر ہوا۔

یہ واقعہ ایران کی جانب سے عراق میں امریکہ کے زیر استعمال فضائی اڈوں پر ہونے والے میزائل حملوں کے چند گھنٹے بعد پیش آیا تھا۔ اسی وجہ سے یہ چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں کہ طیارے حادثے کی ممکنہ وجوہات تیکنیکی خرابی کے علاوہ کوئی اور بھی ہو سکتی ہیں۔

حادثے کے بعد یوکرین انٹرنیشنل ایئرلائنز نے ایران سے اپنا فضائی رابطہ منقطع کر لیا ہے جبکہ دیگر دوسری بین الاقوامی ایئر لائنز بھی ایران اور اس سے منسلک فضائی حدود کے استعمال سے گریز کر رہی ہیں۔

بین الاقوامی ایئر لائنز نے کہا ہے کہ اگلا لائحہ عمل ترتیب دینے تک وہ اپنی پروازوں کا رخ موڑتے رہیں گے اگرچہ ایسا کرنے سے کئی پروازوں کے وقت میں اضافہ بھی ہوا ہے۔

تصویر کے کاپی رائٹAFP
Image caption
جمعرات کو امریکی ذرائع ابلاغ نے امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے ذرائع سے دعوی کیا کہ انھیں (امریکہ) یقین ہے کہ طیارے کو میزائل نے نشانہ بنایا
جمعرات کو یوکرین کی سکیورٹی اور دفاع کونسل کے سیکریٹری اولیکسی ڈینیلوو نے کہنا تھا کہ طیارہ تباہ ہونے کی تین دیگر ممکنہ وجوہات کا جائزہ بھی لیا جا رہا ہے۔

ان ممکنہ وجوہات میں مسافر طیارے کا کسی ڈرون یا دوسری اڑنے والی شے سے فضائی تصادم، تیکنیکی وجوہات کی بنا پر طیارے کے انجن کی تباہی اور کسی ممکنہ دہشت گردانہ کارروائی کے نتیجے میں طیارے کے اندر دھماکہ شامل ہیں۔

اپنی ایک فیس بُک پوسٹ میں سیکریٹری اولیکسی ڈینیلوو کا مزید کہنا تھا کہ یوکرین کے تفتیش کار پہلے ہی ایران میں موجود ہیں اور وہ جہاز کے تباہ ہونے والے ملبے میں کسی میزائل کا ملبہ شامل ہونے کے حوالے سے تفتیش کرنا چاہتے ہیں۔

خیال رہے کہ ایران کے پاس روسی ساختہ میزائلوں کا دفاعی نظام موجود ہے۔

جمعرات کو ہی امریکی ذرائع ابلاغ میں امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے ذرائع سے دعوی کیا گیا کہ انھیں (امریکہ) یقین ہے کہ طیارے کو میزائل نے نشانہ بنایا۔

نیوز ویک نے عراقی اور پینٹاگون ذرائع کے حوالے سے لکھا کہ اندازہ یہی ہے کہ یہ سب حادثاتی طور پر ہوا۔ سی بی ایس نیوز نے دعوی کیا ہے کہ امریکہ کے انٹیلیجنینس حکام نے سگنلز کیچ کیے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ ایک ریڈار چلایا گیا اور دو میزائل داغے گئے۔

میزائل حملے کی افواہوں نے اس وقت زور پکڑا جب آن لائن اور سوشل میڈیا پر اس حوالے سے تصویریں وائرل ہوئیں۔

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image caption
جسٹن ٹروڈو نے کہا ہے کہ کینیڈین حکام کو فی الفور ایران میں اس حوالے سے جاری تفتیش کا حصہ بنایا جائے
جسٹن ٹروڈو کا کیا کہنا ہے؟
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کا کہنا ہے خفیہ معلومات اور شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ بدھ کو تہران کے ہوائی اڈے سے پرواز کرنے کے تھوڑی دیر بعد گر کر تباہ ہونے والا یوکرین کا مسافر بردار طیارہ ایران کے زمین سے فضا تک مار کرنے والے میزائل لگنے سے تباہ ہوا ہے۔

جمعرات کو کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا ہے کہ دستیاب شواہد ظاہر کرتے ہیں کہ طیارہ ایرانی میزائل کا شکار بنا۔ اس حادثے میں طیارے پر سوار 60 سے زیادہ سے کینیڈین شہری بھی ہلاک ہوئے تھے۔

کینیڈا کی ریاست اوٹاوا میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کینیڈین وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں متعدد ذرائع بشمول ہمارے اتحادیوں اور ہماری اپنی اینٹیلیجینس سے شواہد ملے ہیں۔ شواہد ظاہر کرتے ہیں کہ طیارہ ایران کی جانب سے زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل کا نشانہ بنا ہے۔’

انھوں نے کہا ‘ہو سکتا ہے کہ یہ غیر ارادی ہو۔ نئی معلومات اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ اس معاملے میں جامع تحقیقات کی جائیں۔’

جسٹن ٹروڈو بظاہر امریکی ذرائع ابلاغ میں چلنے والے ان رپورٹس پر تکیہ کر رہے تھے جن میں حادثے کا الزام ایران پر عائد کیا جا رہا ہے۔ ایرانی حکومت نے میزائل حملے کے امکانات کو رد کیا ہے۔

جسٹن ٹروڈو نے کہا ہے کہ کینیڈین حکام کو فی الفور ایران میں اس حوالے سے جاری تفتیش کا حصہ بنایا جائے۔

انھوں نے کہا ہے کہ وہ اس حوالے سے یوکرین کے صدر ولادمیر زیلینسکی سے بات کر چکے ہیں جنھوں نے انھیں یقین دلایا ہے کہ ان کا ملک ‘جامع تحقیقات کو یقینی بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کر رہا ہے۔

جسٹن ٹروڈو نے زور دے کر کہا ہے کہ کینیڈا کے حکام اس وقت تک آرام نہیں کریں گے جب تک کہ وہ (ان تحقیقات میں) شفافیت اور انصاف نہ حاصل کرلیں۔

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image caption
حسن رضاعی کا کہنا تھا کہ بلیک باکس کے تجزیے کا عمل جمعے سے تہران کے مہرآباد ہوائی اڈے پر شروع ہو گا
تفتیش کیسے کی جا رہی ہے؟
ہوائی بازی سے متعلق بین الاقوامی قوانین کے مطابق ایران تحقیقات کی سربراہی کرنے کا حق رکھتا ہے لیکن اس میں طیارہ بنانے والی کمپنی بھی شامل ہوتی ہے اور ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کچھ ممالک کے ماہرین بلیک باکس کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ایران کی جانب سے کہا گیا ہے کہ یوکرینی طیارے کے فلائیٹ ریکارڈر کے میموری یونٹ ’صحیح سلامت` ہیں۔

ایران کی جانب سے تحقیقات کی سربراہی کرنے والے حسن رضاعی نے جمعے کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ حادثے میں فلائیٹ ڈیٹا ریکارڈر کو نقصان پہنچا لیکن اس کے میموری یونٹ اور کاک پٹ وائس ریکارڈر بظاہر سلامت ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تین ایرانی فضائی کمپنیوں آسمان ایئرلائنز، قسام ایئر اور مہان ایئر کے ماہرین طیارے کے بلیک باکس کے تجزیے میں مدد دیں گے۔

حسن رضاعی کا کہنا تھا کہ بلیک باکس کے تجزیے کا عمل جمعے سے تہران کے مہرآباد ہوائی اڈے پر شروع ہو گا۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ایرانی ماہرین میموری یونٹس سے ڈیٹا حاصل کرنے میں ناکام رہے تو ان کا ملک کینیڈا، روس، فرانس یا یوکرین سے مدد لے سکتا ہے۔

چونکہ یہ طیارہ امریکہ میں بنا تھا اس لیے این ٹی ایس بی کے اہلکار بھی عموماً تفتیش میں شامل ہوتے ہیں مگر امریکہ اور ایران میں موجودہ کشیدگی کے باعث اب ایسا ہونا شاید ممکن نہ ہو پائے۔

طیارہ ساز کمپنی بوئنگ نے کہا ہے کہ وہ تفتیش میں تعاون کے لیے تیار ہے۔ خیال رہے کہ ایران نے طیارے کا بلیک باکس طیارہ بنانے والی بوئنگ کمپنی یا امریکہ کو دینے سے انکار کر دیا ہے تاہم ایران کے وزیر خارجہ نے بوئنگ کمپنی کو سرکاری تحقیقات میں شمولیت کی دعوت دی ہے۔

ابتدا میں ایران نے اس حوالے سے امریکی حکام کو کوئی بھی معلومات فراہم کرنے کی تردید کی تھی۔ بعدازاں ایران کے اقوام متحدہ کی بین الاقوامی سول ایوی ایشن آرگنائزیشن میں نمائندے نے روئٹرز نیوز ایجنسی کو بتایا تھا کہ ایران نے این ٹی ایس بی کو تفتیش میں حصہ لینے کی دعوت دی ہے۔

روئٹرز کے مطابق این ٹی ایس بی نے اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image caption
انجن بنانے والی کمپنی سی ایف ایم نے بدھ کو پیش آئے حادثے کے حوالے سے ہونے والی چہ میگوئیوں کو ‘قبل از وقت’ قرار دیا ہے
ماہرین کا کیا کہنا ہے؟
بی بی سی کے نمائندہ ٹرانسپورٹ ٹام بریج کا کہنا ہے کہ ٹریکنگ ڈیٹا کا تیزی سے غائب ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایک تباہ کن واقعہ پیش آیا ہے۔

شعبہ ہوابازی کے چند ماہرین نے ایرانی سرکاری میڈیا پر اس حادثے کے فورا بعد کیے جانے والے دعوؤں پر بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ ایرانی میڈیا نے حادثے کے کچھ ہی دیر بعد دعوی کیا تھا کہ یہ حادثہ جہاز کے انجن میں لگنے والی آگ کے باعث پیش آیا تھا۔

عمومی طور پر کمرشل ہوائی جہاز کو اس طرح سے ڈیزائن کیا جاتا ہے کہ اگر اس کا ایک انجن ناکارہ بھی ہو جائے تو وہ بحفاظت لینڈنگ کر سکتا ہے۔

انجن بنانے والی کمپنی سی ایف ایم نے بدھ کو پیش آئے حادثے کے حوالے سے ہونے والی چہ میگوئیوں کو ‘قبل از وقت’ قرار دیا ہے۔

اس جہاز کے ‘بلیک باکس’ ملبے سے مل چکے ہیں۔ بلیک باکس میں طیارے کے کاک پٹ میں ہونے والی گفتگو ریکارڈ ہوتی ہے۔

فلائیٹ پی ایس 752 800-737 ایئر کرافٹ ہے جو کافی مقبول ہے اور سنہ 1994 سے اب تک اس ماڈل کے پانچ ہزار طیارے تیار کیے گئے ہیں۔

یہ بوئنگ کے نئے 737 میکس طیاروں سے مختلف ہے اور اس ماڈل میں آٹومیٹڈ سسٹم موجود نہیں ہے۔ یاد رہے کہ 737 میکس طیاروں میں موجود آٹومیٹڈ سسٹم کو حال میں پیش آئے فضائی حادثات کا شاخسانہ قرار دیا گیا تھا۔

800-737 کا حفاظتی ریکارڈ کافی بہتر سمجھا جاتا ہے۔ ایوی ایشن سیفٹی نیٹ ورک، فلائیٹ سیفیٹی ٹریکنگ گروپ، کا کہنا ہے کہ بدھ کا حادثہ اس ماڈل کے بوئنگ طیارے کو پیش آنے والا آٹھواں حادثہ ہے۔

اس گروپ کے سربراہ ہرو رینٹر نے وال سٹریٹ جنرل کو بتایا کہ گذشتہ حادثات میں پائلٹس کی غلطیاں پائی گئیں تھیں۔

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image caption
اس حادثے میں ہلاک ہونے والوں میں 15 بچے بھی شامل ہیں
حادثے کے متاثرین کون ہیں؟
یوکرینی وزیر اعظم اولیکسی ہونچارک نے تصدیق کی کہ طیارے میں 168 مسافر اور عملے کے نو افراد سوار تھے۔

یوکرین کے وزیر خارجہ کے مطابق اس حادثے کا شکار بننے والے مسافروں میں 82 ایرانی، 63 کینیڈین، 11 یوکرینی، 10 سویڈیش، چار افغانی، تین برطانوی، تین جرمن اور عملے کے نو افراد شامل ہیں۔

ہلاک ہونے والوں میں 15 بچے بھی شامل ہیں۔

یوکرین کی وزارت خارجہ کی جانب سے یہ اطلاعات موصول ہونے کے بعد جرمنی کی حکومت نے کہا تپا کہ ‘انھیں اس حوالے سے کوئی معلومات نہیں ہیں کہ آیا ایران میں ہونے والے فضائی حادثے میں جرمن باشندے بھی شامل ہیں۔’

جبکہ برطانوی وزیر اعظم نے اپنے چار شہریوں کی اس حادثے میں ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔

صدر زیلینسکی کے مطابق یوکرین نے ہلاک شدگان کی لاشیں واپس ایران لے جانے کے لیے خصوصی پروازوں کا بندوبست کیا ہے لیکن اس کے لیے وہ ایران کی رضامندی کے منتظر ہیں۔